Saturday, May 7, 2022

ریاستی، عوامی و نجی ملکیت کی لوٹ مار کی ذہنیت کی بنیادیں

 

ریاستی، عوامی و نجی ملکیت کی لوٹ مار کی ذہنیت کی بنیادیں

برصغیر کے سماجی رویوں خصوصا ریاست، ریاستی ملکیت، عوامی ملکیت، نجی ملکیت اورپھرریاست کے عوام کے ساتھ رویے بارے کم ہی تحقیق و تفتیش کی گئی ہے، اگر کی بھی گئی ہے تو یا تو سطحی سی یا مغربی سماجی رویوں کے ساتھ تقابل کے طورپراور یہ کام عوام اورسماج کے تاریخی تدریجی عمل اور تاریخی تجربہ کو نظرانداز کرکے کیا گیا ہے

میرے خیال میں برصغیر کے سماجی رویوں کو سمجھنے کیلئے نادر شاہ کے دہلی پر حملہ، رنجیت سنگھ کی حکومت اور پھر1857 کی بغاوت اور ان سب واقعات میں عوام کے ساتھ کیا بیتی اورانکے دل میں ریاست، حکمران اور حملہ آوروں بارے کیا جذبات پیدا ہوئے کو جاننا بہت ضروری ہے

اوران سب میں بھی جو کچھ 1857 میں ہوا اور پھر کیسے انگریزی راج کے خلاف نفرت و بغاوت کو ہرریاستی ملکیت وعوامی ملکیت کو تباہ کرنے کی ذہنیت کی طرف موڑدیا گیا اور لگادیا گیا کی تحقیق بہت ضروری ہے

انگریزوں کے خلاف 1857 کی بغاوت اور پھر اسکے بعد ہوئی عمومی مزاحمت میں مسلمان دینی طبقہ ایک رہنما کردارلئے ہوئے تھا. یہ بغاوت و مزاحمت ایک گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کی بجائے شدید غصے، جذبات اورردعمل کا شکار تھی، ہمارے علماء کرام نے انگریز کے خلاف جدوجہد کو ریاستی ملکیت و عوامی ملکیت کی لوٹ ماروتباہی کا نام دیدیا، انہوں نے اس بات میں فرق نہ کیا کہ ریاستی ملکیت و عوامی ملکیت جن میں ہر قسم کی ملکیت و اثاثے شامل ہیں وہ اصل میں عوام کے ہی ہیں اورعوام کو انکی تباہی و لوٹ مار پراکسانا اوراسکی حوصلہ افزائی کرنا خود اپنی اوراپنی نسلوں کی ملکیت کی تباہی ہے، مزید یہ کہ اس سے عوام کے دل میں ریاست کے تصور اور وجود ہی کے خلاف ایک ایک ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے اور ریاست کی اہمیت ، عزت اور ناگزیریت عوام کے دلوں سے رخصت ہو جاتی ہے ، وہ اس ذہنیت و رویوں کے پیدا ہونے کے مضمرات کا قطعی اندازہ نہ لگا سکے کہ کل کلاں کو جب انگریز کو برصغیر سے رخصت کردیں گے تو ریاست و عوامی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی کی ذہنیت کیا رنگ لائے گی

انگریزوں کے اقتدار سے لیکر 1947 میں انکے برصغیر سے رخصت ہونے تک عوام اور بالخصوص مسلمان عوام میں یہ ذہنیت راسخ ہوچکی تھی کہ ریاست کے وسائل ، اثاثوں و ملکیت کو لوٹنا جائز ہی نہیں بلکہ کار ثواب ہے اور جہاں اور جب بھی موقع ملے یہ کام کرنا چاہئے کہ اس سے انگریز سرکار کا نقصان ہوتا ہے ، اس ذہنیت اور کام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام کے ذہنوں سے یہ بات بالکل نکل گئی کہ عوامی ملکیت اور نجی ملکیت کو انگریز اقتدار کی ملکیت سے علیحدہ رکھنا ہے اور انہیں اپنی جدوجہد میں بالکل بھی نقصان نہیں پہنچانا، جب بھی کبھی انگریز سرکار کے خلاف مظاہرے ہوئے اور گھیراؤ جلاؤ ہوا اس میں نجی ملکیت اور عوامی ملکیت کو بھی اسی طرح لوٹا اور تباہ کیا گیا جیسے ریاستی اقتدار کی علامتوں و اثاثوں کو لوٹا یا تباہ کیا گیا

پاکستان بننے تک یہ ذہنیت اتنی پختہ و قوی ہوچکی تھی کہ باوجود اس بات کے کہ اب انگریز استعماری اقتدار ختم ہو چکا ہے اور اب ریاست اور اسکے اثاثے آپکے اپنے ہیں ، اس ذہنیت کی بدولت ریاست کے وسائل و اثاثوں کے لوٹ مار کا اتوار بازار لگ گیا

پاکستان بننے کے بعد سیاسی، مذہبی و علمی قیادتوں نے اس طرف دھیان ہی نہ دیا کہ اس خطرناک ذہنیت اور اسکے زہر کو کیسے عوام کے دلوں و ذہنوں سے نکالا جائے اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ اب ریاستی و عوامی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی سخت گناہ، برائی اور گھٹیا بات ہے

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی، مذہبی اور علمی دانشورانہ قیادت اس لوٹ مار و تباہی کی ذہنیت کی مذمت تو کیا کرتی وہ اپنے اپنے ذاتی و طبقاتی مفادات کے تحت نہ صرف خود اس لوٹ مار و تباہی میں شامل ہوگئے بلکہ اسکی حوصلہ افزائی بھی کرنے لگ گئے

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جلسہ جلوس ہو دھرنا ہو ، اکٹھ ہو ہمارے احتجاج کبھی بھی پرامن نہیں رہتے اور وہ ہمیشہ ریاستی، عوامی اور نجی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی پر منتج ہوتے ہیں ، کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی بھی عوامی جلسہ جلوس احتجاج و دھرنے کے نتیجے میں ہوئی ریاستی عوامی اور نجی ملکیت کی لوٹ مار اور تباہی پر کرتا دھرتاؤں نے شرم ، افسوس اور معذرت کا اظہار کیا ہو ، اپنے لوگوں کو سختی سے منع کیا ہو اور لوٹ مار و تباہی پھیلانے والوں کو خود ریاستی اداروں کے حوالے کیا ہو اور انہیں سزائیں دلوائی ہوں تاکہ سب کو عبرت حاصل ہو کہ احتجاج و جلسے جلوس میں ریاستی عوامی اور نجی ملکیت کی لوٹ مار و تباہی کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی قابل قبول ہوگی

جب تک سیاسی مذہبی علمی دانشور قیادت ، عوام میں اس بات کی بیداری شعور اور ذہنیت پیدا نہیں کرتیں کہ ریاستی عوامی و نجی ملکیت مقدس اور اسکو نقصان پہنچانا سخت برا و گناہ کا کام ہے ہم 1857 میں ہی اٹکے رہیں گے اور اپنی ہی بربادی کا سامان پیدا کرتے رہیں گے

Friday, August 2, 2019

سویلین سپرمسی اور ہمارے فکری بونے سیاستدان

سیاستدانوں کےفکری افلاس کی وجہ سے پاکستان میں سویلین سپرمیسی کا مطلب، فوجی اسٹیبلشمنٹ کودبا کر رکھنا سمجھا جاتا ہے اور یہ انتہائی مہلک ذہنیت ہے
عسکری اسٹیبلشمنٹ ، انتظامیہ، خفیہ ادارے ، سفارتی اسٹیبلشمنٹ ، یہ سب کسی بھی قوم کے اپنے ضروری مفادات کے حصول کے ٹولز/اوزار ہوتے ہیں، قومی و ملکی مفادات کا حصول ان اوزاروں کی مدد سےہی ممکن ہوتا اور کوئی بھی ٹول /اوزار کا مقصد اسکو ڈھنگ اور مہارت سےاستعمال کرنا ہوتا ہے، اگر آپ کسی تیز دھار اوزار کو استعمال کرنے کی بجائے اس سے لڑنا شروع ہوجائیں تو نہ صرف اپنے آپکو زخمی کریں گے بلکہ اس اوزار کو کند بھی کریں گے، اب اگر آپکو کسی پیچیدہ ،تیز دھار اوزار کواستعمال کرنےکا ڈھنگ اور طریقہ نہیں آتا تو اپنی نالائقی و نا اہلی کا غصہ اس اوزار پر نکالنے کی بجائے اپنی نا اہلی کو کوسیں ، یا تو آپ اس اوزار کو استعمال کرنے کا طریقہ و سلیقہ حاصل کریں ورنہ اپنی نالائقی تسلیم کرکے کسی اور کو موقع دیں 
امریکہ /یورپ میں قومی سلامتی ، امن امان ، دفاعی و خارجہ معاملات پرتمام سیاستدانوں و حکومتوں کو وہاں کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ و خفیہ ادارے ہی بریف کرتے ہیں اور راہ عمل اور لائحہ عمل مہیا کرتےہیں جن پر وہاں کی منتخب عوامی حکومتیں سوال و جواب کے بعد من وعن عمل درآمد کرتی ہیں اور کوئی حکومت یا سیاستدان یہ نہیں کہتا کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمیں ڈکٹیشن دینے والے . وہ اپنی سیکوریٹی اورفوجی اسٹیبلشمینٹ پر اعتماد کرتے ہیں ان کے ساتھ بہت ہی قریبی کام کے تعلقات بنا کر رکھتے ہیں ، ان سےمسلسل سوال و جواب اور انکی کارکردگی بارے پوچھتے ہیں 
اب یہاں ایک اور سیاپا کیا جاتا ہے کہ ہمیں فوج یا خفیہ اداروں کی کارکردگی بارے سوال وپوچھ گچھ نہیں کرنے دیتے 
بھائی میرے اپنی نالائقی کو مانو ، پہلے اپنی استعداد تو بڑھاؤ ، سال دو سال بعد کارکردگی بارے پوچھنا کچھ معنی نہیں رکھنا ، مسلسل سوال جواب اور ورکنگ ریلیشن شپ تو بناتے نہیں ہیں ، اپنی قابلیت کو بہتر کرتے نہیں یا قابلیت ہے ہی نہیں ہے اور چاہتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا جائے
کتنی حکومتیں ہیں جنہوں نے پاکستان فوج کی مستقبل میں جنگیں لڑنےبارے مقالے لکھے ہوں کبھی اس بارے تجاویز پیش کی ہوں کہ فوج کا ڈھانچہ کیسا ہو ، لڑنے کی استعداد اور طریقہ کیا ہو کیا ہمیں علحدہ علیحدہ فوج چاہئے یا تینوں فوجوں کے درمیان مشترک یونٹ بنائیں جائے ، شہری جنگ والی فوج چاہئے یا دشمن کے علاقہ پر قبضہ والی، فضائیہ ، نیوی اور بڑی فوج کے ملا کر یونٹ بنائیں یا نہیں ، سریع الحرکت فوج چاہیے ، سٹرائیک فورس والی چاہئے ،بمباری والی چاہئے یا ایک روایتی 
ہماری کونسی حکومت ،وزیر دفاع یا اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نےکبھی اس بارے تحقیقی مقالے لکھے ہوں یا سیمینار کروائے ہوں 
بس پوچھ گچھ کا بڑا شوق ہے، وزیر خارجہ تک نہیں رکھتے اور نہ وزارت خارجہ سے کبھی پوچھتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں سے بغیر کسی تحقیق یا تاریخ جانے تعلقات بہتر کرنے کا شوق چڑھا رہتا ہے ، سویلین سپر میسی سویلین سپرمیسی کا خالی ڈھول بجائےجاؤ اورعوام کوبے وقوف بنائے جاؤ 
سویلین سپرمسی اداروں پر قبضہ نہیں ہوتا ، اداروں کے ساتھ مل جل کر ، ان سے مشورہ لیکر ، انکی رائے و تجاویز لیکر اکٹھے کام کرنے کا نام ہوتا ہے ،اپنی نالائقی کو دوسرے کے سر منڈھنے کا نام نہیں ہوتا

تحریک عدم اعتماد-- اصل فکری مفلسی



چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو لیکر کل سے ملک بھر میں چیخ و پکار ہو رہی ہے ، اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے لیکر ان جماعتوں کے عام کارکنان و ہمدردان نے ایک ماتم بپا کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ، ہمارے سینیٹرز کو دھمکایا گیا یا خریدا گیا ورنہ ممکن ہی نہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ، یہ جمہوری روح ، روایات و اخلاقیات کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے
دوسری طرف حکومتی اتحاد کے رہنما اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے نا صرف شاداں و فرحاں ہیں بلکہ اپوزیشن کو طعنے ، طنز اور جگتیں بھی کر رہے ہیں ، اس کار خیر میں حکومتی اتحاد کی قیادتی جماعت ، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان و ہمدردان حصہ بقدر جثہ ڈالتے ہوئے حسب معمول تمام حدوں کو پار کر رہے ہیں
اپوزیشن رہنماؤں نے عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں باقی باتوں کے علاوہ اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ انکے سینیٹرز کو خریدا گیا اور وہ اسکے خلاف تفتیش (انکوائری) کریں گیں اور جو سینیٹرز اس کام میں ملوث ہوئے انکو بے نقاب کیا جائے گا
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے وقت سے لیکر رات گئے تک ہمارے سوشل ، برقی و ورقی میڈیا پر تمام تجزیوں ، بیانات اور سیاسی پروگراموں میں صرف اور صرف ایک ہی بات کا سیاپا ہوا کہ سینیٹرز کی یہ خرید و فروخت غیر جمہوری و غیر اخلاقی رویہ ہے جس سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور عوام کا جمہوریت پر ایماد کمزور پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ
میں کل سے اس بات و نکتے کی تلاش میں ہوں کہ شاید کوئی تو بندہ ایسا ہو جس نے اصل نکتے و مسئلہ کی طرف اشارے سے بھی ذکر کیا ہو، تحریک عدم اعتماد کے مخالفین ہوں یا اسکے حمایتی، تمام کی تمام بحث و دلائل کی بنیاد سیاسی اخلاقیات و سیاسی روایات کی پاسداری پر رکھی گئی ہے اور اس بات پر لفظی جنگ ہورہی ہے کہ موجودہ اپوزیشن جماعتیں چونکہ ماضی میں یہ سب کرتی رہی ہیں تو اب انکا کیا گلہ اور یہ کہ انکو انکی اپنی کڑوی دوائی کا ذائقہ چکھنا پڑا ہے
اپوزیشن جماعتیں، دنیا بھر کی جمہوری روایات کے حوالے دے دے کر پھاوے ہوئی ہوئی ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں لا رہی ہے کہ فلاں فلاں ملک میں اگر حکومتی جماعت کے پاس ایوان میں اکثریت نہ ہو تو وہ چپ چاپ فیصلہ تسلیم کر لیتی ہے اور جمہوری روایت و اخلاقیات کی پاسداری کرتی ہے
اس ساری بحث و دلائل کی بھرمار میں حکومتی اتحاد و اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں ، انکے کارکنان و ہمدردان، ہمارے صحافیوں ، دانشوران ، سوشل میڈیائی مجاہدین ، سیاسی تجزیہ نگاروں الغرض کہ سیاسی شعور کے نام نہاد دعویدار معاشرے کے تمام افراد نے فکری و نظریاتی قلاشی و بھکاری پن کا مظاہرہ کیا. میں نے کل سے ایک بھی بیان ، تجزیہ یا رائے نہیں دیکھی جس میں کہا گیا ہو کہ ووٹ کا خریدنا یا بیچنا اصل میں ایک کریمنل یعنی جرم کا معامله ہے اور متعلقہ محکمے یعنی پولیس ، ایف آئی اے ، آئی بی اور نیب کو فوری طور پر اسکی تفتیش کرکے ووٹ بیچنے والے اور ووٹ خریدنے والے لوگوں کا تعین کرکے ان پر فوری طور پر مقدمہ چلایا جائے اور قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے اور آئندہ کیلئے ان لوگوں کے سیاسی عمل میں شرکت پر آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت تاحیات پابندی لگائی جائے
دنیا کے جمہوری ممالک کی کل سے گلے پھاڑ پھاڑ کر مثالیں دینے والوں میں سے کسی کو بھی اتنی شرم نہ آئی کہ بتاتا کہ ووٹنگ فراڈ ان ممالک میں کتنا سنگین معامله ہے اور ایسی کسی اطلاع کی صورت وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے فورا حرکت میں آ جاتے ہیں اور عام اراکین پارلیمنٹ سے لیکر وزراء ، وزیر اعظم اور صدر تک کو شامل تفتیش کر لیتے ہیں اور کسی کو کوئی رو رعایت نہیں ملتی
 کیا اپوزیشن اتحاد کے کسی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی قانون نافذ کرنے والے ادارے فورا تفتیش کریں اور ذمہ داروں کو بے نقاب کریں ، جناب یہ آپ کی جماعت کا اندرونی معامله ہرگز ہرگز نہیں ہے یہ ایک کریمنل معامله ہے اور آپکو خود اپنے تمام سینیٹرز کو شامل تفتیش کروا دینا چاہئے تاکہ پتہ چلے کن کن لوگوں نے ان سے ووٹ خریدے یا انہیں دھمکایا ڈرایا
ایک عام اداکارہ سے ائیرپورٹ پر شراب کی بوتل برآمد ہونے پر سوموٹو لینے والی ہماری عدالت عظمیٰ کو بھی چاہئے کہ اس انتہائی سنگین معاملے پر سوموٹو لے اور ایک عدد جے آئی ٹی کا اعلان کرے جس میں سوائے فوجی اداروں کے صرف سویلین ادارے شامل ہوں
اگر حکومتی اتحاد ، اپوزیشن اتحاد، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آپکی عدالت عظمیٰ اس سنگین معاملے پر لسی پی کر سوئے رہتے ہیں تو جان لیجئے کہ کتی چوراں نال رلی ہوئی جے
اور ہاں جن لوگوں کو کوئی شک ہے کہ یہ کریمنل معامله نہیں ہے انہیں پاکستان پینل کوڈ کا آرٹیکل ایک سو اکہتر تفصیل سے پڑھ لینا چاہئے

Sunday, July 28, 2019

مماثلت کے مغالطے



پاکستان میں اکثر لوگ اس بات پر الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں کہ دو بالکل متضاد خیالات و نظریات کے لوگ کچھ معاملات میں بالکل ایک جیسے خیالات و عمل کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے ، اور لوگ ان کے اس عمل کو دیکھ کر یا تو ان پر انکی فکر و نظریہ سے روگردانی کا الزام لگانا شروع کردیتے ہیں یا انہیں وقتی مفادات کا اسیر قرار دیکر نفرت کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں اور آخر کار فکری و نظریاتی لوگوں بارے یہ عمومی رائے دے دی جاتی ہے کہ سب ان لوگوں کا ڈھونگ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ بالکل متضاد نظریات کے لوگ کسی معاملے میں ایک جیسی ہی رائے کا اظہار کریں
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاملے پر لیبر پارٹی اور کنزروٹیو پارٹی میں ہوئی اندرونی تقسیم اس نکتےکی وضاحت کیلئے اہم مثال ہے اور خاص طور پر لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن اور اسکے قریبی ساتھیوں کا یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج بارے موافقانہ موقف
یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حمایتیوں خصوصا کرتا دھرتاؤں بارے عموما یہ رائے یا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرست ، ماضی میں رہنے والے، طبقاتی نظام کے حمایتی، غیرملکیوں سے نفرت کرنے والے اور سرمایہ داروں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے اور انکے لے پالک ہیں، لیکن جب ہم لیبر پارٹی کی موجودہ قیادت یعنی جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو حیرانی سی ہوتی ہے کہ وہ سب تو قوم پرستی کے خلاف ،ہر رنگ و نسل کے مشترکہ سماج کے حامی، مستقبل کی طرف دیکھنے والے ، سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے سخت مخالف اور سوشلزم کے شدید حمایتی
اب ایسے دو انتہائی متضاد لوگوں اور گروہوں کے کسی ایک معاملے پر ایک جیسی رائے و خیال لوگوں کیلئے انتہائی الجھاؤ والی صورتحال بن جاتی ہے اور لوگ شدید حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جیریمی کوربن ، کنزروٹیو پارٹی کے ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو جن سے اسکا نظریاتی و فکری طور پر اٹ کتے کا ویر ہو
اصل میں اس سارے معاملے میں عام لوگ عموما جو غلطی کرتے ہیں وہ اس اصل نکتے جس پر سارا قضیہ کھڑا ہوتا ہے کی بجائے اس نکتے کے حمایتی یا مخالف لوگوں کی قطار اور صف بندی کو دیکھ اس پر حکم صادر کر دیتے ہیں اور یوں خود بھی الجھاؤ کے شکار رہتے ہیں اور ایک ایسی فضاء بھی تیار کردیتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی اسی الجھاؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، ایسا عموما اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عام لوگ گہرائی میں جا کر اس اصل نکتے یا قضیے کا تجزیہ یا چیر پھاڑ نہیں کرتے جسکی وجہ سے یہ صف بندی یا تقسیم پیدا ہوئی ہوتی ہے اور نہ اس صف بندی میں کھڑے مختلف الخیال لوگوں کے طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں
اگر ہم لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کے نظرئیے، طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کو دیکھیں تو ان کی جدوجہد اس حوالے سے ہے کہ سرمایہ داروں کے تسلط کو ختم کیا جائے، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے چنگل سے عوام کو آزاد کیا جائے، صحت ، تعلیم ، ذرائع رسل و رسائل اور دوسری عوامی خدمات میں ہوئی نجکاری کو ختم کیا جائے، سماجی ہم آہنگی پیدا کی جائے، معاشرے میں سماجی تفریق کو ختم کیا جائے اور تمام لوگوں کو تعلیم و ترقی کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں، اس حوالے سے وہ یہ دیکھتے ہیں یورپین یونین کا منصوبہ اصل میں ملکی سطح سے بھی اوپر عالمی سرمایہ داروں اور انکے بینکوں و مالیاتی اداروں کے تسلط کا منصوبہ تھا جس میں باوجود کچھ اچھے نقاط کے اصل میں عام عوام کی خواہشات ، امنگوں و ارادوں کو کچلا گیا، اس منصوبے سے حکومتی اختیار، عوام کے ہاتھ سے نکل کر یورپی یونین کی سطح پر چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنے لگ گئے اور یہ سارے فیصلے اس بنیاد پر تھے کہ ک ان سرمایہ داروں کے ہاتھ میں نہ صرف عوامی و ملکی وسائل کا کنٹرول آ جائے بلکہ عوام کی زندگیوں کا کنٹرول بھی انکے ہاتھ میں آ جائے
جب برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا معامله ایک اہم عوامی مطالبہ بن گیا تو ان لوگوں کے خیال میں انکے نظریاتی و فکری مقاصد و حکمت عملی کیلئے یہ انتہائی اہم اور پہلا قدم تھا کہ برطانیہ کو عالمی سرمایہ داروں کے چنگل سے نکالا جائے ، یہ درست ہے کہ اخراج کے دائیں بازو کے کٹڑ حمایتیوں کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ہم برطانیہ کو یورپی یونین کے تسلط سے آزاد کروانا چاہتے ہیں لیکن انکا اصل مقصد عالمی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے سے برطانیہ کے معاملات کو آزاد کروا کر مقامی برطانوی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے میں دینا ہے اور طبقاتی نظام کو قائم رکھنا اور عوامی خدمات کی نجکاری کرنا ہے. تو ایسی صورتحال میں جیریمی کوربن اور اسکے سوشلسٹ ساتھیوں کا اخراج کی حمایت کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے دشمن کی طاقت کو کم کیا جائے اور ایک عالمی سطح کے دشمن جس کے پاس عالمی سطح کے وسائل و اختیار ہوں سے لڑنا انتہائی مشکل ہے بنسبت اس دشمن کے جس کے پاس وسائل و اختیار صرف ایک ملکی سطح پر ہے ، یعنی ایک چھوٹا اور کمزور دشمن
تو یوں بظاہرجو نظر آتا ہے کہ بورس جانسن جیسے اخراج کے کٹڑ حمایتیوں کے منصوبے کے ساتھ جیریمی کوربن جیسے انتہائی نظریاتی مخالف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں وہ اصل میں محض نظر کا دھوکہ اور صورتحال کو گہرائی میں نہ جا کر دیکھنے کا نتیجہ ہے جبکہ یہ ایک طویل المیعاد مقصد و حکمت عملی کا حصہ ہے نہ کہ بورس جانسن اور اسکے دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرستوں کی کسی بھی قسم کی حمایت یا اعانت
اب سوچ و تخیل کے اس زاویے کو ہم پاکستان میں بننے والے مختلف سیاسی اتحادوں یا گٹھ بندوں پر منطبق کریں تو ہمیں دکھائی دینے لگے گا کہ متضاد خیال مختلف سیاسی جماعتوں کا کسی خاص معاملے یا مسئلہ پر اکٹھا ہونا یا ایک ہی صف میں نظر آنے کا کیا مطلب ہے اور اسی طرح کسی خاص معاملے یا مسئلہ پرنظریاتی و فکری مخالف کیوں ایک ہی صف بندی یا قطار میں نظر آتے ہیں
اس لئے کسی بھی معاملے ، قضیے یا مسئلے پر لوگوں کی رائے یا عمل کی مماثلت کے مغالطے سے بچنا خود اپنی فکری شفافیت کے حصول اور فکری الجھاؤ سے بچاؤ کیلئے اشد ضروری ہوتا ہے اور اصل مسئلے، قضیے و معاملے بارے مختلف الخیال لوگوں کے اپنے نظریاتی و فکری طویل المدت مقاصد و حکمت عملی کوجاننا اور پرکھنا بہت ضروری ہوتا ہے

Monday, July 22, 2019

اعلیٰ تعلیم کا مجوزہ نظام اور نیو لبرل ازم حکمت عملی


برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے زمانہ سے لیکر انیس سو اسی کی دہائی تک یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم پر امیر اور اونچے متوسط طبقہ کی ایک طرح سے اجارہ داری رہی اور اسکی وجہ سے سرکاری و نجی تمام بہتر اور انتظامی عہدوں پر ان طبقات کا غلبہ رہا

اس صورتحال کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انیس سو پچاس کے بعد سے غریب طبقات کے بچوں کو سکول کی تعلیم کے بعد فوری طور پر کسی نہ کسی فیکٹری/کارخانے یا ادارے میں نچلے درجہ کی نوکری مل جاتی تھی اور وہ نوکری ایک طرح سے زندگی بھر کیلئے مستقل سمجھی جاتی تھی، اس لئے غریب طبقات کیلئے چار چھ سال اعلیٰ تعلیم میں صرف کرنے کے بعد نوکری کا حصول کبھی بھی پرکشش نہ تھا اور ویسے بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں ماں باپ، انکلز ، آنٹیز، بڑے بھائی بہن دوست احباب کو سکول کی تعلیم کے بعد فیکٹری میں نوکری کرتے دیکھا ہو وہاں زندگی میں یہی بڑی امید اور کامیابی سمجھی جاتی تھی ، اس طرح کی زندگی میں کبھی بھی بڑے عہدوں کی آرزو اور امنگ پیدا نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسکا کوئی حقیقی موقع

انیس سو اسی کی دہائی سے برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی کنزرویٹوپارٹی کی حکومت نے برطانیہ کی اقتصادیات کو مینوفیکچرنگ کی بنیاد سے خدمات یعنی سروسز کی بنیاد والی اقتصادیات کی طرف منتقل کرنا شروع کردیا، اس حکومتی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں شدید کمی آئی اور آئے دن بڑے کارخانوں اور انڈسٹریل یونٹ کے بند ہونے سے شدید بیروزگاری آئی.

یہ سب کام نیو لبرل سرمایہ داری کا برطانیہ و امریکہ میں بالخصوص اور یورپ میں بالعموم آغاز تھا، مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کو ہی اصل میں نیو لبرل سرمایہ داری کی سیاسی قیادت و ریاستی نفاذ کنندگان سمجھا جاتا ہے کہ انہیں کے دور میں عوامی خدمات میں کٹوتی اور سرکاری اداروں کی دھڑا دھڑ نجکاری شروع کی گئی تھی .

غریب و نچلے طبقات کیلئے مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں نوکریوں کی کمی اور اس دور میں نئی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ظہور کی وجہ سے ان طبقات کے بچوں میں یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم کا شوق و شعور پیدا ہوا. چونکہ سروس انڈسٹری کی بنیاد ہی کمپیوٹنگ اور آئی ٹی انڈسٹری پر تھی اور امیر و اپر مڈل کلاس کا ان شعبوں میں کوئی رجحان نہ تھا تو غریب اور نچلے طبقات کی ایک کثیر تعداد نئی ٹیکنالوجی ، جس میں آئی ٹی اور ٹیلیکام سے متعلقہ شعبے تھے میں چلی گئی اور نہ صرف اچھی تنخواہیں لینے لگی بلکہ مڈل مینجمینٹ میں بھی پہنچنے لگی،اس کے علاوہ اس مفت اعلیٰ تعلیم کے مواقع کی وجہ سے نچلے طبقات (ورکنگ کلاس ) کے لوگ ان شعبوں میں بھی جانا شروع ہوگئے جو کہ روایتی طور پر امیر اور اعلیٰ طبقات کیلئے مخصوص تھے ، یعنی قانون ، طب، سماجی علوم، فنانس، بینکنگ اور معاشیات. نیو لبرل سرمایہ داری کا ایک اہم جز، آزاد منڈی کی معیشت (فرو مارکیٹ اکانومی)، سرمائے اور لوگوں کی آزادانہ نقل حرکت بھی تھی تو اس مجبوری کی وجہ سے غریب اور نچلے طبقات کو نئی ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں کی مینجمنٹ میں برداشت کرنا پڑا، نئی ٹیکنالوجی صرف آئی ٹی اور ٹیلیکام تک ہی محدود نہ رہی بلکہ ہر طرح کی مینوفیکچرنگ میں خود کاری یعنی آٹومیشن اور روبوٹس در آئے جن کی بنیاد بھی آئی ٹی کے ہی ذیلی شعبے تھے

اس سے دولتمندوں کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا جس کا تعلق پرانے امیر یا اپر مڈل کلاس کی بجائے غریب و نچلے طبقات سے تھا (یورپ امریکہ میں پاکستانی بھارتی و چینی لوگوں کی دوسری نسل کے اچانک امیر ہونے کے پیچھے بھی یہی عوامل اور شعبہ جات ہیں). اس نئے امیر طبقہ نے اپنے بچوں، بھائی بندوں کو دھڑا دھڑ یونیورسٹی بھیجنا اور اعلیٰ تعلیم دلوانی شروع کردی، برطانیہ میں انیس سو ستانوے تک ہر طرح کی یونیورسٹی کی تعلیم مفت تھی تو اس بات کا غریب و نچلے طبقات نے بھرپور فائدہ اٹھایا

نوے کی دہائی کے وسط میں ہی نیولبرل سرمایہ داروں کو یہ احساس ہونے لگ گیا کہ مفت کی اعلیٰ تعلیم سے ان کی معاشی اجارہ داری کو خطرہ و چیلنج درپیش ہے تو اس بارے کچھ کرنا ہوگا تاکہ غریب اور نچلے طبقات کے لوگ معاشی آزادی کی بنا پر انکے تسلط و غلبہ کو ختم نہ کردیں. برطانیہ جہاں پر نیولبرل سرمایہ داری کا کامیابی سے نفاذ کیا گیا تھا میں اس بات پر کمشن بنایا گیا کہ جائزہ لے کہ مفت کی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی سے حکومتی خزانے پر کتنا بوجھ پڑ رہا ہے اور اس عوامی خرچ کو کم اور پھر ختم کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ، لیبر پارٹی جو نظریاتی طور پر سوشلسٹ ، نظریہ، پس منظر اور حکمت عملی رکھتی تھی میں نقب لگا کر ان لوگوں (ٹونی بلئیر ) کو پروموٹ کیا گیا جی نیو لبرل سرمایہ داری کے ایجنڈے کا ساتھ بالکل متفق تھے اور لیبر کی جگہ نیو لیبر پارٹی کا تصور رائج کیا گیا اور پھر ٹونی بلئیر کی وہی نیو لیبر پارٹی تھی جس نے انیس سو ستانوے میں اقتدار میں آ کر یونیورسٹی میں مفت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے طلباء کیلئے پڑھائی کے اخراجات ادا کرنے لازمی کردئیے 

تعلیمی نظام میں اس نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ غریب اور نچلا طبقہ جو کہ ورکنگ کلاس کہلاتا تھا کے بچوں کو ایک بار پھر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہونا شروع ہوگئے کہ اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کی ادائیگی بتدریج اس ورکنگ کلاس کے بس سے باہر ہوتی گئی اور بیس سال بعد اب یہ صورتحال ہے کہ ورکنگ کلاس کے لوگوں کا اعلیٰ تعلیم میں تناسب کم ہونا شروع ہوگیا ہے اور اگر وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے جاتے بھی ہیں تو جب ڈگری لیکر نکلتے ہیں تو ان پر پچاس ساٹھ ہزار پاونڈز کا قرض چڑھا ہوتا ہے. وہ جب نوکری حاصل کرتے ہیں تو اس قرض کی ادائیگی کی وجہ سے کسی بھی سیاسی جدوجہد کا حصہ بننے سے قاصر ہوجاتے ہیں کہ اس سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اگر نوکری چھن گئی تو قرض کیسے ادا ہوگا 

یعنی تعلیم کی نجکاری کی نیو لبرل پالیسی سے کثیر جہتی مفاد حاصل کیے گئے، ورکنگ کلاس طبقہ کو اعلیٰ تعلیم سے ایک بار پھر محدود کردیا گیا، ان پر تعلیم کے حصول کی بنیاد پر قرض کا انبار کھڑا کردیا گیا، ورکنگ کلاس کے دل میں ڈر و خوف پیدا کردیا گیا کہ اگر انہوں نے کسی بھی قسم کی عوامی حقوق و عوامی برابری کی کسی سیاسی جدوجہد میں حصہ بننے کی کوشش کی تو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور قرض کی ادائیگی نہ کر پائیں گے. مزید یہ کہ تعلیم کے اعتبار سے بھی انہیں ان شعبوں میں محدود کردیا گیا جو کہ صرف اور صرف ٹیکنالوجی سے متعلقہ ہیں کہ آزاد منڈی کی معیشت اور نیو لبرل سرمایہ داری کو اچھے ملازموں کیلیے صرف ان شعبوں کے "ماہرین" کی ضرورت ہے اور سماجی علوم ، فلسفہ ،قانون، سیاسیات،فنانس، بینکنگ، اقتصادیات جیسے نان ٹیکنیکل مضامین وغیرہ میں جانے اور پڑھنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں . حالانکہ یہی مضامین ہیں جن میں مہارت کسی بھی معاشرے کو چلانے ، ترتیب دینے اور آگے لیجانے کیلئے اشد ضرورت ہوتی ہے

اگر پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو اعلیٰ تعلیم کے نجی تعلیمی اداروں کا قیام بھی نوے کی دہائی میں شروع ہوا جو کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنے عروج کو پہنچ گیا. تعلیم کی اس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری ادارے اپنا معیار کھو بیٹھے اور ان سے فارغ التحصیل طلباء کے اعلیٰ عہدوں اور اہم شعبوں میں جانے کے مواقع ناممکن ہی ہوگئے اور اب وہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اداروں میں تعلیمی اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ غریب کو تو چھوڑیں، متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کیلیے اپنے دو تین بچوں کو یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم دلوانا تقریبا ناممکن ہی ہے

تعلیم کی نجکاری اور مخصوص شعبوں کی ہی تعلیم جو منڈی کی معیشت کیلئے تابعدار اور اچھے ملازم پیدا کرے ، نیو لبرل سرمایہ داری کا ایجنڈہ و حکمت عملی ہے جس پر عمران خان کی حکومت مکمل یکسوئی کے ساتھ کاربند ہے اور آئندہ چند سالوں میں موجودہ تعلیمی نظام کو بدل کر اسکی جگہ تجویز کردہ نظام کا نفاذ مقصود ہے

Tuesday, July 16, 2019

ہمارا تعلیمی نظام اور امتحانی نمبر گیم




میٹرک کے نتائج کو لیکر کل سے پاکستان میں پھر سے تعلیمی نظام اور اسکے انحطاط کو لیکر دھواں دھار بحث چھڑی ہوئی ہے ، بحث کا غالب حصہ اس پہلو پر ہے کہ طلباء و طالبات کس طرح سے ننانوے فیصد نمبر لینے پر پہنچے ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ اتنے زیادہ نمبر لینے کے باوجود ان طلباء و طالبات کو ان مضامین جن میں یہ نمبر حاصل کیے ہیں کا کوئی فہم یا ادراک تک نہیں ہے

احباب اس بات پر بھی دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں کہ "ہمارے زمانے" میں تو 
کسی کے ساڑھے آٹھ سو میں سے سات سو نمبر آ جاتے تھے تو بورڈ میں پوزیشن آ جاتی تھی . محلے و شہر میں شور مچ جاتا تھا اور خاندان میں واہ واہ ہو جاتی تھی اور اب تو ہر دوسرا بچہ /بچی گیارہ سو میں سے ١٠٥٠ نمبر لئے بیٹھا ہوتا ہے

بحث اس بات پر بھی جاری ہے کہ نا صرف مسئلہ میٹرک یا ایف اس سی میں منوں کے حساب سے نمبر حاصل کرنے پر ہے بلکہ گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے طالب علم بھی انگریزی میں ڈھنگ کی چار سطریں تک نہیں لکھ سکتے اور اپنے متعلقہ مضمون میں انکا علم بھی بس واجبی سا ہی ہوتا ہے اور زندگی کے کسی بھی معاملے میں انکی سوچ علم فہم و ذہنیت میں کسی قسم کی کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی

ان تمام کمیوں کوتاہیوں مسائل کو اجاگر کرنے بارے ہر شخص کی اپنی رائے ہے، کوئی تعلیمی نصاب کو اسکا قصوروار ٹھہراتا ہے ، کوئی اساتذہ کو ، کوئی والدین کو کہ بچے کی افتاد طبع کی بجائے اپنی مرضی ٹھونستے ہیں، کوئی تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو، کوئی معاشرے میں موجود شدت پسندی اور مذہبی رہنماؤں کو اور کسی اور کو کچھ اور نہیں سوجھتا تو اسکی تان بالاخر ضیاء الحق پر جا ٹوٹتی ہے

اس ساری بحث میں جو سب سے اہم بات یعنی ان تمام مسائل کی اصل وجہ کیا ہے اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یا ہونا چاہئے بالکل ہی غائب ہے

میرا اس مضمون لکھنے کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ تعلیمی نظام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کی جائے اور ہر شخص اس معاملے میں اپنا اپنا حل پیش کرے اور پھر اس پر ایک قومی بحث شروع ہو اور تمام پیش کردہ حلوں میں سے بہترین حل چن کر انکا نفاذ کیا جائے تاکہ ہم ہر سال کے امتحان کے نتائج کے موسم میں آئے اس باسی کڑھی کے ابال سے محفوظ رہیں

پاکستان اور برطانیہ میں تعلیمی نظام سے مستفید ہونے کے ذاتی تجربہ کی بنا پر میری یہ گزارشات ہیں

میٹرک اور ایف اس سی میں مضامین کو ایک خاص بندش میں ہی پڑھنے اور امتحان دینے پر پابندی کو فورا ختم کیا جائے ، یعنی صرف آرٹس اور سائنس کی تقسیم پر مشتمل مضامین کے مرکب یعنی کومبینیشن کی بندش کا خاتمہ. تعلیم کو صرف دو خانوں یعنی آرٹس و سائنس میں تقسیم کرکے ہم نے تعلیمی اچھوت پن پیدا کیا ہوا ہے اور مزید یہ کہ اگر کوئی طالب علم کسی سائنسی مضمون کو کسی آرٹس (ہیومینیٹیز) کے مضمون کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے اس انتخاب کا حق ہی نہیں دیا جاتا. ایف اس سی میں میری اپنی خواہش یہ تھی کہ میں میتھیمیٹکس کے مضمون کے ساتھ فلسفہ اور سیاسیات پڑھ سکوں لیکن یہ حق انتخاب نہ آج سے تیس سال پہلے تھا اور نہ ہی آج کسی طالبعلم کو میسر ہے

مضامین کو میٹرک اور ایف اس سی میں صرف سائنس اور آرٹس کے غیر لچکدار مرکب میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ایک تعلیمی اچھوت پن پیدا ہوگیا ہے جس میں سائنس پڑھنا تعلیمی برہمنیت اور ہیومنیٹیز کے مضامین کی تعلیم، تعلیمی شودرپن خیال کیا جانے لگا ہے، اس پر مزید یہ کام کیا گیا ہے کہ سائنس کے مضامین والوں کو تو آرٹس کی کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلے کا موقع فراہم کردیا گیا جبکہ ہیومنیٹیز والوں کو سائنس کی ڈگری میں داخلے کا کوئی موقع میسر نہیں

ایف اس سی میں صرف تین مضامین کو بنیادی قرار دیا جائے اور کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلہ کیلئے کم از کم دو متعلقہ بنیادی مضامین کی شرط لگا دی جائے اور صرف انہی متعلقہ مضامین میں اعلیٰ نمبر داخلے کی بنیادی شرط ہوں مثال کے طور پر اگر آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنی ہے تو اسکے لئے انگریزی زبان ، فلسفہ ، سیاسیات ، سماجیات ، نفسیات، انگریزی ادب، اردو ادب وغیرہ میں سے کوئی بھی دو بنیادی مضامین کا ہونا ضروری ہو

امتحانات میں بجائے نمبر دینے کے صرف گریڈ دئیے جائیں اور گریڈز کے بینڈ بنا دئیے جائیں، یعنی ٩٠ فیصد سے اوپر اے پلس ، پچاسی سے ٩٠ فیصد کے درمیان نمبر، اے گریڈ، اسی سے پچاسی فیصد کے درمیان ، بی پلس گریڈ، پچھتر سے اسی فیصد کے درمیان بی گریڈ، ستر سے پچھتر فیصد کے درمیان سی پلس گریڈ، پیسنٹھ سے ستر فیصد کے درمیان سی گریڈ  وغیرہ وغیرہ ، یہ سب گریڈنگ کا نظام مضمون میں حاصل کردہ نمبر پر ہی ہو اور بورڈ میں پوزیشن ہولڈر والی ڈرامہ بازی ختم کی جائے
   

Monday, June 18, 2018

نوکری نہ ملنے کی مظلومیت اور خود ترسی


ہمارے سماج میں لڑکیوں کے اچھے رشنے نہ ملنے کے ساتھ ساتھ اسی شدومد سے کیا جانے والا دوسرا سیاپا نوکری اور خاص طور پر سرکاری نوکری کے نہ ملنے کا کیا جاتا ہے
اکثر نوجوان ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، عام تعلیم یافتہ ہوں یا نیم خواندہ ہوں ، سب کا یہی رونا ہوتا ہے کہ تعلیم و مہارت حاصل کیے اتنے سال ہوگئے ہیں ، کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل رہی ، عمر گزر رہی ہے ، ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے ، سخت پریشانی اور ٹینشن میں رہتے ہیں ، والدین کی امیدوں پر پورے نہیں اتر پا رہے ، وغیرہ وغیرہ 
ان سب مسائل کے بارے میں گفتگو کرنے کا ایک عام سطحی انداز اور سطحی حل تو یہ ہے کہ اس سب صورتحال کا حکومت وقت یا نظام کو قصوروار ٹھہرا دیا جائے، حکومت اور حکومتی اہلکاروں و منتخب نمائندوں کو کوسنے دئیے جائیں ، اور حکومت سے مزید سرکاری نوکریاں پیدا کرنے کے مطالبات کیے جائیں اور منتخب نمائندوں کی سفارشیں ڈھونڈی جائیں یا رشوت دیکر نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی جائے 
یہ حل نہایت سادہ اور فرد کی اپنی نالائقی ، سستی ، انانیت اور خود ترسی کیلئے بہت پرکشش اور ذمہ داری سے فرار کا آسان راستہ فراہم کرتا ہے اور اسی لئے متاثرہ فرد اسی میں مشغول رہتا ہے اور اپنی مظلومیت اور خود ترسی کے خول سے کبھی بھی باہر نہیں آتا
اگر واقعی میں ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں اور ایک مستقل اور پائیدار حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس سطحی سوچ اور سطحی حل کی دنیا سے باہر آکر سوچ بچار کرنی ہوگی، سارے مسئلے اور معاملے پر گہرا غوروفکر کرنا ہوگا 

بیروزگاری یا نوکری نہ ملنا، اسکی کئی معاشی ، سماجی ، سیاسی اور  نظریاتی جہتیں یعنی سمتیں ہیں ، اس مضمون میں ان سب کا احاطہ تو ہرگز ممکن نہیں لیکن پھر بھی کچھ کوشش ہوگی کہ ان جہتوں کی بات کی جائے جن پر جانتے بوجھتے یا نہ جانتے ہوئے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے

سب سے پہلی اور اہم ترین جہت تو یہ ہے کہ ہم نے کولونیل ازم کے تحت زندگی گزارنے کے دوران اپنی سوچ اور ذہنیت صرف اور صرف ایک نوکری پیشہ فرد یا قوم کی بنا لی ہے ، ہم نے اپنا نظام تعلیم جو آنے والی نسلوں کی تیاری، مستقبل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی ،نت نئی ایجادات و کاروبار،  معاشی و اقتصادی بڑھوتری و خوشحالی اور ایک مضبوط اور ہم آہنگ قوم کی ضمانت اور بنیاد ہوتا ہے ، اسکو صرف اور صرف نوکری پیشہ افراد کو پیدا کرنے والی ایک گھٹیا اور بھدی مشین تک محدود کر دیا ہے 

ہم نے اپنا نظام تعلیم اور اس میں طالبعلموں کی ذہنیت کو اس حد تک پست کردیا ہے کہ ہمارے بہترین اذہان کی معراج تعلیم مکمل کرنے کے بعد صرف اور صرف نوکری پیشہ ہونا ہوتا ہے ، آپ ملک کے بہترین میڈیکل کے اداروں، انجنیئرنگ کے اداروں یا آئی ٹی کے اداروں میں تعلیم حاصل کرتے نوجوانوں سے یہ سوال پوچھ لیں کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیا کریں گے تو ٩٩ فیصد کا جواب آپکو یہ ملے گا کہ وہ نوکری ڈھونڈیں گے ، آپکو ان میں سے شاید ہی کوئی طالبعلم ملے جو یہ کہے کہ وہ اپنا کاروبار شروع کرے گا ، وہ کوئی نئی ایجاد پر کام کرے گا ، وہ کوئی نئی دوائی بنانے کی کوشش کرے گا ، وہ انٹرپرینیور بنے گا ، وہ کاروبار یا کسی نئے معاشی یا اقتصادی ماڈل پر کام کرے گا ، وہ ملک میں کسی نئی پراڈکٹ کو لانچ کرے گا یا مارکیٹ میں موجود کسی گیپ کا فائدہ اٹھا کر کوئی نئے تجارتی مواقع پیدا کرے گا 
مرے پر سو درے، نظام تعلیم ایک انتہائی پست اور گھٹیا قسم کا احساس تکبر یا نخوت بھی پیدا کرتا ہے جس میں نوکری کرنا کسی کاروبار کرنے سے سماجی طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے اور کسی کاروبار کو اسکے معاشی و اقتصادی فوائد کی بجائے اسکے صدیوں پرانے فرسودہ و گھٹیا سماجی پیمانوں سے ماپنے کی کوشش کی جاتی ہے ، نا صرف یہ بلکہ بیکار یا بیروزگار پھرنا کسی کاروبار کرنے سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور اس طرح کے فقرے عام سننے کو ملتے ہیں کہ ماسٹر کرنے کے بعد کیا میں یہ کام کروں وغیرہ وغیرہ
نظام تعلیم سے ہی جڑا ایک اور پہلو جس پر ہم غور کرنے کا تکلف نہیں کرتے وہ تعلیم میں تخصیص یعنی سپیشلائزیشن کی بجائے تعلیم کی عمومیت یعنی جنریلٹی ہے ، ہمارا نظام تعلیم تھوک کے حساب سے ان مضامین کی تعلیم دیتا ہے جنکا عام زندگی میں کسی خاص مہارت یا تحقیق سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اور کئی صورتوں میں تو سائنس کے مضامین کی تعلیم بھی ایسے دی جاتی ہے کہ اس سے طالبعلموں کو کوئی خاص مہارت  یا  تحقیقی سوچ نہیں ملتی ، حالات اس حد تک بگڑے ہوئے ہیں کہ کسی زبان میں ماسٹر کرنے کا مطلب اس زبان کے چند شعراء یا ادیبوں کی تحریوں سے واقفیت یا ان پر تنقیدی مضامین لکھ مارنے کی قابلیت حاصل کرنا ہے نہ کہ زبان کی ساخت ، اس میں تاریخی و سماجی تبدیلیوں کا علم ، الفاظ کا نت نیا استعمال و بڑھاؤ ، انسانی ذہن و شعور کی بڑھوتری میں زبان کا کردار ، سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، سیکولر ، لبرل و الحادی نظریات کے وجود اور بڑھوتری میں زبان کا کردار ، کسی خاص تحریر یا تقریر کے معاشرے کی کایا پلٹ دینے کی اہمیت وغیرہ وغیرہ 
سائنسی و غیر سائنسی عمومی تعلیم حاصل کردہ نوجوانوں کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر انکو براہ راست ڈپٹی کمشنر نہیں لگا سکتے تو انہیں کم از کم کسی سکول یا کالج میں استاد کی نوکری ضرور دی جائے . یہ ایک ایسا مضحکہ خیز اور آنے والی نسلوں پر ظلم کا مطالبہ ہے کہ خدا کی پناہ . کسی مضمون میں محض ماسٹر ڈگری کا حصول ، استاد بننے کا لائسنس نہیں ہے، استاد بننے کیلئے کسی شخص میں تعلیم سے شدید شغف، نفسیاتی و جذباتی توازن، تعلیم دینے کی صلاحیت، صبر، تحمل، طالب علم کے پوٹینشل کو جاننے کی صلاحیت اور کسی بھی معاملے میں اسکی تعلیمی ضروریات کو مقدم دینے کی ضرورت سے واقفیت اشد ضروری ہوتی ہے ، نظام تعلیم سے وابستہ ہمارے کتنے اساتذہ ان سب سے واقف ہیں ، نظام تعلیم کے پیدا کردہ نوجوانوں سے آپ اسکا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں

ہمارے لوگ امریکی یورپی جاپانی چینی، کامیاب لوگوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اور انکا تقابل کرتے اپنے آپکو پیٹتے اور کوستے رہتے ہیں  لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا، کبھی سوچا ، کبھی تحقیق کی کہ ان میں کتنے لوگ ہیں جو نوکری پیشہ تھے یا ہیں، کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی کاروباری سلطنت کا آغاز ایک معمولی سی دوکان یا ٹھیلے سے کیا یا اپنے کاروبار کا آغاز لوگوں کے گھر گھر پھر کر کیا 
اگر ترکی جیسے ملک میں کوئی کاروباری شخص ، لسی کی مارکٹنگ کرکے اسکو عالمی سطح پر ایکسپورٹ کرسکتا ہے تو ہم میں سے کسی کو یہ خیال کیوں نہ آسکا کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے اپنے آپکو محض نوکری پیشہ ہونے تک محدود کیا ہوا ہے

اسلئے سب سے پہلے تو تعلیم کیلئے درست مضامین کا انتخاب کیجئے اور ان مضامین میں امتیاز، فضیلت اور مہارت حاصل کریں اور اسکے بعد نوکری نہ ملنے کی خود ساختہ مظلومیت و خود ترسی کے شکنجے و خول سے باہر نکلیں ، اپنی ذہنیت و سوچ کو نوکری پیشہ ہونے سے بلند کریں ، ، تعلیم کو نوکری کا زینہ سمجھنے کی بجائے اسکو شعور و ذہنی استعداد و مہارت میں اضافے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو چھوٹے موٹے کاروبار کی طرف منتقل کریں، اس میں محنت و معیار کو شامل کریں اور آپ خود دیکھیں گے کہ چند سال بعد آپ لوگوں کو نوکری دینے والے ہونگے نہ کہ نوکری ڈھونڈنے والے