Tuesday, November 10, 2015

پاکستان میں اداروں کے قیام کی بحث – دوسرا پہلو


پاکستان میں شدید زلزلہ ، ہزاروں مکانات گر گئے ، سینکڑوں لوگ ہلاک ،ہزاروں 
امدادی کاروائی کے منتظر

نیشنل ہائی وے پر دو بسوں میں تصادم ،حادثے میں اسی لوگ مارے گئے، زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں شدید مشکلات

فیکٹری میں آگ لگنے سے دو سو کارکن ہلاک، سینکڑوں زخمی، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ آنے میں تین گھنٹے لگے

پولیس کا بیگناہ لوگوں پر تشدد.عوام کا شدید احتجاج ، تھانیدار کو معطل کر دیا گیا

بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

وڈیرے نے اپنے مزارعوں پر کتے چھوڑ دئیے، پولیس خاموش تماشائی

یہ اور اس طرح کے خبریں جب ہمارے اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو ایک بات جس کا دھوم دھڑکے اور زور شور سے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان تمام مسائل کے ہونے کی وجہ ،جی ہمارے ہاں ادارے نہیں ہیں یا ادارے غیر سیاسی اور آزاد نہیں ہیں ، گویا کہ ادارے نام کی گیڈر سنگھی ہے جو ہمارے تمام مسائل حل کردے گی اور جونہی یہ ادارے نام کا جن وجود میں آئے گا ، پلک جھپکتے ہی ہمارے تمام دلددر دور ہو جائیں گے اور ہمیں ہمارے تمام مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا اور ہر دن عید اور ہر رات ، شبرات کا روپ لئے آئے گی

مان لیا حضور کہ ہمارے ہاں ادارے نہیں ہیں یا یہ کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں ، مان لیا ہمیں ادارے چاہئے اور ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا ہے

لیکن کیا معاملہ اتنا ہی آسان اور سادہ ہے. کیا ہم نے کبھی غور کیا کیا ہے کہ ادارے ، ٹوٹے پھوٹے ہی سہی ،جو موجود ہیں ، کیا ہم نے بطور ایک ذمہ دار شہری انکو استعمال کرنے کی بھی کوشش کی ہے ، کیا ہم نے بطور ایک ذمہ دار شہری کبھی اپنے مسائل کیلئے موجود اداروں کو مروجہ قوائد ضوابط کا استعمال کرتے ہوئے ان سے استفادہ کیا ہے. کیا ہم نے کبھی اس بات کی طرف دھیان دیا ہے کہ ان اداروں کی تعمیر و مضبوطی کیلئے بطور ایک زمہ دار شہری ہماری جو ذمہ داری ہے وہ کیا ہے اور اسکو کیسے پورا کرنا

کیا ہم نے کبھی اس بات کا سوچا ہے کہ اگر ہمیں کسی سرکاری ادارے میں کام پر جائے تو بجائے اصول و ضوابط پر عمل کرنے کے ہم فورا شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے چکر میں ہوتے ہیں اور فورا کسی سفارش کا سوچتے ہیں

کیا ہم نے اس بات کا سوچا ہے کہ ٹریفک وارڈن سے پوچھنے کے ہمارا چلان کیوں کررہا ہے اور ہم نے کونسا قانون توڑا ہے ، ہم کیوں فورا اسکو پیسے دینے کا سوچتے ہیں

کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے گلی محلے میں ہونے والی قانون کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہتے ہیں اور کیوں خاموش رہتے ہیں، کیا یہ وجہ نہیں ہے کہ ہم نے خود وہ خلاف ورزیاں کی ہوتی ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

کیا ہم نے کبھی بطور ایک ذمہ دار شہری کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے علاقے میں فوری ہنگامی امداد کے کتنے ادارے ہیں اور انکی کارکردگی ، صلاحیت اور استطاعت کی حالت کیسی ہے اور کیسے ہم متعلقہ اداروں یا حکومت کو اسکی بری حالت بارے بتائیں اور اسکے لئے فنڈز اور تربیت کو یقینی بنائیں
کیا ہم نے کبھی اپنے مقامی سرکاری سکول ، کالج کا دورہ کیا ہے کہ اسکی حالت کیسی ہے ، اسکا معیار تعلیم کیسا ہے ، اسکو بہتری کیلئے کیا درکار ہے اور ہم بطور ایک ذمہ دار شہری کیا کردار ادا کر سکتے ہیں

کیا ہم نے کبھی علاقے کے سرکاری ہسپتال ، طبی مرکز یا ڈسپنسری میں جانے کی زحمت کی ہے کہ وہاں عملے کے کیا اوقات کار ہیں اور کن مشکلات میں لوگ کام کر رہے ہیں یا کام نہیں کر رہے اور سرگرمی سے اس بات کو یقینی بنایا ہو کہ ہم اپنے منتخب نمائندوں اوراعلی  سرکاری اہل کاروں کو اس بارے بتائیں

کیا ہم نے کبھی انفرادی طور پر یا محلے کا کوئی وفد بنا کے علاقے کے تھانے میں جانے کی زحمت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایف آئی آر درج کروانے کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسے اسکو بہتر کیا جا سکتا ہے اور تھانے میں کتنے بے گناہ لوگ موجود ہیں

ایسے ہے بیشمار کام اور ہیں جن کی میں یہاں مثال دے سکتا ہوں لیکن بات کو طول دینا مقصد نہیں ہے

اداروں کے بنانے کی جو بحث ہے وہ دو طرفہ ہے، ایک حکومت یا ریاست کی طرف سے  اور دوسری بطور ایک ذمہ دار شہری ہونے کی طرف سے، جبتک ہم دونوں پہلوؤں بارے توجہ نہیں دیں گے ، نہ تو ادارے بن سکتے ہیں اور نہ ہی ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں

ایک بہت ہی اہم اور کلیدی نکتہ اس ساری بحث میں یہ ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے کے ذمہ دار شہری ، اپنے ملک کے اداروں کی وجود پزیری ، بقاء اور استحکام کیلئے اپنا وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں ، وہ گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہتے کہ ہر حادثے ، سانحے یا قدرتی آفات میں غیب سے مدد آئے گی اور انکے ادارے خود بخود کام کرنے لگ جائیں گے

ہمیں اس نفسیاتی کیفیت اور حالت سے باہر نکلنا ہو گا کہ اپنے یا علاقے کے کسی مسئلہ کیلئے ہمیں سفارش ڈھونڈنی چاہیے اور اپنا وقت بچانا چاہئے اور فورا نچلے درجوں کو چھوڑ کر سب سے اونچے عھدے والے بندے سے بات کرنی چاہیے

ہمیں اداروں کیلئے اپنا وقت دینا ہی ہوگا ، ہمیں اداروں کیلئے اپنی توانائی خرچ کرنی ہی ہوگی ، ہمیں اداروں کیلئے ، انکے استحکام کیلئے ، انکی بقا کیلئے ان اداروں کو استمعال کرنے کے اصول ، قوائد اور ضوابط بارے جاننا ہی ہوگا
اگر یہ سب نہیں کریں گے تو سو چھوڑ ہزار نئے ادارے بنا لیں ، وہ ادارے کچھ 
نہیں کر سکیں گے


شاہ برہمن 

Monday, November 9, 2015

قومی تعمیراتی منصوبے اور سیاسی مداخلت



پاکستان میں بننے والے پچھلے بیس تیس سال کے قومی تعمیراتی منصوبوں کو اگر دیکھا جائے تو شائد ہی کوئی ایسا قومی تعمیراتی منصوبہ ہوگا جو متنازع نہ ہو، شائد ہی کوئی ایسا قومی منصوبہ ملے گا جس کی کسی نہ کسی حوالے سے مخالفت نہ کی گئی ہو یا اس پر مختلف اعتراضات کی بھرمار نہ ہوئی ہو


ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت کے منصوبے پر اعتراض ہوا ہو یا کسی ایک مخصوص علاقے میں مجوزہ منصوبے پر اعتراض ہوا ہو، تمام قومی تعمیراتی منصوبے ، چاہے وہ کسی فوجی حکومت نے شروع کیے ہوں یا منتخب سیاسی حکومت نے ، وہ منصوبے کسی سڑک کی تعمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی آبی ڈیم کی تعمیر سے ، وہ منصوبہ ایک نئی بحری بندرگاہ کی تعمیر ہو یا کسی شہر میں میٹرو بس کا منصوبہ ہو ، تمام کے تمام کسی نہ کسی حوالے سے اختلافات اور تنازع کا شکار ہوئے ہیں اور کسی بھی منصوبے پر ایک قومی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوسکا


ان منصوبوں کو شروع کرنے والی حکومتیں ، چاہے وہ فوجی ہوں یا سیاسی منتخب حکومتیں ، ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کو قومی ترقی کے دشمن سے لیکر محض نری سیاسی مخالفت کے طعنوں سے نوازتی رہی ہیں. حال یہ ہے کہ ان منصوبوں کے مکمل ہو جانے کے بعد بھی تنازعات ختم ہونے میں نہیں آ رہے اور ابھی تک ان منصوبوں کے قابل عمل و قابل قبول ہونے بارے بحث و مباحثہ جاری و ساری ہے


میری ناقص رائے میں ان تمام اور مستقبل کے قومی تعمیراتی منصوبوں کیلئے ہمیں ایک نئی سوچ اور ایک نئی سیاسی فکر کی ضرورت ہے. ہمیں قومی سیاسی منصوبوں کو ہر حال میں سیاست اور سیاسی جماعتی مفاد سے علیحدہ کرنے کی اشد ضرورت ہے . اسوقت تک ان منصوبوں کی جو صورتحال رہی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت دیتی ہے کہ قومی تعمیراتی ترقی کے منصوبے ، قومی منصوبے کم اور ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی مفادات کے منصوبے زیادہ تھے


قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے میں کچھ تجاویز عرض کر رہا ہوں اور تمام پاکستانی عوام کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ان پر غور کرنےکی دعوت دے رہا ہوں 

قومی ترقی کے تمام تعمیراتی منصوبوں کیلئے ایک آزاد اور مکمل غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنایا جائے 

اس ادارے کا یہ کام ہونا چاہئے کہ قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے تین سالہ ، پانچ سالہ ، دس سالہ اور پندرہ سالہ تجاویز دے

اس ادارے کے تجویز کردہ کسی بھی منصوبے کے علاوہ ، قومی ترقی کےتمام تعمیراتی منصوبے شروع کرنے پر پابندی ہونی چاہئے

کسی بھی حکومت ، وہ سیاسی ہو یا فوجی ، اسکو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی ترقی کا کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ شروع نہیں کر سکتی

تمام موٹر ویز ، ائیرپورٹ ، ریل کی پٹری کے منصوبے ، آبی ذخیرہ جات ، بجلی کی پیداوار، میٹرو بس یا میٹرو ٹرین، وغیرہ اس ادارے کے دائرہ کار میں ہونے چاہییں

ایسا کوئی بھی منصوبہ جس کی لاگت بیس ارب روپے سے زائدہ ہو ، اس ادارے کے دائرہ کار میں ہو

کسی بھی منصوبے کی جگہ کا تعین اس ادارے کی ذمہ داری ہو اور یہ کام مکمل غیر سیاسی مداخلت، اقتصادی قابل عمل اور ملکی ترقی کے نقطہ نظر سے ہو

تمام منصوبوں کی پیداواری لاگت اور ان سے ہونے والے عوامی و اقتصادی فوائد کا جواز دینا ، اس ادارے کی ذمہ داری ہو


ایک اعتراض یہ کیا جائے گا کہ پلاننگ کمشن کا ایک ادارہ پہلے سے موجود ہے تو ایک نیا ادارہ بنانے کا کیا فائدہ . جس ادارے کی میں بات کر رہا ہوں وہ پیشہ ور لوگوں کا ادارہ ہوگا ، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور طبقوں کی نمائندگی ہوگی لیکن فیصلے مکمل غیر سیاسی قومی ترقی کے نقطہ نظر سے کیے جائیں گے

اس ادارے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ سیاسی فائدے کیلئے بجٹ کی مختلف مدوں کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو سکے گا اور قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے اپنی حکومت کے علاوہ آنے والی حکومتوں کے دور میں ان منصوبوں کیلئے رقم مختص کرنی پڑے گی

قومی ادارے کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی اسی طرح کا غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنانا چاہئے تاکہ صوبائی سطح پر بھی بڑے تعمیراتی منصوبے ، کسی سیاسی مداخلت کے بغیر وجود پزیر ہوں اور تعمیر ہوں 

چونکہ ملکی ترقی کے تعمیراتی منصوبے تمام عوام کے ٹیکسوں سے بنائے جاتے ہیں تو ایسے منصوبے کسی ایک علاقے یا کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچانے کیلئے کرنا ، باقی علاقوں اور لوگوں کا استحصال کرنا ہے. 

جب تک ہم قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے غیر سیاسی ، پیشہ وارانہ طور پر نہیں سوچیں گے ، منصوبے ہمیشہ متنازع رہیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی منصوبہ اچھا بھی ہوا تو آنے والی حکومت اسکو جاری نہیں رکھے گی جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے 


شاہ برہمن

Saturday, October 10, 2015

مغربی سیکولرلبرل ملحدین کی توہین رسالت کی اصل وجہ




کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر نام نہاد دیسی لبرلز، مسلمانوں کو اس بات کے طعنے دیتے نظر آتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا ہے یا قران پاک میں تحریف یا اسکی صداقت اور کھرے پن پر سوال اٹھاتا ہے  تو تم لوگ کیوں اتنے جذباتی ہو جاتے ہو ، تم کیوں مارا ماری پر اتر آتے ہو ، تم لوگ توہین رسالت کی سزا ، سر تن سے جدا کے نعرے کیوں مارتے ہو ، ان معاملات پر تم لوگ کیوں اپنے ہوش حواس کھو دیتے ہو وغیرہ وغیرہ

میرا آج کا موضوع اس جذباتیت کو پرکھنا ، اس کا جائزہ لینا یا اسکو جانچنا نہیں ہے اور نہ ہی اس جذباتی رویے کے حق یا مخالفت میں بحث کرنا یا دلائل دینا ہے. میرا موضوع اس بات کی جانچ پڑتال اور وضاحت کرنا ہے کہ نظریاتی مغرب سے آنے والے ان توہین رسالت اور صداقت قران بارے شکوک اٹھانے والے کاموں کی بنیاد اور وجہ کیا ہے

میں یہاں پر شروع میں ہی اس پہلو سے بھی مخاطب ہو جاؤں کہ ہمارے دیسی سیکولر لبرل یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ مغرب ہر شے میں تحقیق کا قائل ہے تو اس لئے وہ اپنے  "تحقیقی مزاج"  کی بنا پر ایسا کرتا ہے اور اسکا رویہ تمام مذاہب اور انکی تعلیمات بارے ایسا ہی ہے، میرے نزدیک یہ بیانیہ  محض ایک فریب نظر ، دھوکہ اور فکری بددیانتی  کے سوا کچھ نہیں ہے اور ہمارے دیسی سیکولر لبرل اس بیانئے کو اندھے پیروکاروں کی طرح آمنا و صدقنا کہتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں ، میں اس لئے اس بیانئے اور پہلو کو رد کرتے ہوئے  اس پر مزید وقت اور توانائی ضائع نہیں کروں گا

اصل وجوہات اور مغربی سیکولر لبرل فتور نیت کو جاننے کیلئے ہمیں تاریخ میں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا .جب مسلمانوں نے شام اور مصر کی فتوحات کی تو اس وقت عیسائی یورپ نے اسکو کوئی خاص اہمیت نہ دی اور یہی سمجھا کہ ہمارے (رومی سلطنت ) کے دور دراز کے کچھ علاقے چھن گئے ہیں جن پر ہم پھر قبضہ کر لیں گے . لیکن جب مسلمان فتوحات شمالی افریقہ اور سپین کے راستے مغربی یورپ،  اور ترکی کے راستے مشرقی یورپ،  کے اندر جا پہنچی تو شروع کی کچھ صدیوں میں عیسائی یورپ کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کون لوگ ہیں ، وجہ یہ تھی کہ یورپ آگے آگے بھاگ رہا تھا اور مسلمان فوجیں ان کے پیچھے پیچھے

یورپ کے اہل دانش و فکر کو اتنا وقت ہی نہیں مل رہا تھا کہ وہ اس نئے مظہر بارے 
سکون  سے بیٹھ کر غوروفکر کر سکیں. اس زمانے میں عیسائی یورپ کا اسلام   بارے تصور یہ تھا کہ یہ بت پرست لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم انکے بت محمد کی پرستش کریں اور اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو محمڈن کہتے تھے ان کے عیسائی مذہبی طبقہ اور دوسرے اہل دانش نے اصل اسلامی فکر بارے اور اس فکر کی بنیاد اور انسان کائنات اور زندگی پر اسکے اثرات اور انسانی سوچ پر اسکے اثرات بارے غور و فکر کی زحمت ہی نہ کی تھی . جب صلیبی جنگوں کے اختتام پر مسلمانوں اور عیسائی یورپ کے درمیان ایک جنگ بندی جیسی صورتحال پیدا ہوئی اور ترکی کی آسٹریا کے محاذ سے واپسی ہوئی تو یورپ کو کچھ سانس لینے کا موقع ملا اور اسلامی فکر ، اسلام کی اصل اور بنیاد بارے سوچ و بچار اور کتابیں لکھی جانے لگیں. اس دوران یورپ نے اسلام اور اسکی فکر کو محض ایک فوجی مظہر ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی و فکری مظہر کے طور پر جاننے کی کوشش شروع کی. جو ابتدائی نظریات اور نتائج اس بارے اخذ کیے گئے اور سمجھے گئے وہ یہ تھے کہ اسلام میں تین چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں

١ – قران
٢- محمد صلی اللہ علیہ وسلم
٣ – جہاد کا تصور

اب اس بات پر غوروفکر اور سوچ بچار شروع ہوئی کہ کیسے ان تصورات سے   نمٹا جائے
، اس زمانے میں زیادہ تر توجہ اسی بات پر رہی کہ مسلمانوں کے "خدا" محمد بارے ہی بکواس اور ہرزہ سرائی کی جائے ،چونکہ اسی زمانے میں یورپ میں بھی  نشاتہ ثانیہ کی لہریں  ابھرنا شروع ہوگئیں تھیں تو عیسائیت کو اپنی بقا کی پڑ گئی اور اس کا سارا زور لبرل سیکولر. الحاد اور اصلاح مذھب کی تحریکوں سے نمٹنے میں صرف ہونے لگا

چونکہ یورپ میں مذھب کا تجربہ اور تاریخ ایک بھیانک روپ لئے ہوئے تھی اس لئے سیکولر لبرل سوچ اور اسکے حاملین کیلئے مذھب کا مذاق اڑانا ، مذہبی روایات کی سند کو چیلنج کرنا ، مذہبی رسومات کی اصل کی جانچ پرکھ کا سوال اٹھانا بہت آسان تھا . اسکے ساتھ ساتھ چونکہ عیسائیت نے کافی ساری یہودی روایات کو سختی سے رد کیا ہوا تھا اور انکی جگہ اپنی من پسند تاریخی روایات گھڑ لی تھیں تو ایسی روایات کے مصدقہ ہونے کے پرخچے اڑانا بہت آسان تھا 
 ، ان روایات کا کوئی تاریخی ثبوت بھی نہ تھا تو کام اور بھی آسان ہوگیا.

یورپی نشاتہ ثانیہ کے شروع شروع میں جن لوگوں نے اسلام اور اسکی فکری بنیاد اور اسکے تاریخی سرمائے بارے لکھا یا "تحقیق" کی تو وہ اس مذہبی نفرت (یعنی عیسائیت سے نفرت ) کے تعصب اور ماحول میں کی اور اسلام کیلئے اسی جھاڑو کو استعمال کیا. چونکہ شروع میں ان سیکولر لبرلز /ملحدین کا اصل میدان عیسائیت کی مخالفت ہی تھا  تو اسلام کی طرف اتنی توجہ نہ تھی

جب یورپی (مغربی) سیکولر لبرل الحادی سوچ معاشرے میں اچھی طرح جڑ پکڑ گئی اور اس نے اقتدار اور طاقت کے ستونوں پر قبضہ کرلیا تو پھر اسکا رخ اپنے معاشرے سے باہر کے معاشروں کی طرف ہوا ، یوں ایک دفعہ پھر اسلام اور اسلام فکر کے ماخذ ، اسکے دائرہ کار اور اسکی دور رس پہنچ بارے غوروفکر اور تحقیقی کام شروع ہوا ، اس سلسلے میں ماضی کے یورپی حوالے بھی کنگھالے گئے اور ایک بار تان پھر انہی تین باتوں پر ٹوٹی جن کا اوپر ذکر کیا ہے یعنی قران ، رسول اللہ اور جہاد

یورپ جو کہ اس وقت تک ایک نئے مشترکہ فکری ڈھانچے یعنی مغرب میں ڈھل چکا تھا اور اس فکری ڈھانچے کی بنیاد لبرل سیکولر و الحاد پر مبنی فکر پر تھی ، نے اسلام کو ایک فکری و نظریاتی مخالف کے طور پر دیکھنا اور سمجھنا شروع کیا اور بالاخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام واقعی میں ایک ٹھوس حقیقت والا فکری خطرہ ہے

سیکولر لبرل و الحادی فکر نے اپنے پھیلاؤ کیلئے نوآبادی نظام و جارح فوج کشی کو بطور ایک آلہ کے استعمال کیا اور اسکے مقابلہ میں دیکھا کہ اسلام کے پاس جہاد کی صورت ایک نہایت موثر اور مہلک جواب موجود ہے ، اسلئے جہاد کی منفیت بارے نئے نئے بیانئے اور تصورات تراشے گئے ، نئے نئے فرقے اسلام کے اندر سے نکالے گئے تاکہ وہ جہاد کو منسوخ قرار دیدیں یا جدید دنیا میں اسکی جگہ نہ ہونے بارے فتاوی دیں ، بہرحال چونکہ یہ موضوع نہیں تو اس کو یہیں چھوڑتا ہوں

یورپی (مغربی ) نشاہ ثانیہ  کے بعد سیکولر لبرل الحادی قوتوں نے عیسائیت یا کسی بھی مذھب کو ہدف تنقید بنانے اور اس کی  جدید زمانے میں بے معنویت کو ثابت کرنے کیلئے اس مذھب کی الہامی کتاب اور اس مذھب کی مرکزی شخصیت کو استہزاء ، تمسخر اور مضحکہ خیزی کا نشانہ بنایا ہے. اصل مقصد و حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ اس بنیاد کو مشکوک بنا دیا جائے اور گرا دیا جائے جس کے اوپر اس مذھب کی ساری عمارت قائم ہے. کیونکہ اگر بنیاد ہی مشکوک اور کمزور ہوجائے تو اس پر قائم عمارت بارے ہر طرح کی باتیں اور بیان دئیے جاسکتے ہیں اور لوگوں کو اس عمارت میں پناہ لینے سے روکا جاسکتا ہے.

اگر آپ عیسائیت یا یہودیت کی مثال لیں تو آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی سیکولر لبرل الحادی بیانئے میں انجیل و تورات کی حیثیت بالکل مشکوک اور حتی کہ سیدنا عیسی علیہ سلام و سیدنا موسی علیہ سلام کی ذات مبارکہ کو ایک عام انسان کی حیثیت تک گھٹا دیا گیا ہے. چونکہ ان کتابوں میں خود عیسائیت اور یہودیت کی وجہ سے بے شمار تحریفات ہو چکی تھیں تو کسی بھی الہامی یعنی اللہ تعالیٰ کے قانون کو تختہ مشق بنانا اور اسکا مذاق و ٹھٹھا اڑانا آسان ٹھہرا اور اسکو منسوخ کرکے اپنی مرضی کے حیوانی و نفسانی قوانین کو لاگو کرنا بہت آسان ٹھہرا

عیسائیت و یہودیت کی بنیاد کو مشکوک بنا دینے سے سیکولر لبرل الحادی فکر نے مذھب کو سختی سے ایک چار دیواری جس کو آپ چرچ کہیں یا کنیسہ تک محدود کردیا

اب ہم آتے ہیں اسلام کی طرف، اسلام کی بنیاد بھی قران اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر قائم ہے ، بلکہ اگر دیکھا جائے تو اصل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر قائم ہے ، وہی ہیں جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ  کی ذات سے روشناس کروایا ہے اور وہی ہیں جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے روشناس کروایا ہے. اب اگر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک کو کسی پہلو یا گوشے سے متنازع اور مشکوک بنا دیا جائے تو ان پر اترنے والے کلام اللہ کو مشکوک و متنازع بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر قران پاک کی الہامی/خدائی حیثیت  کو اگر مشکوک بنادیا جائے تو اس میں موجود تمام قوانین کی الہامی و خدائی حیثیت کو فورا رد کیا جاسکتا ہے ، جب قران پاک کی الہامی حیثیت کی تصدیق ناممکن ہوجائے تو اسکے قوانین پھر ہر طرح کے ردوبدل کا نشانہ بن جاتے ہیں اور اسکی جگہ انسانی نفسانی قوانین کا نفاذ بالکل آسان بن جاتا ہے

یہ ہے وہ بنیادی اور اصل وجہ کہ مغربی سیکولر لبرل ملحدین ، کیوں بار بار رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک کو نت نئے طریقوں یعنی کبھی کارٹون ، کبھی فلم بنا کر، کبھی کتابیں لکھ کر استہزا اور ٹھٹھا اڑانے کی کوشش  کرتے ہیں اور کبھی ازواج مطہرات کے حوالے سے ، کبھی بنی قینقاع اور بنو قریظہ کے حوالے سے ، کبھی جہاد کے حوالے سے اور کبھی کسی اور حوالے سے متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں

ہمارے ادھار کی دانش والے نقل باز نام نہاد دیسی سیکولر لبرل و ملحدین حضرات اور وہ نادان مسلمان حضرات جو تاریخ و اصلی ایجنڈے سے واقفیت  نہیں رکھتے   وہ بھی مغربی سیکولر لبرل الحادی بیانئے کا شکار ہوکر باقی مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق یا تمسخر اڑاتا ہے تو اسکو نظرانداز کردیں اور اپنے کام سے کام رکھیں ، وہ اس بات سے بالکل بے خبر اور ناواقف ہیں کہ توہین رسالت کی اصل وجہ اور بنیاد کیا ہے

اگر آپ اسلام اور اسلامی معاملات پر بحث و مباحثہ کرنے والے مستشرقین اور وہ لوگ جو مغربی میڈیا میں ہر وقت اسلام بارے زہر اگلتے   رہتے ہیں کی تقاریر ، کتب اور سیمینارز کو، سنیں ، پڑھیں اور دیکھیں تو آپکو ایک مشترکہ بات جو نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے اندر سے شدت پسندی، رجعت پسندی  بلا بلا بلا وغیرہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قران کو الہامی کتاب سمجھنے سے باہر نکلنا ہوگا اور قران و سنہ کو ہر کام کی بنیاد بنانے کو چھوڑنا ہوگا ، ٹھیک ہے قران ایک اچھی کتاب ہے لیکن اس میں سب کچھ اچھا نہیں ہے، ٹھیک ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اچھے بندے تھے لیکن مسلمانوں کو ان کے ہر کام کا دفاع کرنے کی ذہنیت اور کوشش سے باہر آنا ہوگا . قران کے قوانین اور نبی کے فرامین چودہ سو سال پہلے تو ٹھیک ہونگے لیکن آج کے زمانے میں انکی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے

یہ ہے اصل بنیاد و وجہ ، یعنی مغربی سیکولر لبرل الحادی فکر ، مسلمانوں کو انکے بنیادی عقائد سے دور کرنا چاہتی ہے اور اسکیلئے انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اصل نشانہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور کلام اللہ یعنی قران کو بنانا ہوگا اور تب ہی وہ کامیاب ہونگے


ہمارے عقل و خرد سے پیدل ، بونگے اور ادھار کی دانش والے دیسی سیکولر لبرل  ، اصلی مغربی سیکولر لبرل ملحدین کے منصوبے کو سمجھے بغیر پرائی شادی میں عبدللہ دیوانہ بن کر اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں  

Monday, September 14, 2015

عوامی منصوبے اور عوامی احساس ملکیت


شاملات کے لفظ اور حقیقت سے ہمارے پہاڑی علاقوں  اور دیہاتی علاقوں کے لوگ  واقف ہونگے ہی ، ان لوگوں کیلئے جو اس لفظ یا تصور سے واقف نہیں ہیں ، انکی معلومات کیلئے کہ یہ اس جگہ  کو کہا جاتا ہے جو کسی گاؤں یا پہاڑی علاقے یا قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے ، یہ وہ زمین ، جنگل  چراگاہ  یا چشمہ وغیرہ ہوتی ہے جس پر اس ملحقہ گاؤں ، علاقے یا قبیلے کے تمام لوگوں کی بلا روک ٹوک رسائی اور وسائل پر دسترس و حق ہوتا ہے

اگر گاؤں ، علاقے یا قبیلے میں دو لوگوں کی اپنی ذاتی زمین یا دوسری ملکیت بارے کوئی لڑائی جھگڑا ہو اور ایک دوسرے کی زمین پر قبضہ بھی ہوجائے تو گاؤں والے عام طور پنچایت یا جرگہ کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا لوگ عمومی تھانہ کچہری والا راستہ اختیار کرتے ہیں ، اس طرح کے جھگڑے میں گاؤں یا پورا قبیلہ عام طور پرسوائے انتہائی قریبی لوگوں کے, کسی ایک بندے کا کھل کر ساتھ دینے کی بجائے  تھوڑا لا تعلق سا رہتا ہے,  
لیکن اگر گاؤں یا قبیلے کا کوئی بندہ یا دوسرے گاؤں یا قبیلے کے لوگ ، شاملات والی زمین ، جنگل ، چراگاہ یا چشمہ وغیرہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے یا اسکو اپنی ذاتی ملکیت بنانے کی کوشش کرے یا اس میں خود ہی کسی تبدیلی کی کوشش کرے یا دوسرے لوگوں کی اس مشترکہ وسائل پر دسترس اور رسائی روکنے کی کوشش کرے تو پورا گاؤں یا قبیلہ اس کی مخالفت کرتا ہے اور خم ٹھونک کر مقابلے میں آ جاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ اس شاملات پر گاؤں یا قبیلے کے کسی ایک بندے کی کوئی واضح ملکیت یا قبضہ بھی نہیں ہوتا یا حصہ بخرہ کی نشاندھی بھی نہیں ہوتی

اصل بات اس سارے قصہ میں لفظ شاملات سے ہی واضح ہو جاتی ہے کہ" سارے کا سارا" گاؤں یا "پورے کا پورا " قبیلہ اس کی ملکیت اور ملکیت کے احساس میں شامل ہے اور اسکو سب "مشترکہ " اثاثہ سمجھتے ہیں ، سب کو اسکی ملکیت کا ناصرف احساس ہوتا ہے بلکہ سب کو اس میں شامل بھی کیا جاتا ہے اور اس شاملات کے معاملات میں اگر کوئی تبدیلی ، بہتری یا بڑھوتری کرنا مقصود ہوتی ہے تو اس فیصلے میں تمام کا تمام گاؤں یا قبیلہ شامل ہوتا ہے اور کسی کو بھی اس فیصلے سے لاعلم ، دور یا شرکت سے محروم نہیں رکھا جاتا . یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود ، آپ کو شاملات کے معاملات میں کم ہی جھگڑے دیکھنے یا سننے کو ملیں گے ، اگر شاملات بارے کوئی جھگڑا ہوتا بھی ہے تو وہیں ہوتا ہے جہان شاملات کے اصلی تصور کی نفی کی جاتی ہے یا اسکو بے حرمت کیا جاتا ہے

اس ساری  تمہید باندھنے کا مقصد ایک اہم مسئلہ کی طرف دھیان دلانا تھا جو کہ ہمارے معاشرے میں سیاسی تقسیم، نفرت اور سیاسی عصبیت کو بڑھاتی چلی جا رہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے اچھے کاموں بارے بھی صرف نفرت ، کدورت ، بغض اور ناکامی کے جذبات ہی پیدا کرتی ہے  اور اصول شاملات کی نفی یا خلاف ورزی کرنے سے ایک بلا کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے

میرا نکتہ یا دھیان اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ کیا وجہ ہے کسی بھی حکومت کا کوئی بھی اچھا منصوبہ یا کام ، سوائے اس حکومت کی اپنی سیاسی عصبیت کے، عام طور پر برا ، ناکام ، غیر معیاری یا غیر ضروری کیوں قرار پاتا ہے، 
کیوں سوائے اس حکومت اور اسکی سیاسی عصبیت کے . وہ منصوبہ ناکارہ یا رد قرار دیا جاتا ہے ، 
بات وہی ہے کہ منصوبہ کتنا ہی عوامی بھلائی اور انکی ضروریات کا کیوں نا ہوں ، وہ صرف "اپنا" منصوبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس منصوبے کی منصوبہ بندی ، اس کے علاقے کے لوگوں پر اثرات ، اسکا ملک و قوم کو فائدہ ، نوک پلک ، اخراجات ، عملدرآمد بارے سب کو شامل نہیں کیا جاتا، یعنی شاملات والا کوئی 
تصور نہیں ہے

پاکستان میں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ یا کام ، وہ یا تو ن لیگی منصوبہ ہوتا ہے ، یا انصافی منصوبہ ہوتا ہے ، یا پیپلز پارٹی منصوبہ ہوتا ہے ، یا مہاجر منصوبہ ہوتا ہے ، یا کسی دوسری سیاسی جماعت کا منصوبہ ، کوئی بھی منصوبہ قومی یا عوامی یا مشترکہ منصوبہ نہیں ہوتا یا رہنے نہیں دیا جاتا 

لوگوں کو اس منصوبے پر حق ملکیت کا کوئی احساس پیدا نہیں ہونے دیا جاتا،
 ان کو صرف یہ بتایا جاتا ہے "ہم" نے یہ منصوبہ آپکے بنایا ہے اور بس اسے قبول کرو، وہ منصوبہ کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کا منصوبہ رہتا ہیں وہ گاؤں میں دو بندوں کی لڑائی کا منصوبہ رہ جاتا ہے اور سارا ملک (گاؤں ) اس لڑائی سے لاتعلق رہتا ہے، اسی وجہ سے اگر کوئی منصوبہ ایک سیاسی جماعت یا حکومت شروع کرتی ہے اور اسے اپنے دور حکومت میں مکمل نہیں کر پاتی ، تو وہ منصوبہ اسکی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے ، آپ کو ملک میں جا بجا ایسے منصوبے اور ان منصوبوں کی گرد و خاک میں اٹی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں یا سڑکیں ملیں گیں

اگر آپ واقعی میں کسی عوامی بھلائی اور قومی ترقی کے منصوبے کی تکمیل کا خیال ذہن میں لئے بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب لوگ اس منصوبے کی دل وجان اور پوری توانائی سے حمایت و مدد کریں تو صرف اپنی سیاسی عصبیت کو ہی اس منصوبے کی منصوبہ بندی میں شریک نا کریں ، اس منصوبے کو شاملات کا معاملہ سمجھتے ہوئے تمام لوگوں کو شامل کریں تاکہ آپ کی حکومت کے جانے کے بعد بھی منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے اور چلتا رہے اور عوام اس سے مستفید ہوتی رہے.

جب تک تمام عوام  کو معاملات میں ملکیت اور شمولیت کا احساس نہیں ہوتا یا احساس نہیں دلایا جاتا وہ کسی بھی ترقیاتی  منصوبے چاہے وہ انکی نسلوں تک کی بہتری اور فائدے کیلئے ہی کیوں نا ہو ، میں دلچسپی اور اسکی حمایت نہیں 
کرتے


برھمنیات   

Sunday, September 13, 2015

بلا مقابلہ انتخاب کی ابکائی

بلا مقابلہ انتخاب کی ابکائی 


جب بھی کسی بھی قسم یا سطح کے انتخابات کی خبریں ہم سنتے ، دیکھتے یا پڑھتے ہیں تو ہم ایک لفظ یا اصطلاح سے 
"اکثر اپنا واسطہ پاتے ہیں  ، اور وہ ہے "بلا مقابلہ انتخاب

 انتخابات محلے کی صفائی کمیٹی کے ہوں ، بازار کے تاجروں کی انجمن کے ہوں ، وکلاء یا کسی اور پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تنظیم کے ہوں ، کلرکوں کی انجمن کے ہوں ، اخبار فروش تنظیم کے ہوں ، صحافیوں اور قلمکاروں کی تنظیم کے ہوں ، کسانوں کی کسی تنظیم کے ہوں ، اساتذہ کی کسی تنظیم  کے ہوں ، کالج یا یونیورسٹی میں طلبہ کے نمائندوں کے ہوں ، کسی یونین کونسل کے ہوں، کسی کونسلر کے ہوں  ،کسی "سیاسی" جماعت کے اندرونی انتخابات ہوں ، انتخابات کسی نائب ناظم کے ہوں یا ناظم شہر کے ہوں ، صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے ہوں قومی اسمبلی کی رکنیت کے یا سینیٹ کی رکنیت کے ہوں ، یہ بلا مقابلہ انتخاب کی اصطلاح  ایک چڑیل یا آسیب کے سائے کی طرح ہمیشہ سامنے موجود ہوتی ہے
جب بھی کسی بھی انتخابات میں کوئی شخص "بلا مقابلہ" "منتخب" ہوتا ہے تو اس کے حمایتی اسے اس شخص کی مقبولیت اور اپنے خیالات یا "نظریات"  کی مقبولیت کا پیمانہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسی سانس میں اپنے "مخالفوں" کی عدم مقبولیت کا ٹھٹھا اور مذاق اڑاتے ہیں

بلا مقابلہ انتخابات کو اپنے موقف کی سچائی اور اپنے آپ کو حق پر ہونے کا پیمانہ بھی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ، اسکو اپنے افکار کی صداقت و اصابت کی دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے

آئیے آج اس کریہہ الصورت، آمرانہ ، گھٹیا ، متکبرانہ . دوسروں کو نیچ سمجھنے والے، سوچ و بچار سے خالی، طبقاتی، بزدل ، میدان سے راہ فرار اختیار کرنے والے، دھوکہ دہی والے، حق انتخاب سے محروم کرنے والے بیانئے کا پوسٹ مارٹم یعنی تیا پانچہ کرتے ہیں

کسی بھی معاشرے میں خیالات و افکار میں بہتری ، ان خیالات و افکار پر سوالات اور ان کے دفاع میں مضمر ہوتی ہے ، اور یہ کام ان خیالات و افکار کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ، لوگوں کو انکی دعوت دیکر ، لوگوں کو ان کے بارے قائل کرکے اور لوگوں کو انکو قبول کرنے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے. ہر نظریہ  خیال یا فکر ، تمام انسانی مسائل کے حل کیلئے اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور اس حل یا نقطہ نظر کو عملی طور پر نافذ کرنے کا ایک طریقہ کار بھی . اگر کوئی نظریہ یا فکر صرف چند لوگوں کے ذہنوں میں رہے اور اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے چھپایا جائے یا لوگوں کو اس کی جانچ یا پرکھ کا موقع نہ دیا جائے اور دھونس ، دھاندلی ،دھوکہ دہی، طاقت اور فریب  سے  کسی شخص کو انکا "بلا مقابلہ" نمائندہ  بنا دیا جائے تو یہ نا صرف لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ لوگوں کو انکے "حق انتخاب " سے بزور طاقت محروم بھی کرنا ہوتا ہے

یہ لوگوں یعنی عوام کو اس بات سے محروم کرنا ہوتا ہے کہ وہ انکے نمائندے کی خیالات ، فکر اور پروگرام سے آگاہ و واقف  ہوں ، ، یہ عوام کو اس فکر ، خیالات اور پروگرام کی حقیقت جانچنے کی بحث و موقع سے محروم کرنا ہے کہ وہ اس بارے اپنی کوئی رائے دے سکیں یا اس کی حقیقت یا سچائی پر سوالات اٹھا سکیں ، یہ عوام کو بغیر کسی بنیاد یا اصول کے صرف اندھا اعتماد کرنے کی زبردستی کرنا ہے، یہ خود لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ،اپنے افکار کو ، اپنے پروگرام کو پیش کرنے سے راہ فرار اختیار کرنا اور انتہا درجے کی بزدلی بھی دکھانا ہے ، یہ لوگوں کو بیوقوف ، کمتر اور جاہل بھی سمجھنا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ ان کو حق انتخاب دیا جائے تاکہ وہ کسی قسم کی تمیز کر کے اپنا نمائندہ چن سکیں

اس "بلا مقابلہ" انتخاب کے تصور کا ایک اور بھی پہلو ہے ، وہ یہ کہ اس کو ایک جائز و قانونی تحفظ دیا جاتا ہے ، اصل میں اشرافیہ نے عوام کے استحصال کے جو بیشمار قاعدے قانون ، طریقہ کار اور نظام بنائے ہوئے ہیں ، یہ بھی ان میں شامل ہے، ایک "قانونی" طریقہ کار بنایا گیا ہے کہ جب تک کوئی عام شخص ایک پیچیدہ طریقہ کار کو اختیار نا کرے اس کو یہ "حق"  ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے انکے نمائندے کے چنے جانے کے طور پر پیش کر سکے. نظام ہی یہ فیصلہ کرنے کا "اختیار" رکھتا ہے کہ کس شخص/اشخاص  کو لوگوں کے سامنے انکے نمائندے کے طور پر پیش کرنا ہے تاکہ  وہ انہی میں سے اپنا نمائندہ چن سکیں اور اسکے علاوہ انکو کوئی حق نہیں ہوگا کہ کسی اور کو اپنا نمائندہ چن سکیں. اگروہ  نظام نمائندہ بننے کیلئے شامل ہونے والے  تمام لوگوں میں ایک کو چھوڑ کر تمام کو رد  کر دے تو نظام کا "چنا" ہوا  شخص ان کا "منتخب" قرار دے دیا جائے گا

دیدہ دلیری اور ڈھٹائی دیکھئے کہ ایک شخص جس نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش بھی نہیں کیا محض نظام کے طریقہ کار کی بدولت "منتخب" قرار دے دیا جاتا ہے ، اس سے بڑھ کر ابکائی والی بات کیا ہوگی . اسی طرح عوام کے نمائندہ بننے کے دوسرے امیدوار جو اسکے مقابلہ سے دستبردار ہو جاتے ہیں ان سے بڑا بزدل اور بے غیرت کوئی نہیں ہوتا جو اپنے اس عمل سے عوام کو انکے حق انتخاب سے محروم  رکھنے کی سازش میں بالواسطہ شامل ہوتے ہیں . اگر کوئی محض اس وجہ سے مقابلے سے دستبردار ہو جائے کہ میں بری طرح ہار جاؤں گا تو یہ پرلے درجے کی پست ہمتی اور ڈرپوک پن ہے . اسکی بجائے ہمت دکھائیں اور لوگوں کو حق انتخاب دینے میں مدد گار بنیں

پاکستان میں جمہوری و نظریاتی ہونے کے بڑے بڑے  دعویدار  سیاسی کارکن ، صحافی ، دانشور ، مفکر ، بجائے اس فکری گھٹیا پن پر اعتراض کرنے کے ، اس متکبرانہ سوچ کو رد کرنے کے ، اس جنگلی قانون کو بدلنے یا اصلاح کرنے کے ، عوام کو انکے حق انتخاب سے محروم کرنے کی سازش کے خلاف آواز اٹھانے کے ، جب بھی کوئی "بلا مقابلہ منتخب"   ہوتا ہے تو اس شخص پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں ، اسکی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ، اس کو دیوتا بنا کر پیش کرتے ہیں ، اسکو عوامی مقبولیت کا پیمانہ بنا کر پیش کرتے ہیں

صد افسوس ہے ایسی چھوٹی سوچ و فکر پر جو محض ایک طریقہ کار کی چالاکی اور دھونس سے عوام سے انکا حق انتخاب چھین لے ، اس سوچ اور ایک آمرانہ فسطائی سوچ و عمل میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سب کے باوجود جو اپنے آپ کو عوامی و جمہوری نمائندہ کہلواتا ہے اس سے بڑا دھوکہ باز کوئی نہیں ہے  


اس لئے اپنی ذاتی حیثیت میں ، سیاسی کارکن کے طور پر ، ایک تبصرہ نگار کے طور پر یا  ایک لکھاری کے طور پر اس ابکائی زدہ تصور اور فکر کی مذمت کیجئے اور اسکے خلاف آواز اٹھائیے ، یاد رکھیں کہ "بلا مقابلہ انتخاب" صرف ایک فکری و نظریاتی طور پر مردہ معاشرے اور قوم میں ہوتے ہیں 

برھمنیات 

Saturday, August 8, 2015

سیکولر اشرافیہ کی منافقت اور مولوی کا مقدمہ

چلیں جی ، آج اک اور سیکولر اور مولوی تعصب مخالف دوسرے الفاظ میں ملفوف اسلام مخالف بیانئے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں ، تیار ہیں سارے :)
حسن نثار ، یاسر پیرزادہ ،اور ان جیسے کئی ہم نوا اکثر یہ بات کرتےہیں کہ مولوی کو عورت کی ننگی ایڑھی تو نظر آ جاتی ہے لیکن معاشرے میں موجود کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، طبقاتی اونچ نیچ وغیرہ وغیرہ نظر نہیں آتی اور ان بارے بات نہیں کرتا یا دھیان نہیں دیتا
اسی طرح یہ بیانیہ کہ مولوی کو معاشرے میں جسمانی فحاشی تو نظر آتی ہے لیکن معاشی ناانصافی کی فحاشی نظر نہیں آتی وغیرہ وغیرہ
آئیں اس بیانئے کے تضادات دیکھیں
کہنے والے ، مذھب اور سیاست کو مکمل علیحدہ رکھنے کے قائل ہیں مولوی کی دنیاوی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہیں اور ہر وقت کی لفظی جگالی کرتے ہیں کہ مولویوں کو دنیاوی معاملات کا کیا پتا وہ تو کسی معاملے پر اکٹھےنہیں ہو سکتے وہ معاشرے میں تقسیم کےذمہ دار ہیں انکے پاس جدید مسائل کا حل نہیں
ایک طرف تو بنی سیکولران نے مولوی پر آغاز میں ہی اتنی بڑی چارج شیٹ لگا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور خود معصوم بن گئے کہ جیسے یہ سارے مسائل یعنی کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، جسمانی و جنسی زیادتیاں ، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی مولوی کے پیدا کردہ ہیں یا اسکے ریاست و وسائل ریاست پر قبضہ  کی وجہ سےہیں، اور وہ ان سب کا اکلوتا ذمہ وار ہے. وہی حکومت پر قابض ہے،بیوروکریسی پر قابض، زمینوں پر قابض ہے، آرمی کے جرنیل بھی مولوی ہیں جیسے میرے محلے کی مسجد کا مولوی ISI کا چیف بھی ہے ، ساتھ والے محلے کی مسجد کا مولوی سیکریٹری خارجہ ہے، اسکا مولوی چھوٹا بھائی وزیر خزانہ ہے

 اب خود غور و فکر کیجئے کہ اس بیانئے میں کتنے تضادات ہیں اور اسکے پھیلانے والے مولوی کو کسی با اختیار جگہ پر دیکھنے کے کتنے حق میں ہیں جب آپ مولوی کو کسی با اختیار و طاقتور جگہ پر دیکھنے کے قائل تو کیا سخت مخالف ہوں تو پھر آپ مولوی سے ان موضوعات پر رائے دینے یا اس بارے بات   کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے بارے کیوں کہتے ہو اور توقع کرتے ہو.
ایک طرف تو یہ کہ حکومتی معاملات کو مذھب کی بنا پر ہرگز نا چلایا جائے ، دوسری طرف مولوی سے توقع کہ نا صرف اس بارے رائے دے بلکہ معاشرہ بھی استوار کرے، بھائی لوگو ، حکومت ،عدلیہ ،پولیس ، قانون ، زمین، فوج ، سیاست سب کچھ آپ کے اختیار میں تعلیمی نصاب آپکے ہاتھ میں ، خزانے کی کنجیاں آپکے ہاتھ میں، بیرونی تعلقات و معاہدے آپکے ہاتھ میں، میڈیا آپکے ہاتھ ، انتظامیہ آپکے اختیار میں  ,معاشرے میں کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، جسمانی و جنسی زیادتیاں ، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی کے ذمہ وار تو آپ ہیں ،اور آپ چاہتے ہیں کہ آپکو کوئی الزام نا دے آپکا سارا گند مولوی صاف کرے اور آپکے گند کی ذمہ داری بھی لے لے اور اسکے باوجود وہ آپ سے گالیاں بھی کھائے ، آپ تو واقعی میں مہان ہیں

توجناب جب آپ مولوی سے اصلاح معاشرہ اور کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی بارے بات کی توقع کرتے ہیں تو اختیار بھی دیں ہے پھر اسکی معاشرے کے ہر پہلو میں مداخلت پراپنی چونچ بھی بند رکھیں ، اگر یہ قبول نہیں تو اس سےکوئی توقع نا رکھیں اسےاپنا کام کرنےدیں جیسے آپ مختلف معاملات پر اپنی رائے دینے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں تو وہی حق ایک مولوی کو بھی ، اس سے یہ حق آپ چھین نہیں سکتے
 ہاں اگر وہ اپنی رائے سے لوگوں کو تشدد پر اکسا رہا ہے یا خود ان سب کاموم میں ملوث ہے تو قانون استعمال کیجئے لیکن آپ تو وہ بھی نہیں کریں گے کہ پیدائشی بزدل اور پھٹو ہیں
 اس ساری تمہید و بیان سے یہ مت سمجھا جائے کہ میں مولوی کی بلا مشروط حمایت میں تلا ہوا ہوں اور اس کے فکر و عمل میں کوئی عیب نہیں دیکھتا  میں مولوی کی ہرگز ہرگز بلا مشروط حمایت و وکالت نا تو کرتا ہوں اور نا ہی کروں گا لیکن ایک آئینہ دکھانا ضروری تھا کہ سب اختیار آپ کے ہاتھ میں اور آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں اور ساوی ساوتری بنیں اور خون میں لت پت لاشوں پر کھڑے ہو کر دعوی کریں کہ آپکے ہاتھ پر کوئی خون نہیں اور مولوی نے کسی کو تھپڑ ہی مارا ہو تو آپ اسکو راندہ درگاہ بنا دیں اصل میں آپکا بغض مولوی سے ہے بھی نہیں ، یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانا بھی ضروری ہے تو اپنی تمام حکومتی ، سیاسی ، انتظامی ، معاشی ناکامیوں، خصی پن  اور نامردی کا سارا الزام مولوی کو دے دو،
 آپ کا اصل غصہ تو اسلام کے ساتھ ہے ، آپکی نفس کی غلام سیکولر لبرل  تربیت چاہتی ہے کہ آپ سب کچھ لوٹ کھسوٹ لیں ، ظلم و ناانصافی کو قائم رکھیں جبکہ اسلام کا نفاذ آپکو یہ سب کرنے نہیں دے گا ، بزدل اتنے ہیں کہ کھل کر اسلام دشمنی کر نہیں سکتے . اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ضیاء الحق جیسا اسلام کو دھوکہ دینے والا بھی آپکو قبول کہ پھر اسکے ذریعہ اسلام پر الزام لگانا آسان ، مولوی کو بھی کچھ جگہ اسی لئے دیتے ہیں کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ اس پر ڈال سکیں
تو جناب آپ بتائیں پچھلے ستر سال میں آپ نے کیا معرکہ مارا ہے، کتنی تعلیم عام کی ہے ، کتنی صحت کی ضروریات عام کی ہیں، کتنا امن امان دیا ہے، معاشرے میں کتنا شعور عام کیا ہے ، عوام میں اپنے حقوق بارے آگاہی اور فرائض بارے کتنی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا ہے، لوگوں میں غلط رویوں و کاموں بارے کتنی معلومات عام کی ہیں، شہری ذمہ داریوں بارے کتنی مہمات چلائی ہیں ، معاشرے میں ہر طرح کے تعصبات کو کم کرنے یا ختم کرنے بارے ریاست کی طاقت کو کو کتنا موثر انداز میں استمعال کیا ہے. معاشرے میں گھٹن و شدت پسندی کو کم کرنے کیلئے ریاستی سطح پر کیا تیر مارے ہیں
  آپ نے سوائے الفاظ سے کھیلنے، مولوی کا ٹھٹھا و مذاق اڑانے ، لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے علاوہ کیا کیا ہے . آپکی بیاض میں ہے کیا
چند جھوٹی سچی کہانیوں کو بنیاد بنا کر مولوی کو بدنام کیجئے لیکن آپکو کسی وڈیرے ،جاگیردار، کسی صنعتکار ، کسی میڈیا سیٹھ کے ہاتھوں جنسی زیادتیاں اور لٹی عصمتیں نظر نہیں آئیں گی، مدرسوں میں جکڑے طلباء اور وہاں کی جنسی زیادتیاں نظر آتی ہیں (جس کی سخت ترین مذمت کرتا ہوں) لیکن جکڑے ہاری ، مزارع اور نجی جیلیں اور معاشرے میں ہوتی بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی و جسمانی زیادتیاں نظر نہیں آتیں

میرا خیال ہے کافی تضاد دکھا دیا ہے جوکہ اصل مقصد تھا اور اب اس کا اختتام کرتا ہوں کہ آئندہ سے یک طرفہ الزمات اور جھوٹ بھولنے سے پہلے غور کر لیجئے گا