Thursday, February 12, 2015

قصہ سوال و جواب


تمام احباب کو سلام
 
کچھ دوستوں کے اصرار پر عرصہ طویل کے بعد پھر سے لکھنے کی ٹھانی ہے . آپکی رائے ، مشوروں اور اصلاح کا انتظار رہے گا 
چند دن پہلے ذہن میں سوال ابھرا کہ سوال کیوں ابھرتا ہے ، ہے نا عجیب بات کہ سوال بارے سوال ابھرا یعنی وہ صورتحال جس کو انگریزی میں کیچ ٢٢ کہتے ہیں اور ہماری زبان میں پہلے مرغی تھی یا انڈا 
اس سوال کو اپنے ٹویٹری دوستوں کے سامنے رکھا کہ سنا یہی تھا کہ اجتماعی دانش ، انفرادی سے بہرحال بہتر ہوتی ہے اور ویسے بھی ایک اکیلا اور دو گیارہ ، تو شائد اس مسئلے یعنی سوال کا کوئی جواب نکلے ، تو جناب 
مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں آئے 


ذہن میں کوئی بھی سوال کیوں اور کیسے پیدا ہوتا ہے. کیا اسکا کوئی محرک ہوتا ہے، اور سوچنا اصل میں کیا ہوتا ہے


کیا سوال اہم ہوتا ہے یا اسکا جواب

جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسکا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو کیا وہ انسانی محدودیت کا اعتراف ہوتا ہے


دوست احباب نے اس بارے اپنے اپنے حساب سے تبصرے کیے کچھ نے بات مذاق میں لے لی ، کچھ نے سنجیدگی میں،  اور کچھ غلط پٹری پر چڑھ کر کسی اور ہی سمت میں جا نکلے ، خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا . پھر خود اس معاملے میں سوچ بچار شروع کر دی اور خیال کے گھوڑے دوڑائے تاکہ زنگ لگا ذہن کچھ کام تو خود بھی کر لے 

تو جناب دو دن کی سوچ بچار کے بعد اس قصہ سوال و جواب بارے کچھ خیالات حاضر ہیں 


جب ہم کسی حقیقت واقعہ کو اپنےسامنےپاتے ہیں تو ہماری عقل اس کےبارے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہے. اس نتیجے پر پہچنے کے دوران کا عمل، سوال بن کر ہمارے ذہن میں آتا ہے ، ہماری عقل مختلف نتیجوں کو پرکھتی ہے اور سامنے کی حقیقت کے ساتھ اس کا تقابل کرتی ہے ، جب ان میں کوئی نتیجہ اسکےلئے قابل قبول ہو جاتا ہے تو وہ اس کا جواب بن جاتا ہے. کچھ لوگ بہت جلدی کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں. کچھ بہت دیر تک اس عمل میں مبتلا رہتے ہیں اور یوں وہ حقیقت ایک سوال کی صورت بن کر کھڑی رہتی ہے، جلدی نتیجے پر پہنچنے والے ضروری نہیں صحیح نتیجے پر پہنچے ہوں اور نتیجے تک نہ پہنچنے والا بھی ضروری نہیں کہ غلطی کر رہا ہے، نتیجہ صحیح ہو یا غلط ، اس پر پہنچ جانےوالا مطمئن ہو جاتا ہے اور کسی نئی حقیقت کی کھوج میں لگ جاتا ہے 

مذھب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، جو لوگ مذھب کا انکار کرتے ہیں ان کی عقل ابھی تک کسی نتیجے کا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہوتی اور وہ اس پر بعض اوقات جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر جلد (چاہے غلط ہی سہی ) نتیجے پر پہنچنے والوں پر تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ وہ جلد نتیجے پر کیوں پہنچ گئے اس طرح مذہبی لوگ ، جلد نتیجے پر نا پہنچنے والوں پر غلط تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ وہ نتیجے پر پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں اور جلدی کیوں نہیں کر رہے، یہی چیز زندگی کے دوسرے معاملات میں ہوتی ہے.

دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اکثریت دوسروں کے کسی نتیجہ پر پہنچ جانے کے عمل پر یقین کرتے ہوئے اپنی عقل کے اس عمل کو اس کے ساتھ تال میل کر کے اس کو نتیجے پر پہنچنے لا اپنا عمل بنا لیتی ہے. اور یوں اپنے تئیں پرسکون ہو جاتی ہے. 

اب انسانوں میں یقینا ایسا اقلیتی طبقہ ہے جو ہر حقیقت واقعہ بارے اپنی ہی عقل کے کسی نتیجہ پر پہنچنے بارے عمل پر یقین رکھتا ہے اور اسی پر اعتبار کرنے کو تیار ہوتا ہے. آپ نے علم الیقین ،عین الیقین ، حق الیقین کی اصطلاحیں سنی ہونگے ، بس وہی والا معاملہ سمجھ لیں

میں جب ان باتوں پر سوچ بچار کر رہا تھا تو دفعتا یہ بات ذہن میں آئی کہ اللہ سے اطمینان قلب کی کیوں دعا مانگی جاتی ہے اور یوں ساری بات کھل گئی کہ اطمینان قلب اصل میں جلد سے جلد کسی نتیجے پر پہنچ جانے کا نام ہے. اور جونہی ہم کسی بھی معاملے میں نتیجہ پر پہنچتے ہیں ہم پرسکون ہو جاتے ہے. 

اسلامی لحاظ سے کہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ انسان کو جلد کسی نتیجے پر پہنچا دے اور یوں اسے اطمینان قلب ہو جائے اب یہ نتیجہ کوئی بھی ہو سکتا ہے اور انسان کے اطمینان قلب کی جہتیں اور درجے بھی مختلف ہو سکتے ہیں جو کہ  کے علیحدہ بحث ہے. یہاں بات سوال اور اس کے جواب بارے ہو رہی ہے 

المختصر سوال کسی حقیقت واقعہ کےبارےنتیجے پرپہنچنے کےعمل کا نام ہے اور جواب وہ نتیجہ ہوتا ہےجسے ہماریعقل تسلیم کر لے

آپ احباب کی رائے اور تبصرے کا انتظار رہے گا