Monday, September 26, 2016

فوجی مداخلت کا ایک خاموش پہلو



ایک اہم پہلو جو عام طور پر نظر انداز اور فراموش کر دیا جاتا ہے وہ فوجیوں کی عوامی، سیاسی، خارجہ،  تزویراتی اور قومی سلامتی کے معاملات میں ان کی خاموش مداخلت کو قبول کرنا ہے . یہ خاموش مداخلت کئی طریقوں سے ہوتی ہے ، کچھ توبراہ راست فوج کی طرف سے ہوتی ہے ، کچھ سیاسی حلقوں کی غیر ارادی دعوت کی وجہ سے ہوتی ہے اور کچھ ٹی وی کے سیاسی پروگراموں کے میزبانوں کی نا سمجھی ، بے عقلی اور سیاسی بھولپن کی وجہ سے ہے.
آج میرا موضوع سیاسی پروگراموں کے میزبانوں کے سیاسی نا پختہ پن کی بات کرنا ہے. آیا یہ جان بوجھ کر ہے، بھولپن کی وجہ سے ہے یا یوسف کے پردے میں زلیخا بول  رہی ہے اسکا فیصلہ میں آپ سب پر چھوڑتا ہوں.

چلیں اور کیا پہیلیاں بھجوانا ، میرا مدعا آج سیاسی پروگراموں میں ریٹایرڈ فوجی جرنیلوں کی بطور مہمان تبصرہ نگار کے بلانے سے ہے . ہر دوسرے پروگرام میں ان چلے ہوئے کارتوسوں کو تبصرے اور راۓ دینے کیلئے بلا لیا جاتا ہے. پروگرام چاہے خارجہ امور پر ہو یا انٹللجینس معاملات پر، غیر ملکی مداخلت پر ہو یا دہشت گردی پر، قومی سلامتی کے امور پر ہو یا ریاستی اداروں کے آپسی تعلقات پر، تزویراتی معاملات ہوں یا عدالتی معاملات  ، یہ نام نہاد فوجی ماہرین اپنی گھسی پٹی راۓ اور تبصرہ دینے کیلئے ہر پروگرام میں موجود ہوتے ہیں. خاص طور پر وہ ماہرین جن کے تجربات اور خیالوں کی پرواز ہی اس حالت اور مشکلات  میں پھنسنے کی وجہ تسمیہ ہے. ہمیں کب ماضی میں ان کے تجربات سے فائدہ پہنچا ہے جو اب ان سے مستفید ہوں .
اگر ہم بی بی سی ، سی این این ، سکائی نیوز ، فوکس نیوز وغیرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان ٹی وی چینلز نے خارجہ امور، قومی سلامتی، انٹلیجنس ، تزویراتی معاملات اور حتیٰ کہ خالص فوجی معاملات پر بھی غیر فوجی ماہرین کو بھرتی کیا ہوا ہے، یہ یا تو ان کے اپنے ماہرین  ہوتے ہیں یا  مختلف تھنک ٹینک سے منسلک ماہرین ہوتے ہیں اور اپنے اپنے حلقہ عمل کے ماہر ہوتے ہے  .مثال کے طور پر اگر بی بی سی کے نیوز نائٹ پروگرام کو دیکھیں تومیزبان  جرمی پکسمین سفارتی اور خارجہ امور پر عمومَا مارک اربن کوراۓ دینے کیلئے بلاتا ہے جو کہ خود  بی بی سی نیوز کا ملازم ہے.  ضرورت پڑنے پر ان ماہرین سے راۓ لی جاتی ہے اور ریٹایرڈ فوجی حضرات کوصرف اشد ضرورت پڑنے پر ہی بلایا جاتا ہے . ٹی وی چینلز کے اپنے ماہرین ضرورت پڑنے پرنا صرف ان معاملات میں قومی راھنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور راۓ عامہ کو ریاستی حکمت عملی سے ہم آہنگ کرتے ہیں بلکہ مشکل حالات میں ریاستی کارروائی نامے کو آگے بھی بڑھاتے ہیں. یہ ریاستی اداروں کو بیجا تنقید اور غیر ضروری دباؤ سے بھی بچاتے ہیں اور ایک بفر کا کام کرتے ہیں. یہ غیر فوجی لوگ عوام الناس  کو اطمینان تسلّی اور اعتماد بھی بخشتے ہیں کہ ان کے معاملات اور ریاستی امور خالص پیشہ وارانہ ، قابل، اہل اور عوامی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ عمدہ اور صحیح طور پر ان سے عھدہ براہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں.
اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری سیاسی جماعتوں  پر عائد ہوتی ہے کہ ہر وقت فوجی مداخلت فوجی مداخلت کا رونا پیٹنا چھوڑ کر کچھ عملی کام بھی کریں . سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ان تمام حکومتی اور ریاستی امور پر تھنک ٹینک قائم کریں اور اپنے اراکین اسمبلی اور عام سیاسی کارکنوں کی ان امور پر تربیت کریں تا کہ وہ بھی ان معاملات کو سمجھیں اور ان کے بارے میں راۓ قائم کر سکیں اور راۓ دے سکیں . یہ بات ہییت مقتدرہ کے اس پروپیگنڈہ کا بھی مونہہ توڑ جواب ہو گا کہ عوام اور سیاسی قیادت ان امور سے نا واقف، نابلد اور نااہل ہے اور ان پر ان معاملات میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا.
آخر میں ایک گزارش اور استدعا ٹی وی چنلز سے عمومی طور پر اور پروگرام میزبانوں سے خصوصی طور پر کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اوپر بھی پروگرام کریں اور ان سے یہ سوالات کریں کہ وہ عوام کی سیاسی اور ان امور پر تربیت کرنے کیلئے کیا کچھ کر رہی ہیں ، ان مختلف معاملات پر ان کے پاس کون کون سے ماہرین ہیں ،ان کا ماہرانہ پس منظر کیا ہے تا کہ عوام کو بھی تو پتہ چلے کے کون سی سیاسی جماعت کتنے پانی  میں ہے. اور سب سے اہم بات،  جب ان امور پر بات کرنی ہو تو سیاسی جماعتوں سے اصرارکریں کہ کسی ایرے غیرے کو بھی بات کرنے کیلئےبھیجنے کی بجاۓ  اس  شعبے کا ماہر بھیجیں اور اس کا  تعارف اس شعبے کے ماہر  کے طور پر کروائیں اور عوام کو پتا چلے کہ یہ سیاسی جماعت ان امور سے کتنی واقف ہے اور ان کا وسعت علم کتنا ہے اور ان کی فکری گہرائی کتنی ہے
.  سیاسی جماعتوں کو مجبور کریں کہ ان مختلف امور ( یعنی  خارجہ، تزویراتی، قومی سلامتی، سفارتی، انٹلیجنس، اقتصادیت ، دہشت گردی ،غیر ملکی مداخلت وغیرہم  ) پر علیحدہ علیحدہ  لوگ مقرر کریں اور جو  جماعتیں ایسا نا کریں ان کو کھل کر بےنقاب کریں اور عوام کو بتائیں کہ یہ نا اہل لوگ ہیں اور ان کا مقصد صرف لوٹ مار اور عوام کو بے وقوف بنانا ہے .
فوجی حضرات کو ٹی وی کی سکرین سے چلتا کریں اور ہم بھی تو دیکھیں ان کے بغیر ٹی وی کے پروگرام کتنے اچھے لگتے ہیں.

Sunday, June 12, 2016

پاکستان کی سفارتی تنہائی اور ڈھیلی ڈھالی خارجہ پالیسی، اصل وجہ کیا ہے

مشہور عام یہی ہے کہ دوستی بے لوث ہوتی ہے ، یہ فقرہ یا بیانیہ ، دو بندوں کے درمیان دوستی بارے تو شائد کچھ حقیقت رکھتا ہو لیکن خاندانوں، قبیلوں ، ملکوں اور قوموں بارے اس کی کوئی حیثیت یا وقعت نہیں ہے، حتی کہ اگر دو لوگ بھی آپس میں کسی قسم کا تعلق واسطہ قائم کرتے ہیں تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد یا مشترکہ بات، یا مشترکہ خیالات ضرور ہوتے ہیں. عام زندگی میں بھی جب آپ کسی نہ کسی شخص کے قریب آتے ہیں یا اس سے کسی قسم کے دیرپا تعلقات کا سوچتے ہیں تو تحت الشعور میں لازما باہمی مفادات یا خیالات ہوتے ہیں. ضروری نہیں کہ یہ مفادات مادی ہی ہوں اور مفادات کو محض مادی ہی سمجھنا فاش غلطی ہوا کرتی ہے کہ باہمی مفادات محض کسی کی محفل میں بیٹھنا ، بات 
کرنا اور علم حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے

اس ساری تمہید کا اصل مقصد باہمی تعلقات میں کسی نہ کسی 
مفاد، باہمی دلچسپی یا مشترکہ خیالات کی ضروری موجودگی کی اہمیت کا احساس دلانا ہے

ملکوں اور قوموں کے تعلقات کی جب بھی بات ہوتی ہے تو انیسویں صدی میں برطانیہ کے وزیراعظم رہے لارڈ پالمرسٹن کے یہ الفاظ ہمیشہ دہرائے جاتے  کہ برطانیہ کا کوئی مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہے البتہ مستقل مفادات ہیں جن کو حاصل کرنا ہمارا فرض منصبی ہے

جدید سفارت کاری اور ملکوں اور قوموں کے خارجہ تعلقات کی بنیاد اسی فلسفہ یا فکر پر قائم ہے اور ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کیلئے اپنے مفادات کو ہی مد نظر رکھتے ہیں، لیکن یہ فکری بنیاد کوئی جدید سفارتی و خارجہ حکمت عملی کا مظہر نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم سے ملکوں کے باہمی تعلقات یا دشمنیاں اسی بنیاد پر استوار ہوتی رہی ہیں

یہاں تک تو بات عام فہم ہے اور سب کی سمجھ میں آتی ہے اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ کسی ملک یا قوم کو خارجہ حکمت عملی بناتے وقت دقت ہو لیکن پھر کیا بات ہے کہ آئے دن ہم یہ سنتے ہیں کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے یا ہمارا "دشمن" ملک بھارت تو ہمارے باقی ہمسائیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کر رہا ہے ، طرح طرح کے تجارتی ، دفاعی ، سائنسی ، تعلیمی اور ثقافتی معاہدے دھڑا دھڑ کیے جارہا ہے اور وہ ممالک جن کو ہم عرصہ دراز سے اپنا بہترین دوست اور ہر دکھ سکھ کا ساتھی سمجھتے رہے ہیں اور انکی خاطر تن من دھن بھی لٹاتے رہے ہیں ہمارے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا ہمیں وہ اہمیت دینے کو تیار نہیں جسکے ہم،  خیال و خواب سجائے بیٹھے رہتے ہیں

جیسا کہ شروع میں ہی عرض کیا تھا کہ کسی بھی دوستی اور تعلقات کی بنیاد ہمیشہ کوئی مشترکہ مفاد یا باہمی دلچسپی کا معامله ہوا کرتا ہے تو پاکستان بھی اس اصول و بنیاد سے مبراء نہیں ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا مشترکہ مفاد یا باہمی خیال و فکر و دلچسپی کا معاملہ ہے جس میں دوسرے ممالک یا اقوام کو دلچسپی ہو یا انکو اپنا فائدہ نظر آتا ہو

اس بات کو جاننے کیلئے ہمیں سوچ بچار کیلئے چند قدم پیچھے آنا ہوگا اور مختلف ملکوں و قوموں میں موجود شاندار و دیرپا تعلقات کی نوعیت و کیفیت کو جاننا ہوگا اس کو بغور جانچنا ہوگا

عالمی جنگوں کے بعد سے قائم شدہ جدید قومی ریاستیں ہوں یا زمانہ قدیم کی روم، یونان، مصر یا فارس کی ریاستیں یا انکے درمیانی عرصہ میں قائم اسلامی خلافت اور دوسری ریاستیں ہوں، ان سب ریاستوں میں ملکی یا قومی مفاد کا حصول، اصل میں وسائل و ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا اور ان وسائل و ذرائع پیداوار کو چند لوگوں کے اختیار میں دینا یا تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے استمعال کرنا ہوا کرتا تھا اور ہے

جدید قومی ریاستوں میں قومی و ملکی مفاد کی توضیح و تشریح اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کرتا ہے اور چنانچہ اس سرمایہ دارانہ نظام پر قابض اور اسکو چلانے والے سرمایہ دار طبقات. اب سرمایہ دار طبقوں کا مفاد و بقاء اسی میں ہوتی ہے کہ کیسے انکے سرمائے کا تحفظ ہو ، کیسے وہ وسائل و ذرائع پیداوار پر قابض رہیں اور کیسے مزید وسائل و ذرائع پیداوار پر قابض ہو سکیں. سرمایہ دار طبقہ ہی کسی ملک میں معاشی ترقی و صنعتی بڑھوتری کا ذمہ دار ہوتا ہے وہی ملک میں بینکوں کا جال بچھا کر سرمائے کی گردش کو کنٹرول کرتا ہے ، وہی نت نئی صنعتوں و ایجادات کے پیچھے اصل محرک ہوتا ہے، وہی کسی ملک میں اعلیٰ فنی مہارت و تعلیم کو یقینی بناتا ہے وہی نت نئی مالی خدمات و مصنوعات کی تخلیق اور انکے ذریعہ اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کی سعی میں مصروف رہتا ہے

جدید قومی ریاستوں میں کسی بھی ملک کی حکومت ، اسکا نظام اور حتی کہ فوج بھی ان تمام سرمایہ دارانہ مفادات کے حصول کیلئے محض ایک ٹول یعنی آلہ ہوتی ہے اور اسکا کام سرمایہ دارانہ مفادات کے حصول کو یقینی بنانا ہوتا ہے
سرمایہ دارانہ طبقات کسی ایک ملک یا جغرافیائی علاقے تک محدود نہیں رہنا چاہتے کہ اس سے انکے سرمائے اور کاروبار کو فروغ نہیں ملتا اور یوں انکی وسائل پر قبضے کی پہنچ محدود رہ جاتی ہے، سرمایہ دارانہ طبقات کی  اپنے سرمائے، کاروبار اور وسائل پیداوار پر تسلط کے استحکام و بڑھوتری کا معاشی نظریہ و فکر ہی وہ بنیاد ہے جو کسی بھی ملک کی خارجہ حکمت عملی اور ملکوں کے باہمی تعلقات کیلئے محرک ہوا کرتی ہے، موجودہ زمانے میں یہی معاشی نظریہ یا فکر ہے جو ملکوں کے درمیان باہمی دوستی/ دشمنی، شراکت/مسابقت  والے تعلقات اور حلقہ اثر کا فیصلہ کرتی ہے

نظریاتی فکر و فلسفہ وہ بنیاد ہے (موجودہ بحث میں سرمایہ دارانہ فکر ) جو کسی ملک میں فوج رکھنے، کتنی تعداد میں رکھنے اور کس قسم کی فوجی ٹیکنالوجی کے حصول و غلبے کا فیصلہ کرتا ہے، یہی وہ فکر و فلسفہ ہے جو ملک کے عوام میں کسی خاص ملک کے بارے میں دوستی یا دشمنی کے جذبات  پیدا کرنے اور انہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے، یہ نظریاتی فکر و فلسفہ ہی ہے جو تعلیمی اداروں کے ذریعہ دی جانے والی تعلیم کے سبب اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو نظام نافذ ہے وہ قائم و دائم رہے اور کوئی بھی اسکے خلاف آٹھ کھڑا نہ ہو. اگر حالات و واقعات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو کسی بھی ملک میں نافذ نظام کے پیچھے اصل قوت متحرکہ کوئی نظریاتی فکر و فلسفہ ہی ہوتا ہے اور موجودہ بحث میں اسکو سرمایہ دارانہ فکر یعنی کیپیٹلزم سمجھ لیجئے

یہ جو ہم حکومت اور حکومتی اداروں کا تام جھام دیکھتے ہیں، یہ جو ہم فوج اور خفیہ اداروں کا پورے ملک میں بچھا جال دیکھتے ہیں، یہ جو ہم عوامی نمائندگان کی نام نہاد شان و شوکت دیکھتے ہیں، یہ سب ایک ملمع، ایک جلو سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ان سب کا اصل کام ان مفادات کا حصول ، تحفظ اور بڑھوتری ہے جس کے لئے ان کا اہتمام کیا گیا ہے، 

یعنی کسی بھی ملک کی خارجہ حکمت عملی و سفارتی تعلقات کی بنیاد ، نوعیت و کیفیت کا فیصلہ، حکومت، فوج یا اسکے عوامی نمائندگان نہیں کرتے بلکہ اسکے تجارتی و سرمایہ کے اصلی مالک ، سرمایہ دار طبقات کرتے ہیں

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عموما اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے خصوصا، اگر آپ تمام مغربی ممالک کے دوسرے ممالک سے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان تعلقات کو قائم کرنے کے پیچھے مغربی سرمایہ دارانہ کارپوریٹ سیکٹر کا دباؤ ہی تھا.

اب اگر اس صورتحال کو ہم بھارت اور پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ وزیراعظم مودی کے مختلف ممالک کے دھواں دھار دوروں اور انکے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدات کے پیچھے کن طبقات کی تحریک و دباؤ شامل ہے، وزیراعظم مودی کا شائد ہی کوئی غیرملکی دورہ ہو جس میں اسکے وفد میں اکثریت بھارتی صنعتکاروں و سیٹھوں کی نہ ہو. بھارت کی موجودہ تیز سفارت کاری و سریع خارجہ حکمت عملی کے پیچھے اصل میں بھارت کا سرمایہ دار کارپوریٹ طبقہ ہے جو اپنی مصنوعات بیچنے اور وسائل پیداوار پر قبضے کیلئے بے چین بیٹھا ہے

مغرب کے سرمایہ دار کارپوریٹ طبقہ سے سبق سیکھتے ہوئے، بھارتی کارپوریٹ سرمایہ دار طبقہ اپنے ملک کی خارجہ حکمت عملی کی تشکیل میں اہم ، موثر اور بنیادی کردار ادا کر رہا ہے اور بھارت کی حکومت اور فوج،  سرمایہ دار کارپوریٹ طبقہ کے اس اہم اور بنیادی کردار کو تسلیم کرکے ان کیلئے سرمایہ دارانہ مفادات کے حصول کیلئے آلہ و ذریعہ بننے کو تسلیم کر چکی ہے

اب اگر ہم پاکستان کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں کسی بھی قسم کا کوئی سرمایہ دار طبقہ نظر نہیں آتا اگر کوئی ہے تو وہ محض ایک تاجر طبقہ ہے جو دوسروں کا مال بیچ کر اس پر اپنا حصہ کما کر خوش و خرم ہے، پاکستان میں کوئی ایسا سرمایہ دار طبقہ نہیں ہے جو اپنے سرمائے اور تجارت کو علاقے کی منڈی میں پھیلانے اور اس منڈی پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھتا ہو.پاکستان میں کوئی امبانی ، کوئی متل کوئی ٹاٹا ، کوئی برلا ، کوئی پریم جی ، کوئی مہندرا، کوئی بجاج ، کوئی گوڈریج ، کوئی روی رویا ، کوئی بنسل اور کوئی جندل نہیں، پاکستان میں سرمایہ دارانہ کارپوریٹ طبقہ کا ابھی تصور بھی نہیں ہے، اب اگر کوئی ایسا طبقہ ہی نہیں ہے جو اپنے سرمائے اور تجارتی مفاد  کو ملکی و قومی مفاد کے ساتھ ملا کر یا اسکا خوشنما نام دیکر اسکے حصول، تحفظ اور بڑھوتری کیلئے حکمت عملی وضع کرسکے اور حکومت و فوج کو بطور ایک آلہ استعمال کرسکے تو کہاں کی سفارت اور کہاں کی خارجہ حکمت عملی

پاکستان کا جتنا بھی سرمایہ دار طبقہ ہے اسکی فکری گہرائی و گیرائی اتنی ہے کہ وہ اندرون و بیرون ملک چند جائیدادوں کا مالک بن جائے، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم پھر لے اور سرکاری پروٹوکول کا فائدہ اٹھا لے. ہمارے ہاں اگر بہت بڑی فکری چھلانگ ماری بھی گئی ہے تو وہ ایک راہداری کے چوکیدار کی حیثیت میں ماری گئی ہے.جس پر غیر ملکی سامان و کاروبار کے ٹرک اور مال گاڑیاں چلیں گی ، جس میں آپ صرف چنگی وصول کرنے والے ایک معمولی اہلکار سے بڑھ کر کچھ نہ ہوں گے.

 دنیا بھر کا کارپوریٹ سرمایہ دار، اپنے سرمائے و کاروبار کے تحفظ کا متمنی ہے اور وسائل پیداوار پر قبضے کی خواہش رکھنے والا. انکو اپنے سرمائے کے پھیلاؤ و تحفظ اور پاکستانی وسائل پر قبضہ کیلئے، پاکستانی سرمایہ داروں سے کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں کرنی پڑی یا شراکت کیلئے مجبور نہیں ہونا پڑا. انکو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایک بنی بنائی ایسی فوج اور حکومت بھی میسر آ گئی ہے جو بجائے اپنے ملکی سرمایہ داروں کیلئے کام کرتی ، انکے لئے ایک معمولی اجرت پر کام کرنے کیلئے تیار بیٹھی ہے
ایسی صورتحال میں پاکستان کی خارجہ حکمت عملی غیر ملکی کارپوریٹ سرمایہ دار ہی مرتب کریں گے اور وہی فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کو کونسے ممالک سے تعلقات رکھنے ہیں ، کتنی سطح کے رکھنے ہیں، پاکستان کو کتنی سفارتی گرمجوشی فراہم کرنی ہے یا کتنی سفارتی تنہائی، وہی فیصلہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کو ایک متحرک خارجہ حکمت عملی چاہئے یا ایک سست الوجود اور ڈھیلی ڈھالی خارجہ حکمت عملی


مضمون کا اختتام اس پر کروں گا کہ پاکستان کے بالادست و سرمایہ دار طبقات کو تاجرانہ ذہنیت سے فوری باہر آنے کی ضرورت ہے، انہیں فوری طور پر صنعتی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے جسکی ایک فکری و نظریاتی بنیاد ہو ، مزید براں انکو حکومت اور فوج کے ساتھ ملکر جلد از جلد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس ملک کی خارجہ حکمت عملی خود بنانی ہے یا غیر ملکی کارپوریٹ سرمایہ دار طبقات کی خارجہ حکمت عملی کو اپنانا ہے اور خود محض کرائے کے ٹٹو بننا ہے

Saturday, April 9, 2016

آف شور کمپنیاں علامت ہیں اصل بیماری نہیں-- حصہ دوئم


اس قصے کو یہیں چھوڑتے ہوئے اب آتے ہیں آف شور بینک اور اف شور کمپنیوں کی طرف
جب فرانس میں انقلاب آیا اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے خلاف ان کی لوٹ کھسوٹ پر عوام کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انہوں نے  امراء کے طبقہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا تو ان سرمایہ داروں کو فکر لاحق ہوئی کہ کیسے اپنا مستقبل محفوظ بنائیں اور کیسے اپنا مالیاتی تسلط برقرار رکھیں. جب نپولین کو شکست ہوگئی تو فرانس کے امراء کو مزید فکر لاحق ہوگئی کہ انکے بڑھتے ہوئے سرمائے کا کیا بنے گا، اس زمانے میں ویانا اور چینل آئی لینڈز میں موجود سرمایہ داروں نے چھوٹے پیمانے پر بینک بنانے شروع کردئیے اور اور یورپ کے تمام بڑے سرمایہ داروں کو دعوت دینا شروع کردی کہ اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے اپنا پیسہ ، بانڈز/سٹاک اور کمپنیاں وہاں منتقل کردیں جہاں انکو مکمل راز داری مہیا کی جائے گی اور انکا سرمایہ ہر حال میں محفوظ رہے گا

یہ وہی زمانہ تھا جب یورپی سامراجیت نے دنیا بھر میں اپنے سامراجی پنجے پوری طرح گاڑ لئے تھے اور شمالی و جنوبی امریکہ اور افریقہ و ایشیا پر قبضے بھی مکمل کرلئے تھے. ان علاقوں پر لوٹ مار والے  قبضے کی وجہ سے دولت کی عام ریل پیل ہوگئی اور بے شمار لوگ طبقہ امراء میں شامل ہونا شروع ہوگئے، اس زمانے میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے جاگیرداری کو زوال آنا شروع ہوگیا اورسٹاک بروکر ، بینکاروں، سٹاک کمپنیوں اور صنعتکاروں کے روپ میں سرمایہ داروں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا، یہ نیا طبقہ بھی اس پرانے محدود سرمایہ دار طبقے کا جلد ہی حصہ بن گیا جو کہ بینک آف انگلینڈ اور اسی قبیل کے دوسرے بینکوں کا مالک تھا اور یورپ کے ملکوں کی معاشیات پر قابض
اس محدود طبقے کے پاس دولت ، اثر رسوخ اور اختیار کی اتنی بھرمار ہوگئی تھی کہ عوام میں ایک بار پھر سخت قسم کی نفرت اور بغاوت پھیلنے کے اثار نظر آنے لگے. صنعتی انقلاب کی بدولت عوام میں علم و شعور بڑھا تو اس سرمایہ دار طبقہ کی دولت پر ٹیکس 
لگانے اور کچھ صورتوں میں ان پر قبضہ کرنے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں

چونکہ لاطینی امریکہ کے ممالک پر یورپی ملکوں کا قبضہ تھا اور اس زمانے میں تجارت اور قدرتی وسائل سے زیادہ تر پیسہ انہی ممالک سے آرہا تھا تو سرمایہ دار طبقہ نے ایک بار پھر اپنے اثر ورسوخ اور سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے ، چھوٹے چھوٹے جزیروں پر کمپنیاں اور بینک قائم کرنے کے اجازت نامے حاصل کرلئے اور نا صرف اجازت نامے بلکہ اس بات کی قانون سازی بھی کروا لی کہ وہاں پر موجود کمپنیوں کو ٹیکس ، سرمائے کی راز داری اور تحفظ  کی ضمانت بھی ہوگی اور جو جو ممالک و جزیرے جس کسی یورپی استعماری طاقت کے کنٹرول میں ہیں انکو اس استعماری طاقت کی تمام فوجی طاقت کا تحفظ بھی ہوگا. یعنی ایک بار پھر وہی سرمایہ دار جو پیسے کی رسد و طلب کے مالک بنے ہوئے تھے اپنے سرمائے ، اثر ورسوخ و اختیار کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ، حضرت اقبال نے 
شائد ایسے ہی موقع کیلئے اپنا یہ شعر کہا تھا کہ

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

اور یوں ، برٹش ورجن آئی لینڈ ، کیمن آئی لینڈ ، چینل آئی لینڈ ، بہاماز، پانامہ ، ماریشس، بیلیز، برمودا ، قبرص، وغیرہ وغیرہ کی ٹیکس و سرمایہ بچانے کے محفوظ ٹھکانے وجود میں آگئے . ان محفوظ ٹھکانوں کی مکمل فہرست آپ انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں.
روس میں ١٩١٧ میں آنے والے بالشویک انقلاب ، پہلی و دوسری جنگ عظیم اور مغربی و

روسی بلاکس کی سرد جنگ میں سرمائے کے ان محفوظ ٹھکانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی اور امریکی و مغربی یورپی سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کو عام لوگوں کی طرح ان پر لگنے والے بھاری ٹیکسوں سے بچانے کیلئے نت نئی چالوں ، کمپنیوں کے ڈھانچوں ، بینکوں کے ڈھانچوں اور قانون سازی سے اپنے سرمائے کو کاغذوں کی حد تک ان محفوظ پناہ گاہوں جنکو لوگ آج آف شور کمپنیاں یا آف شور بینک کہتے ہیں ، میں منتقل کردیا

اس سارے قصے میں جو اصل بات غور کرنے کی اور سوالات جو اٹھانے والے ہیں انکی
 طرف کبھی بھی لوگوں کا دھیان نہیں جانے دیا جاتا. سب سے پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں اسوقت جو نظام معیشت تسلط رکھے ہوئے ہیں وہ ہے نظام سرمایہ داری، اور اس نظام کو لانے والے ، نافذ کرنے والے ، تحفظ دینے والے اور پھیلانے والے وہی سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے سرمائے کی محفوظ پناہ گاہیں بنائی ہیں. دنیا کا کوئی بھی آف شور بینک ، امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے ریاستی (نجی پڑھئیے) بینکوں کے ڈھانچے کا حصہ بنے بغیر کسی بھی قسم کا کاروبار یا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا اور 
ان ریاستی بینکوں پر قابض لوگوں کی ساری تاریخ میں اوپر بیان کر چکا ہوں

دوسرے الفاظ میں یہ آف شور کمپنیاں اور آف شور بینک ، اصل میں اسی نظام سرمایہ داری
 کا جزو لاینفک ہیں اور اسی نظام نے اپنے مالکوں کے سرمائے کے تحفظ کیلئے ہی بنائی ہیں . اس لئے کسی بھی یورپی یا امریکی حکومتوں کی طرف سے ان پر واویلا یا ان پر پابندی لگانے کے مطالبے اصل میں نری منافقت اور سموک سکرین ہیں اور لوگوں کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہیں، کیا کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار ہوگا کہ امریکہ اور یورپ کے ممالک محض اس شک پر کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے  پر تباہی والے ہتھیار ہیں  تو چڑھ دوڑیں اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں لیکن ٹیکس چوری اور ٹیکس بچانے والی محفوظ پناہ گاہیں جو چند سو مربع میل کے جزیرے ہیں کے بارے میں کچھ کرنے پر اپنے آپ کو بے بس اور بے اختیار پائیں

اب آتا ہوں موجودہ پانامہ لیکس کے قضیے کی جانب، جس دن پانامہ پیپرز کا غلغلہ بلند ہوا اور ساری میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہا ہا کار مچی ، میرا اسی وقت ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی جائے جبکہ یہ نظام اپنے ہی سرمائے کو محفوظ کرنے کیلیے ہو

اس بابت کچھ ابتدائی تحقیق اور سوچ بچار کیا تو بات فورا کھل گئی اور دوسرے ہی دن میں
 نے ایک ٹویٹ میں اسکا اظہار کردیا تھا کہ اصل قصہ ہے کیا، تیسرے دن صدر اوبامہ کی تقریر اور امریکی محکمہ خزانہ کی ان معاملات کی تفتیش کرنے اور پھر جید امریکی و یورپی جریدوں میں اوپر تلے چھپنے والے مضامین نے میرے شک کو حقیقت میں بدل دیا کہ اصل قصہ وہی ہے

چلیں جی مزید کیا پہیلیاں بجھوانا ، اس بات کو بھی بیان کردوں کہ پانامہ پیپرز اور آف شور
 کمپنیوں و آف شور خفیہ اکاونٹس کے خلاف موجودہ مہم اصل میں کس لئے ہے

١٩٩٠ میں سوویت یونین کے خاتمے سے عالمی سرمایہ داری کو لاحق بڑا خطرہ ختم ہوگیا تھا اور دنیا کے باقی ماندہ وسائل پر بھی عالمی سرمایہ داروں کا قبضہ مکمل ہوگیا. اس قبضے کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ یورپی و امریکی سرمایہ داروں کے گروہ کے مقابلے میں روسی ، چینی ، بھارتی اور مشرق وسطی کے سرمایہ دار گروہ پیدا ہوگئے، شروع میں یہ سرمایہ دار گروہ چھوٹے اور کم اثر و رسوخ والے تھے اور انکا عالمی معاشی ہتھکنڈوں بارے تجربہ و علم بہت کم تھا اور یہ لوگ ان پرانے اصلی تے وڈے سرمایہ داروں کے گروہ کے ساتھ اور انکے نیچے لگ کر کام کرنے پر مجبور تھے لیکن چین ، روس ، انڈیا اور مشرق وسطی میں غیر یقینی سیاسی صورتحال نے ان نئے سرمایہ دار طبقوں کو بھی اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے ان آف شور بینکوں اور آف شور کمپنیوں کی راہ دکھلا دی

 ١٩٩٠ کے بعد سے پھیلائی جانے والی عالمگیریت، آزاد منڈی کی معیشت اور سرمائے کے
 آزادانہ بہاؤ نے ان نئے سرمایہ داروں کو اپنے ملکوں میں موجود قدرتی و معدنی وسائل سے  دولت کمانے کے بے پناہ مواقع فراہم کردئیے اور انکے پاس بھی دولت کے پہاڑ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس دولت کو سرمائے کی ان محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کردیا اور ان محفوظ پناہ گاہوں کے اچھے خاصے حصے پر قابض ہوگئے. عالمی سرمایہ داری کے اصلی مالکوں کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ مراثی کا بچہ گاؤں کے چوہدری بننے کے خواب دیکھے تو انہوں نے اس دوران اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کیلئے متبادل راستوں اور طریقوں پر غور و خوض شروع کردیا اور متبادل ڈھانچہ بنانا شروع کردیا

پچھلے چار پانچ سالوں سے مغربی میڈیا اور مغربی سیاستدانوں نے آف شور کمپنیوں اور آف شور بینکوں کے نظام پر شدید تنقید کرنا شروع کردی ہے اور حتی کہ سویٹزرلینڈ پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بینکوں کے رازداری سے پردہ اٹھائے. یہ سب اس بات کا اشارہ تھا کہ اصلی تے وڈے سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کیلئے نئی محفوظ پناہ گاہوں اور ڈھانچے کا بندوبست کرلیا ہے اور موجودہ آف شور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور نئے نئے سرمایہ داروں کو انکی اوقات دکھانے کا وقت آ گیا ہے. پانامہ پیپیرز کے افشاء کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ اصلی سرمایہ دار طبقہ ، سرمائے کی آف شور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے جارہا اور اس ضمن میں انکو روسی، چینی اور دوسرے مخالف سیاسی و سرمایہ 
دار لوگوں کو بدنام کرنے کا مفت میں موقع بھی مل رہا ہے

یعنی سرمائے کی آف شور محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مہم میں اصل نشانہ تو کوئی اور ہے اور اس میں شریف خاندان یا دوسری پاکستانی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تو خواہ مخواہ ہی پھنس گئی ہیں

پانامہ پیپرز کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں تحقیقی صحافیوں کی عالمی تنظیم
 نامی اکٹھ کو پیسے دینے والوں میں کون کون سے اصلی تے وڈے سرمایہ داروں کی فاؤنڈیشنز شامل ہیں

   حصہ اول  یہاں پڑھئیے 

آف شور کمپنیاں علامت ہیں اصل بیماری نہیں- حصہ اول


موضوع پر جانے سے پہلے تھوڑے سے تاریخی حوالے کہ انکے بغیر اصل کہانی سمجھ نہیں آئے گی
 ملک ہے انگلینڈ ، بادشاہ ہے جیمز دوئم اور سال ہے ١٦٨٨،  جیمز دوئم کے گھر پیدا ہوتا ہے اسکا بیٹا جیمز فرانسس ایڈورڈ المعروف جیمز سوئم . بیٹے کی پیدایش نے پہلے سے الجھے جانشینی  کے معاملات کو مزید الجھا دیا. بیٹے کی پیدایش سے پہلے جیمز دوئم کی بیٹی میری دوئم جس کی شادی ہالینڈ کے ولیم سوئم المعروف ولیم  آف اورنج کے ساتھ ہوچکی تھی ، تاج برطانیہ کی جانشین تھی
مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ جیمز دوئم کیتھولک تھا جبکہ اسکی بیٹی اور داماد پروٹسٹنٹ اور انگلینڈ میں اشرافیہ بھی پروٹسٹنٹ تھی . جیمز سوئم کی پیدایش نے اس بات کی راہ ہموار کردی کہ اب اگلا بادشاہ بھی کیتھولک ہوگا اور یوں انگلینڈ پھر سے کیتھولک بالادستی میں چلا جائے گا  . اس خدشے کے پیش نظر انگلینڈ کی اشرافیہ نے ولیم سوئم اور اسکی بیوی میری دوئم کو دعوت دی کہ وہ جیمز دوئم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے برطانیہ پر قبضہ کرلیں اور یوں اسی سال جیمز دوئم کو اقتدار سے بیدخل کردیا گیا اور اس انقلاب کو شاندار انقلاب کا نام دیا جاتا ہے
ولیم سوئم اور میری دوئم برطانیہ کے اقتدار پر قابض تو ہو گئے لیکن اگلے کئی سالوں میں خانہ جنگی اور فرانس (جسکا جیمز دوئم کے ساتھ الحاق تھا ) کے ساتھ جنگوں میں الجھ کر برطانیہ کا تقریبا دیوالیہ نکل گیا
سال ١٦٩٤ تک حالت یہ ہو گئی تھی کہ برطانیہ کا بادشاہ ولیم سوئم قرضدار ہوچکا تھا اور انگلینڈ ، سکاٹ لینڈ ، ائیر لینڈ میں جاگیرداروں پر مزید ٹیکس لگانے کی کوئی سبیل نہ تھی کہ سخت بغاوت کا خدشہ تھا
برطانیہ کو معاشی دیوالیہ اور بادشاہ کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے کئی تجاویز پر غور شروع ہوا اور اس زمانے میں ایک سکاٹش شخص  ولیم پیٹرسن نے ایک بینک کے قیام کا خاکہ اور تجویز پیش کی. تجویز یہ تھی کہ بادشاہ کو درکار بارہ لاکھ پاونڈ کی رقم فراہم کی جائے گی اور اسکے بدلے میں بادشاہ ایک نجی بینک ، بینک آف انگلینڈ کا چارٹر سرمایہ داروں کے ایک گروہ کو دے گا اور یہ بینک ، نوٹ جاری کرنے اور جتنے مرضی نوٹ جاری کرنے  اور بادشاہ / برطانیہ کو دئیے گئے قرضہ کے عوض ، عام عوام پر ٹیکس لگا کر اپنا قرض وصول کرنے کا حقدار ہوگا، یعنی کہ ریاست اور حکومت کے معاملات پر نجی سرمایہ دار انتہائی اثر و رسوخ والے بن بیٹھے  
چونکہ اس زمانہ میں کرنسی کا معیار سونا ہوا کرتا تھا اور سونے پر اجارہ داری سناروں اور خاص طور پر گولڈ سمتھ خاندان کی تھی تو انہوں نے درکار زیادہ تر سرمایہ فراہم کیا اور بینک میں بڑے حصہ دار بن گئے.
اب حقیقت حال یہ ہو گئی کہ بادشاہ اس غرض سے بے نیاز ہوگیا کہ اپنے اللے تللوں اور جنگوں کے لئے درکار سرمائے کا کہاں سے بندوبست کیا کرے ، اسکو جب بھی پیسہ درکار ہوگا وہ بینک سے لے لے گا اور بینک کے نجی سرمایہ دار اس قرض اور قرض پر چڑھے سود کی وصولی کیلئے مرضی سے نوٹ جاری کرنے اور عوام پر ٹیکس لگانے میں آزاد و خود مختار تھے اور اس بات میں بھی آزاد و خودمختار کہ کس کس شے اور خدمات پر ٹیکس لگا سکتے ہیں  اور بادشاہ کے لئے ہوئے قرض کو عوام پر قرض میں بدل کر اسے قومی قرض کا نام دیدیا گیا اور عوام سے کسی نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ آیا آپ کو یہ قرض قبول بھی ہے کہ نہیں
اور یوں دنیا میں ریاستی بینک کے لبادے میں نجی سرمایہ داروں کے کسی ملک کی اکانومی کو کنٹرول کرنے ، قومی قرضہ نام کے عفریت اور عوام پر مستقل ٹیکس لگانے کی بنیاد رکھ دی گئی، ناصرف یہ بلکہ اس بات کی بنیاد بھی رکھ دی گئی کہ عوام کے اوپر ٹیکس لگانے ، بڑھانے ، کم کرنے یا ختم کرنے میں عوام کی مرضی و منشاء کا کوئی اختیار ، اثر یا رائے نہیں ہوگی  
چلئے تاریخ کے پہئے کو تھوڑا آگے کو گھماتے ہیں، سال ہے ١٨١٥ اور مقام ہے واٹرلو ، نپولین کی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے اور ڈیوک آف ویلنگٹن  فتح کے جھنڈے لہرا رہا ہے لیکن ٹھہرئیے ، ڈیوک آف ویلنگٹن کے نیتھن روتھس چائلڈز کے ساتھ قریبی تعلقات کو نظرانداز نہ کیجئے . اصل میں ڈیوک آف ویلنگٹن کو اسکی فوج کے اخراجات کیلئے زیادہ تر سرمایہ نیتھن روتھس چائلڈز نے ہی فراہم کیا تھا، اور یہ نیتھن روتھس چائلڈز کی مالی امداد ہی تھی جس نےفرانس کی شکست کے نتیجہ میں برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی استعماری سلطنت بننے میں مدد کی تھی.  ویسے تو اس خاندان نے نپولین بونا پارٹ کو بھی جنگ کیلئے سرمایہ فراہم کیا تھا
اب یہ نیتھن روتھس چائلڈز کون ہیں ، یہ صاحب ہیں مشھور عام روتھس چائلڈز خاندان کے چشم و چراغ جنہیں اسکے باپ مائیر روتھس چائلڈز نے برطانیہ میں نام اور پیسہ کمانے کیلئے بھیجا تھا اور موصوف نے دنیا کی سب سے بڑی  بزنس ایمائر کھڑی کی. تو جناب نیتھن روتھس چائلڈز نے ڈیوک آف ویلنگٹن کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان جنگ سے لیکر لندن تک تیز رفتار معلومات کی بہم رسانی کا اپنا متوازی نظام قائم کر رکھا تھا . جونہی نیتھن روتھس چائلڈز تک برطانیہ کی فتح کی خبر سب سے پہلے پہنچی ، اس نے اس خبر کو خفیہ رکھتے ہوئے ، لندن کی سٹاک مارکیٹ میں اپنے سٹاک اور خاص طور پر پاونڈ اور بینک آف انگلینڈ کے سٹاک  فروخت کرنا شروع کردئیے. چونکہ نیتھن بہت بڑا سرمایہ دار تھا اور ڈیوک آف ویلنگٹن کے انتہائی قریب  تو باقی سرمایہ دار یہ سمجھے کہ برطانیہ کو جنگ میں شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے فوری طور پر اپنے سٹاک اونے پونے بیچنا شروع کردئیے ، اسکی وجہ سے لندن کی سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور قیمتیں زمین پر آ گری، نیتھن روتھ چائلڈز نے اگلے تین دن جتنا ہوسکتا تھا لوگوں سے انکے سٹاک اونے پونے خریدنا شروع کردئیے اور جب تک لندن میں نپولین کی شکست اور برطانیہ کی فتح کی باضابطہ اطلاع آئی ، وہ برطانیہ کا سب سے امیر شخص بن چکا تھا. روتھ چائلڈ خاندان ، اتنا امیر ہو گیا تھا کہ ١٨١٥ سے ١٨٢٥ کے درمیان اس نے بینک آف انگلینڈ کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے تمام درکار سرمایہ فراہم کیا اور ایک طرح سے باقی دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ ملکر  بینک آف انگلینڈ کا مالک بن بیٹھا اور انگلینڈ میں کرنسی،  اسکی رسد اور حکومتی بانڈز پر اسکی اجارہ داری قائم ہو گئی ، کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں اس نے یہ مبینه مشھور الفاظ کہے تھے




شائد بہتوں کو یہ حقیقت معلوم نہ ہو کہ ١٩٤٦ تک بینک آف انگلینڈ ایک نجی بینک تھا اور جب اسکو اسی سال قومیایا گیا تو چونکہ حکومت کے پاس اتنا سرمایہ موجود نہیں تھا تو حکومت نے قیمت کے بدلے حکومتی گارنٹی بانڈز یعنی سٹاک جاری کیے اور حکومت برطانیہ آج تک ان سٹاک کے اوپر منافع اور سود دینے کی پابند ہے ، دوسرے الفاظ میں آج بھی نجی سرمایہ دار بینک آف انگلینڈ کے مالک ہیں
یہ کہانی بتانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ یہ کام امریکہ میں راک فیلر ، روتھس چائلڈز ، جے پی مورگن وغیرہ نے  پھر ١٩١٣ میں فیڈرل ریزرو کے نام پر کیا اور نجی بینکوں کا ایک کنسورشیم یعنی اکٹھ بنا کر کرنسی کی طلب و رسد اور اسکے اجراء پر قابض ہو گئے.

١٩١٣ میں امریکی سٹاک مارکیٹ کو جان بوجھ کر تباہ کرنے میں یہی نجی بینکر شامل تھے اور بعد میں امریکی کاںگریس سے عوام کو دھوکے میں رکھتے ہوئے فیڈرل ریزرو بنانے کی منظوری لے لی ، شائد آپ کو جان کر حیرانی ہو کہ امریکی فیڈرل ریزرو ، ریاستی یا سرکاری بینک  نہیں ہے بلکہ نجی بینکوں کا کنسورشیم ہے جس کو مرضی سے ڈالر چھاپنے ، جاری کرنے کی پوری اجازت ہے اور یہی ڈالر چھاپ کر امریکی حکومت کو قرضہ دیتا 
ہے جسکو امریکی حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر مع سود ان بینکوں کو واپس کرتی ہے 

سرمایہ داروں کے اسی اثر و رسوخ، دھوکہ دہی اور روپے پیسے کے اوپر کنٹرول کی بات تھی کہ امریکی صدور تک یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے تھے 









جن حضرات کو یہ سب سازشی مفروضوں والی کہانی یا  اوریا مقبول جان والی کہانی لگ رہی ہے وہ اپنا وقت مزید ضائع کرنے کی بجائے طاہر شاہ کی فرشتے والی ویڈیو دیکھ لیں 



Monday, March 14, 2016

ایم کیو ایم -- نامعلوم

جب سے جناب مصطفے کمال اور جناب انیس قائم خانی کی کراچی میں اچانک اور ڈرامائی رونمائی ہوئی ہے اور جناب الطاف حسین پر کھلے عام سنگین الزامات لگائے گئے ہیں تب سے لوگ حیران پریشان ہے کہ یہ ہوا کیا ہے . عام بندے سے لیکر بڑے بڑے جغادری تجزیہ نگار اپنے اپنے قیافے لگا رہے ہیں ، کوئی اسکو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایم کیوایم کو توڑنے کی سازش بتا رہا ہے ، کوئی اسکو نوے کی دہائی والا کھیل قرار دے رہا ہے ، کوئی اسکو اردو بولنے والوں کی طرف سے اپنے اوپر لگے دھبوں کو دھونے کی کوشش قرار دے رہا ہے ، کوئی اسے حقیقت میں ضمیر کی آواز قرار دے رہا ہے . الغرض سو طرح کی باتیں

سندھ کے اردو بولنے والے کی اکثریت حسب معمول اسے اردو بولنے والوں کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی نئی سازش اور چال بتا کر اسے یکسر رد کررہی ہے اور پھر سے اس انہونے خوف کا شکار ہے کہ اسے پھر سے سیاسی طور پر تنہا کیا جارہا ہے ، ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں اس بارے اپنے اپنے اندازے لگا رہی ہے ، کوئی دبے لفظوں میں اسے فوج کی طرف سے سیاسی جماعتوں پر ایک اور حملہ قرار دے رہا ہے تو سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں اس بارے خاموشی کی لمبی چادر تانے ہوئے ہیں

ٹی وی کے اینکر حضرات تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے کے مصداق اس پر نت نئے تبصرے اور لندن سے الطاف حسین کے جسمانی و  دماغی طور پر غیر فعال ہونے ،  مصطفے عزیز آبادی کے الطاف حسین کا بہروپ بھرنے سے لیکر جناب الطاف حسین کی موت کی خبر تک پھیلانے کا منجن با آواز بلند بیچنے میں مصروف ہیں  
ہر دوسرے تیسرے روز ایم کیو ایم کی پپتنگ کٹنے یعنی کسی بڑے رہنما کے ضمیر جاگنے کی خبر آجاتی ہے جو زور و شور سے سب کو بتانے میں مضروف ہوتا ہے کہ وہ تو ننھا منا دودھ پیتا چالیس پچاس سال کا بچہ تھا جسے جناب الطاف حسین نے گندے کاموں میں زبردستی ملوث کردیا اور وہ دل سے ان کاموں سے نفرت کرتا تھا لیکن مجبور تھا

میں بھی اس سارے قصے کو دیکھ رہا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اصل میں ہوکیا رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے اور کیسے ہونے جارہا ہے
تو صاحبو کچھ سوچ بچار کرنے اور سیاسی چالوں کو سمجھنے کی کوشش میں  سیاسی تجزیہ کا لچ ہم بھی تلنے جارہے ہیں  

میرے خیال کے مطابق ، اصل کہانی جناب مصطفے کمال کی پہلی پریس کانفرنس میں ہی موجود تھی ، اس پریس کانفرنس میں ہی اتنا بڑا اشارہ یعنی کلیو موجود تھا کہ صرف اس پر غور کرنے سے ساری کہانی کھل جاتی ہے . وہ اشارہ کیا تھا ، وہ اشارہ تھا جناب مصطفے کمال کا اپنی نئی سیاسی جماعت کا نام نہ رکھنا ، یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ آپ سیاسی جماعت تو قائم کرنے جا رہے ہیں لیکن اسکا کوئی نام ہی نہیں رکھ رہے، ایک ایسی حقیقت جس میں ہم سب رہ رہے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ بھی آدم کو اسکی تخلیق کے بعد نام ہی سکھاتے ہیں ،ایسی حقیقت جس میں بغیر نام کے کسی بھی شے یا انسان کی کوئی پہچان نہیں ہے اس میں نئی سیاسی جماعت بن رہی ہے لیکن نام کوئی نہیں ہے ، ہے ناں حیرت کی بات

تو جناب نام کی اس لئے ضرورت نہ تھی کہ نام تو پہلے سے ہی موجود تھا ، جب پہلے سے نام موجود ہو اور سب کا جانا پہچانا اور زبان زد عام ہو تو کسی نئے نام کی بھلا کیا ضرورت ، ابھی بھی نہیں سمجھے ، بھائی جب ایم کیو ایم کا نام پہلے سے موجود ہے تو نیا نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے

اب آتے ہیں کہ اصل کھیل یا سیاسی ناٹک کیا ہے

سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کن کی بنائی ہوئی ہے اور کن کے ہاتھ کا رومال ہے. ایم کیو ایم  بنانے والوں کیلئے ایم کیو ایم سندھ میں پی پی پی اور سندھی قوم پرستوں کو کاؤنٹر کرنے یعنی جواب دینے اور انکو کینڈے میں رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی ، میں یہاں پر اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ اردو بولنے والوں کی مکمل حمایت ایم کیو ایم کو حاصل رہی ہے اور عام اردو بولنے والوں نے اسکو اپنے حقوق کے تحفظ کی واحد ضمانت سمجھا  لیکن فی الحال یہ موضوع نہیں ہے

پچھلے چند سالوں سے جناب الطاف حسین ، ایم کیو ایم اور اسکے بنانے والوں کیلئے ناگوار بوجھ یعنی لائبیلٹی بن گئے تھے . وجوہات بیشمار تھیں، انکے برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے، بنانے والوں کی ہر بات ماننے سے انکار، اپنے آپ کو اپنے سیاسی قد سے بڑا دیکھنے کی خواہش و زعم، کراچی کی بدامنی کو کنٹرول نہ کرنا بلکہ اسکو مزید بڑھاوا دیتے جانا وغیرہ وغیرہ ، بنانے والے اشارے کنائے میں جناب الطاف حسین کو بتاتے آ رہے تھے کہ جناب بس بہت ہوگیا اور وہی کیجئے جس کیلئے آپکو لیڈر بنایا گیا تھا لیکن الطاف حسین ان سب باتوں کو مسلسل نظرانداز کرتے آ رہے تھے بلکہ کھل کر اسکے خلاف عمل کرنا شروع ہوگئے تھے. اور تو اور ، الطاف حسین نے پیش بندی کے طور پر ہر اس بندے کو منظر سے فورا ہٹا دیا یا پیچھے کردیا جو کہ قیادت کا ممکنہ امیدوار ہوسکتا تھا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ مائنس الطاف فارمولے کو کوئی مہاجر قبول نہیں کرے گا. بنانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا تھا اور یہ حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی قوت میں کمی آ جائے اور پی پی پی کے مقابلے میں اس کاونٹر ویٹ میں کمی ہوجائے اور اسکے دو تین ٹکڑے ہوجائیں.
ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اور اس سے جناب الطاف حسین کیلئے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وہ سنہری موقع تھا جب بنانے والوں کیلئے ایم کیو ایم کی طاقت کو الطاف حسین کے بغیر قائم رکھنے کا وقت آ گیا تھا. ایم کیو ایم پر لگنے والے تمام الزامات کو الطاف حسین کے کھاتے میں ڈال کر ایم کیو ایم کو ایک بار پھر سب کیلئے قابل قبول بنانے کا عمل شروع ہوگیا اور اس سارے عمل پر پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے کام جاری تھا . چونکہ یہ کام ایم کیو ایم کو توڑے بغیر کرنے کا منصوبہ تھا تو اسکے لئے بظاہر صاف ستھرے بندوں کا انتخاب ضروری تھا چنانچہ نگاہ انتخاب جناب مصطفے کمال پر پڑی اور خوب پڑی
تو جناب سارا منصوبہ یا پلان یہ ہے ایم کیو ایم تو ویسے کی ویسے رہے گی بس اس میں جناب الطاف حسین نہیں ہونگے ، وہی تمام بندے ہونگے جن پر سنگین الزامات لگتے رہے ہیں لیکن  پاکبازی و عام معافی کا غسل دیکر انہیں پاک و پوتر کردیا جائے گا، جب تقریبا سارے اہم لوگ ہی   مصطفے کمال کے بہائے ہوئے آنسوؤں سے دھل جائیں گے تو کسی کو شک بھی نہیں ہوگا کہ یہ تو وہی راسکل یا غنڈے ہیں جو الطاف بھائی کے نام یا ایماء پر لوگوں کو زندہ جلاتے رہے ہیں یا ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ہیں یا بھتہ کی بوریاں بھر بھر کر الطاف حسین کیلئے سکاٹش وہسکی کی بوتلوں کا بندوبست کرتے رہے ہیں اور انکے بے سرے گانے سنوانے کا بندوبست کرتے رہے ہیں

باقی کی کہانی کا کچھ خود بھی سوچ لیں ، اب سارا کچھ میں تو بتانے سے رہا


اب آیا سمجھ میں کہ ایم کیو ایم نامعلوم کا نام کیوں نہیں ہے