Wednesday, June 10, 2015

اسلام اور اخلاق کی بحث


جب بھی اسلام میں اخلاق کی اہمیت کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ حدیث پاک کا حوالہ دیا جاتا ہے

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بعثت لا تمم حسن الاخلاق (مشکوة)
مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے“۔
بعثت لاتمم صالح الاخلاق(مستدرک حاکم)
مجھے صالح اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث کیا گیا
اس موضوع پر احادیث تو اور بھی ہیں لیکن مقصود تحصیل حدیث نہیں ہے

ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ بات عام سنتے ہیں کہ اخلاق کی بہت اہمیت ہے ، انسان کو اچھے اخلاق والا ہونا چاہئے ، اگر اخلاق نہیں تو کچھ بھی نہیں ، آپ چاہے نماز روزے والے ہوں لیکن اگر آپ کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو کچھ بھی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ 

اسکے علاوہ  اکثر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ انسان ہونا اصل بات ہے اور ہمیں انسانیت کی فکر و قدر کرنی چاہئے ،

ایک اہم مغالطہ جو آجکل لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق ، اخلاقیات اور انسانی قدروں اور اسلامی احکامات کے درمیان شائد کوئی تفریق یا تقسیم پائی جاتی ہے
گویا کہ اسلام کے احکامات انسانوں کیلئے نہیں بلکہ کسی غیر انسانی مخلوق کیلئے آئے ہیں

سب سے پہلے تو آپ سب کیلئے ایک ششدر کرنے والا بیان
اسلام میں اخلاقیات بطور مجرد موضوع کا کوئی وجود نہیں ہے

اسکی وضاحت کیلئے بعد میں آوں گا تب تک آپ اس بیان کی جہتوں پر خود بھی غور کریں

سب سے پہلے تو یہ کہ اس بارے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  اخلاق اور انسانیت ہے کیا ، اس کا وجود اسکی غرض و غایت کہاں سے آئی ، اسکا وجود،  اسکی کیفیت ہے کیا، عام فہم اخلاقیات کا متضاد بد اخلاقی ہے یا کوئی اور عمل

کیا اخلاقیات مطلق ہوتی ہیں ، کیا اخلاقیات بدل بھی جاتی ہیں
کیا اس کا تعلق معاشروں کی ترقی سے ہے ، کیا ان میں بھی ارتقا ممکن ہے یا ہوتا رہتا ہے
کیا اخلاق محض انفرادی کردار کا نام ہے یا معاشرے کا اجتماعی اخلاقی کردار بھی ہوتا ہے
اخلاقیات کی حدود و قیود کون قائم  کرتا ہے یا کرے گا . کیا ان کا تعلق کسی فائدے یا نقصان سے ہوتا ہے
کیا ایک معاشرے کی اخلاقیات دوسرے معاشرے سے بہتر ہوتی ہیں
کیا اخلاقیات کا تعلق معاش سے ہوتا ہے کہ معاش کی بہتری یا ابتری سے ان میں بھی اتار چڑھاؤ آ جاتا ہے
کیا معاشرے کے مختلف طبقات کی اخلاقیات کے معیار مختلف ہوتے ہیں یا ہونے چاھئیے


ان سب سوالوں کے ساتھ ہمیں یہ بھی پرکھنا اور دیکھنا ہے کہ عمل کی کیا قدر ہوتی ہے اور کوئی بھی عمل کس قدر کو حاصل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے یعنی
What is the actual value of an action and what value is sought by carrying out that action?

اب اگر دیکھا اور پرکھا جائے کہ کسی عمل کی اخلاقی قدر کیا ہوتی ہے اور کیا یہ قدر کوئی اہمیت رکھتی ہے ، کیا اسکے اس عمل کو اختیار کرنے والے پر دوررس اثرات اور فائدے ہوتے ہیں  کیا وہ فائدہ حقیقی ہے یا مصنوعی

کسی عمل میں اخلاقی قدر ڈھونڈھتے ہوئے اس قول کی کتنی اہمیت ہے کہ
End justify the means
حاصل کردہ نتیجہ ، اسباب کا جواز مہیا کر دیتا ہے

ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی قدر جو منشاء و مقصود ہے وہ کونسی انسانی جبلت کی تسکین کیلئے ہے یا اس سے کونسا مادی مرئی یا غیر مرئی فائدہ حاصل ہوتا ہے

یعنی ایک ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانا یا کسی سے خوشگوار لہجے میں بات کرنے کا عمل کونسی قدر حاصل کرنے کیلئے ، کیا یہ اس لئے کہ اس سے معاشرے میں یا لوگوں میں ہماری عزت و منزلت بڑھتی ہے جس کا ہمیں بعد میں کسی وقت معاشی یا سیاسی فائدہ حاصل ہوگا یا ہمیں کوئی ذاتی اندرونی خوشی محسوس ہوتی ہیں

پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایسا رویہ یا عمل مطلق ہے یعنی ہم اپنے جانی دشمن کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھیں گے یعنی اسکی جان بچائیں گے کہ جان بچانے کے عمل سے ہمیں اندرونی خوشی ملتی ہے   چاہے جان بچ جانے کے بعد وہ ہمیں تہس نہس ہی کیوں نا کردے.کیا ہمارے اس "اخلاقی عمل " کی تحسین ہوگی یا ہمیں بیوقوف سمجھا جائے گا . اسی طرح جس بات کو اخلاقی الجھن یا کشمکش کہا جاتا ہے ، کیا وہ مجرد اخلاقی قدر کے حصول کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے

اگر ہم اپنے گرد و نواح میں حقیقت واقعہ کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو مجرد اخلاقی قدر کا حصول محض ذاتی یا اجتماعی فائدہ یا نقصان کی بنا پر ہوگا اسکی کوئی مطلق قدر نہیں ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ ایک طاقتور قوم اپنی اخلاقی اقدار کواپنی قوم کیلئے فائدہ یا نقصان کی بنا پر دوسری قوم سے برتر گردانتی ہے اور اپنی اخلاقی اقدار کے نفاذ پر اصرار کرتی ہے اور اپنی اخلاقی اقدار کے علاوہ دوسری اخلاقی اقدار کو بنیادی ، وحشیانہ ، قابل نفرت، اور جڑ سے اکھاڑنے والی سمجھتی ہے،اور وقت پڑنے پر اپنی ہی بنائی ہوئی اخلاقی قدروں کو توڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور منافقت کے لقب کی بھی پرواہ نہیں کرتی  وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اخلاقیات میں قدر کا حصول   ذاتی فائدے یا نقصان کیلئے نہیں بلکہ نسل انسانی کی بقاء اور انسانی معاشروں میں نظم و ضبط ، خوش ترتیبی اور تناسب کو برقرار رکھنے کیلئے ہے

اسلام میں عمل اور اس میں قدر کا حصول ایک بالکل مختلف معاملہ ہے ، اسلام میں عمل کسی بھی ذاتی یا اجتماعی فائدے اور دشمن کو نقصان پہنچنے کی نیت اور قدر کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا. اسلام میں عمل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کیلئے کیا جاتا ہے اور اللہ عزوجل کا حکم سمجھ کر کیا جاتا ہے ، اب اس عمل کے دوران حاصل ہونے والا ذاتی یا اجتماعی فائدہ ایک "ضمنی پھل" ہوتا ہے جو حاصل ہوتا ہےنا کہ اصل غایت .

 یعنی ہم جب کسی سے خوش خلقی سے بولتے ہیں یا والدین سے حسن سلوک کرتے ہیں یا ہمسائے یا اجنبی کی مدد کرتے ہیں ، کسی ڈوبتے ہوئے کو بچاتے ہیں تو ہم اسکو حکم ربی کی بنیاد پر کرتے ہیں ناکہ ان اعمال میں موجود فائدے ، راحت یا معاشی و معاشرتی قدر و منزلت میں اضافے کیلئے

دوسرے الفاظ میں اسلام میں مجرد اخلاقیات کا یا انسانیت کا کوئی وجود نہیں ہے ، اسلام میں اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جن پر ہم عمل کرتے ہیں اور کسی انسان کی خوشی یا راحت کے حصول کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مطمع نظر ہوتی ہے
یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ غیر اسلام کو اسلام کے احکامات جامد لگتے ہیں کہ ان میں کسی کا کوئی ذاتی فائدہ موجود نہیں ہے اور ناہی ان میں کسی ایک خاص وقت کیلئے فوری فائدہ ممکن ہے اور باقی زمانے بھلا نقصان اٹھاتے پھریں 

لوگوں میں اخلاق بارے سب سے بڑا مغالطہ جو پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق محض اچھی طرح بولنے کو کہتے ہیں اور اسکا اس سے کوئی غرض نہیں کہ اصل میں کہا کیا جا رہا ہے ، یعنی اگر کوئی "خوش اخلاقی " سے فسق و فجور کی دعوت دے رہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اسی طرح کا عام مغالطہ جو  لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ فلاں بندہ بہت ملنسار ہے بہت خیال رکھنے والا ہے ہمیں اسکے ذریعہ آمدن سے کیا لینا دینا.

اخلاق کا جو تصور عام پایا جاتا ہے یا پھیلایا گیا ہے اس میں صرف ذاتی کردار کے چند اعمال و  پہلوؤں کا ہی احاطہ کیا گیا ہے اور ان سے مختلف یا متصادم اعمال کو اخلاق کے دائرے سے نکال دیا گیا ہے. ہم اخلاق کو جب جانچتے ہیں تو ہم صرف اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، لباس اور بولنے کے اعمال پر ہی  اچھے برے اخلاق کا فیصلہ کرتے ہیں، نا صرف یہ بلکہ ایک طاقتور اور فاتح معاشرے کے ان اعمال کو اخلاق کا پیمانہ بھی مقرر کر لیا جاتا ہے، ہم چھری کانٹے سے کھانے کو مہذب اور ہاتھ سے کھانے کو غیر اخلاقی سمجھتے ہیں ، ہم زمین پر بیٹھنے کو بد اخلاقی اور صوفے پر بیٹھنے کو اخلاق کا مظاہرہ سمجھتے ہیں ، ہم دھوتی یا شلوار قمیض پہننے کو غیر مہذب اور پینٹ شرٹ  کو اچھے اخلاق میں گردانتے ہیں، ہم غلط بات پر کسی کو ٹوکنے کو بد اخلاقی اور فحش گوئی کی محفل میں  ملکر ہنسنے کو اخلاق  وغیرہ وغیرہ ، یعنی اخلاق کو ہم نے چند اعمال کے لبادے میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے

عام فہم اخلاقیات میں اگر کوئی شخص بولنے میں اچھا ہے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اور ہمسائیوں کے ساتھ اچھا ہے تو چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہیں ہے وہ اچھے اخلاق والا ہے

اسی طرح ہم اخلاقیات کو تقسیم بھی کیے ہوئے ہیں . ہمارے نزدیک محلے میں شادی بیاہ پر  رات بھر اونچی آواز میں گانا بجانا تو قابل مذمت اور غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن محلے کی مسجد سے محفل ذکر ، یا محفل میلاد یا فضائل صحابہ رض کے نام پر اونچی آواز میں صوتی عذاب عین  ثواب کا کام ہے

ہم اونچی آواز میں بولنے یا گالی گلوچ کو تو سخت بد اخلاقی سمجھتے ہیں لیکن شادی بیاہ ، یا فوتیدگی یا کسی علمی ،مذہبی یا کسی دوسری مجلس کیلئے سڑک بند کرنے کو کبھی بد اخلاقی نہیں سمجھتے باوجود اسکے کہ اسلام میں راستہ بند کرنے کی سخت ممانعت ہے

ہم خوش خلقی کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن اسی خوش خلقی کے ساتھ کوئی جھوٹ بول رہا ہو یا وعدہ خلافی کر رہا ہو تو ہم اسے ایک معمول کی بات سمجھ لیتے ہیں

بد اخلاقی محض بدزبانی ہی نہیں ہے بلکہ تکبر ، غرور ، غلط بیانی اور خاص طور پر اسلام کے نام پر یا مسلمانوں کے حقوق کی خاطر غلط بیانی بھی برے اخلاق ہیں

اسی طرح ہم اخلاق کو محض ایک انفرادی معاملہ سمجھتے ہیں اور اسکو قومی سطح کا معاملہ نہیں سمجھتے ، مثال کے طور پر اگر کوئی فرد آٹھ دس بندے ہتھوڑے یا تلوار سے قتل کردے تو ہمارے نزدیک وہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ملک دوسرے ملک پر چڑھ دوڑے اور جدید بم برسا کر بیس تیس لاکھ بندے مار دے تو ہم اسکو جنگ میں تو ایسا ہوتا ہی ہے یا اجتماعی نقصان کا خوش نما لباس پہنا دیتے ہیں
اگر کوئی فرد دس بیس لوگوں کو لوٹ لے تو وہ بدعنوان ، بد اخلاق لیکن اگر کوئی بینک  بنا کر یا حکومت میں آکر اربوں کھربوں لوٹ لے تو وہ بد اخلاق ہرگز نہیں ہے


بحث کو سمیٹے ہوئے اس بات کا اعادہ کہ اسلام میں اخلاقیات  ایک علیحدہ وجود کے طور پر کوئی وجود نہیں رکھتیں اور نا ہی اسلام اخلاقی قدروں  کے حصول کیلئے علیحدہ علیحدہ نظام رکھتا ہے جو کہ باقی احکام سے علیحدہ ہو ، یعنی سیاسی اخلاقیات ، سماجی اخلاقیات ، مذہبی اخلاقیات ، معاشی اخلاقیات ، خارجہ اخلاقیات ، تعلیمی اخلاقیات ، حکومتی اخلاقیات گھر کی اخلاقیات، باہر کی اخلاقیات  ، بازارکی اخلاقیات ، گاہک کی اخلاقیات ، تاجر کی اخلاقیات ، وغیرہ وغیرہ ، اسلام میں احکام کو علیحدہ علیحدہ کرکے بیان نہیں کیا گیا یا جاتا اور نا ہی مختلف طبقات کیلئے علیحدہ علیحدہ اخلاقی معیار مقرر کیے گئے ہیں یا انکی گنجایش رکھی گئی ہے، اسلام میں اگر قربت دار کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آنے کا حکم ہے تو وہی حکم اجنبی اور غیر شخص کیلئے بھی ہے، مختلف عھدوں کیلئے مختلف اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں ہے 

اسلام نے آپسی ، سماجی میل جول ، مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان سماجی میل جول اور دوسری قوموں کے ساتھ مسلمان بطور قوم کے،  میل جول بارے احکامات بتادیے ہیں ، ان احکامات پر عمل اس لئے نہیں کہ لوگ ہمیں اچھا سمجھیں یا گردانیں،  اس لئے نہیں کہ ہماری انا کی تسکین ہو ، اس لئے نہیں کہ ہم دوسروں  کے اوپر اپنے اچھے اخلاق کا رعب جھاڑ سکیں یا اپنی اخلاقی برتری کا سکہ جما سکیں  ، بلکہ اس لئے کہ وہ اللہ کا حکم ہیں اور ان پر عمل کرنا لازم اب اس حکم کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنے میں لوگ بھلے اس کو اپنی اخلاقی قدروں کے اعتبار سے بد اخلاقی سمجھیں ، یعنی اگر اللہ کا حکم ہے کہ فحش کاموں سے دور رہو تو اگر کسی محفل میں فحش گفتگو  جاری ہے تو محض اس ڈر سے کہ اگر میں نے منع کیا یا  اگر میں اٹھ کر چلا گیا تو لوگ اسے آداب محفل کے خلاف سمجھیں گے ، چپ چاپ بیٹھنا اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے نا کہ اچھے اخلاق


اور اس موضوع یعنی اخلاق کو اس پہلو سے دیکھنا چاہئے کہ لوگوں اور اپنے ماحول کے ساتھ  اچھے میل جول کیلئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کیا ہے اور انکی خلاف ورزی محض بد اخلاقی نہیں ، اللہ عزوجل کی حکم عدولی اور اسکی ناراضگی کو دعوت دینا ہے   یعنی اسلام میں ہر عمل ، اخلاق و انسانیت والا عمل ہے اگر اللہ کا حکم اور خوشنودی کو مد نظر رکھ کر کیا جائے لیکن  اگر انسانوں کی خوشنودی اور ذاتی فائدے کو مدنظر رکھ کر کیا جائے تو نری منافقت اور ریا کاری