Tuesday, October 3, 2017

گڈی کچے تے لاہ لوؤ ، میاں صاحب


عمرعزیز کا آدھے سے زیادہ حصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد تین مہینے پہلے پاکستان مستقل واپسی اختیار کرلی، جب ملک سے باہر گیا تو بطور طالبعلم اینی اوائل جوانی میں گیا تھا اور اب سر میں چاندی اترنا شروع ہو گئی ہے، یورپ میں اتنا عرصہ رہ کر زیادہ تر عادتیں اور رویے یورپ والے ہوگئے ہیں جن میں خاص طور پر ڈرائیونگ کا انداز، رویہ اور عادت پختہ ہو چکی ہے ، یہ کوئی بری عادت یا رویہ نہیں ہے بلکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری ، باحفاظت ڈرائیونگ ، اپنے گرد و پیش پر نظر اور اسکے ساتھ ساتھ سڑک پر اپنے اور دوسرے ڈرائیور کے حقوق و فرائض بارے آگاہی اور اس پر اصرار بھی ہے
ہر دو چار سال بعد پاکستان کا چکر لگتا تھا تو میرے لئے گاڑی چلانا کافی ناخوشگوار تجربہ ہوا کرتا تھا اور اسلئے یا تو کسی مقامی ڈرائیور کی خدمات حاصل کرلیتا تھا یا میرا چھوٹا بھائی گاڑی چلاتا تھا ، ویسے بھی پاکستان میں قیام دو تین ہفتوں کا ہوتا تھا تو کم ہی ادھر ادھر کا سفر ہوتا تھا اور ملنے ملانے میں ہی چھٹیاں ختم ہوجاتی تھیں اور واپس بیرون ملک چلے جاتے تھے    
اس بار چونکہ پاکستان مستقل واپسی کرلی تھی اور پاکستان آئے ایک مہینہ ہو چلا تھا اور مجھے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ضلع جھنگ میں اپنے فارم پر جانا تھا ، عموما گاڑی چھوٹا بھائی چلاتا ہے لیکن اس دن میں نے کہا کہ آج گاڑی میں چلاتا ہوں، نئے بنے فیصل آباد-گوجرہ موٹر وے کا چراغ آباد انٹر چینج لیکر فیصل آباد-جھنگ  روڈ پر گاڑی ڈال لی ،موٹر وے کا سفر تو میرے لئے پیس آف کیک والا معاملہ تھا لیکن جونہی فیصل آباد - جھنگ روڈ پر آیا یہاں رولز آف دا گیم ہی کچھ اور تھے اور ٹریفک و ڈرائیونگ کے کسی اصول ضابطے اور قانون والی بات نہ تھی  اس دوران کئی  گاڑیوں جن میں کاریں ، ہائی ایس وینز اور ایک دو بسیں بھی تھیں نے نہایت ہی بیہودہ اور خطرناک انداز میں مجھے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے اوور ٹیک کیا ، وجہ یہ تھی کہ میرے آگے ایک دو گاڑیاں تھیں اور میں اپنی یورپی ڈرائیونگ عادت کے تحت محفوظ فاصلے اور باحفاظت اوور ٹیکنگ کیلئے صبر اور انتظار سے کام لے رہا تھا . میری اس عادت سے چھوٹا بھائی بھی کچھ بے چینی اور بیزاری کا شکار تھا . خیر میں اپنے تئیں غیرضروری اور جان لیوا رسک لینے کو ہرگز تیار نہ تھا 
ابھی چند منٹ مزید گزرے ہونگے کہ میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک ٹرک نہایت ہی خطرناک انداز میں دوسرے ٹرک کو اوورٹیک کرتا بالکل میرے سامنے آ رہا تھا ، اب میں اپنی یورپی ڈرائیونگ عادت کے تحت اس زعم میں ہوں کہ وہ مجھے سامنے آتا دیکھ کر رک جائے گا کہ راستہ تو ہے نہیں ورنہ سیدھا مجھ سے ٹکرائے گا ، لیکن ٹرک والے نے کسی قسم کی کوئی شرم حیا ، اصول  ضابطے قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سیدھا میری طرف آنا جاری رکھا اور میں نے گاڑی کا ایک ٹائر کچے پر اتار کر بمشکل اپنی ، اپنے بھائی کی جان بچائی اور گاڑی کو حادثے سے بچایا 
میں نے گاڑی روک لی لیکن وہ ٹرک والا بغیر کسی بھی قسم کی پشیمانی یا شرم اور رکے بغیر، اوورٹیک کرکے سیدھا چلتا گیا ، میں اب ٹرک والے اور اسکے خاندان کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا اور اس بات پر سخت پیچ تاب کھا رہا تھا کہ کیسا جاہل ، گھٹیا اور جانور نما انسان ہے جسے نہ اپنی اور نہ کسی اور کی جان مال کی پرواہ ہے اور جو اپنی لین چھوڑ کر زبردستی بغیر کسی اصول ضابطے اور حق کے میرے والی لین میں آ گھسا تھا اور مجھے سڑک سے اترنے اور رکنے پر مجبور کیا
میرا چھوٹا بھائی جو اب تک صبر سے سب کچھ برداشت کرتا آیا تھا ، پھٹ پڑا اور کہنے لگا کہ جناب یہ پاکستان ہے یہاں یورپ والی ڈرائیونگ اور اصول ضابطے اور حقوق نہیں چلتے یہاں پاکستان کے اصول ضابطے و رویے چلتے ہیں اور ہاں آپ نے ٹرک کو سامنے آتے دیکھ کر خود گاڑی کچے پر کیوں نہ اتار لی تاکہ ٹرک والے سے کسی تصادم کا خطرہ ہی نہ ہوتا اور ہم اسکو راستہ دیکر خود محفوظ رہتے اور اتنی ٹینشن بھی نہ رہتی ، دوسرے الفاظ میں ، سامنے توں  بدمست جاہل ٹرک ڈرائیور نوں ویکھ کے آپے گڈی کچے تے لاہ لئی دی جے تے موقع ولاہ جائی دا جے 
میاں صاحب دی موجودہ صورتحال نوں ویکھ کہ ایہہ واقعہ یاد آگیا تے میاں صاحب لئی مخلصانہ مشورہ ایہو جے کہ میاں صاحب ، گڈی کچے تے لاہ لوؤ ورنہ بچنا ککھ نئیں جے