Saturday, April 9, 2016

آف شور کمپنیاں علامت ہیں اصل بیماری نہیں-- حصہ دوئم


اس قصے کو یہیں چھوڑتے ہوئے اب آتے ہیں آف شور بینک اور اف شور کمپنیوں کی طرف
جب فرانس میں انقلاب آیا اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے خلاف ان کی لوٹ کھسوٹ پر عوام کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور انہوں نے  امراء کے طبقہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا تو ان سرمایہ داروں کو فکر لاحق ہوئی کہ کیسے اپنا مستقبل محفوظ بنائیں اور کیسے اپنا مالیاتی تسلط برقرار رکھیں. جب نپولین کو شکست ہوگئی تو فرانس کے امراء کو مزید فکر لاحق ہوگئی کہ انکے بڑھتے ہوئے سرمائے کا کیا بنے گا، اس زمانے میں ویانا اور چینل آئی لینڈز میں موجود سرمایہ داروں نے چھوٹے پیمانے پر بینک بنانے شروع کردئیے اور اور یورپ کے تمام بڑے سرمایہ داروں کو دعوت دینا شروع کردی کہ اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے اپنا پیسہ ، بانڈز/سٹاک اور کمپنیاں وہاں منتقل کردیں جہاں انکو مکمل راز داری مہیا کی جائے گی اور انکا سرمایہ ہر حال میں محفوظ رہے گا

یہ وہی زمانہ تھا جب یورپی سامراجیت نے دنیا بھر میں اپنے سامراجی پنجے پوری طرح گاڑ لئے تھے اور شمالی و جنوبی امریکہ اور افریقہ و ایشیا پر قبضے بھی مکمل کرلئے تھے. ان علاقوں پر لوٹ مار والے  قبضے کی وجہ سے دولت کی عام ریل پیل ہوگئی اور بے شمار لوگ طبقہ امراء میں شامل ہونا شروع ہوگئے، اس زمانے میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے جاگیرداری کو زوال آنا شروع ہوگیا اورسٹاک بروکر ، بینکاروں، سٹاک کمپنیوں اور صنعتکاروں کے روپ میں سرمایہ داروں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا، یہ نیا طبقہ بھی اس پرانے محدود سرمایہ دار طبقے کا جلد ہی حصہ بن گیا جو کہ بینک آف انگلینڈ اور اسی قبیل کے دوسرے بینکوں کا مالک تھا اور یورپ کے ملکوں کی معاشیات پر قابض
اس محدود طبقے کے پاس دولت ، اثر رسوخ اور اختیار کی اتنی بھرمار ہوگئی تھی کہ عوام میں ایک بار پھر سخت قسم کی نفرت اور بغاوت پھیلنے کے اثار نظر آنے لگے. صنعتی انقلاب کی بدولت عوام میں علم و شعور بڑھا تو اس سرمایہ دار طبقہ کی دولت پر ٹیکس 
لگانے اور کچھ صورتوں میں ان پر قبضہ کرنے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں

چونکہ لاطینی امریکہ کے ممالک پر یورپی ملکوں کا قبضہ تھا اور اس زمانے میں تجارت اور قدرتی وسائل سے زیادہ تر پیسہ انہی ممالک سے آرہا تھا تو سرمایہ دار طبقہ نے ایک بار پھر اپنے اثر ورسوخ اور سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے ، چھوٹے چھوٹے جزیروں پر کمپنیاں اور بینک قائم کرنے کے اجازت نامے حاصل کرلئے اور نا صرف اجازت نامے بلکہ اس بات کی قانون سازی بھی کروا لی کہ وہاں پر موجود کمپنیوں کو ٹیکس ، سرمائے کی راز داری اور تحفظ  کی ضمانت بھی ہوگی اور جو جو ممالک و جزیرے جس کسی یورپی استعماری طاقت کے کنٹرول میں ہیں انکو اس استعماری طاقت کی تمام فوجی طاقت کا تحفظ بھی ہوگا. یعنی ایک بار پھر وہی سرمایہ دار جو پیسے کی رسد و طلب کے مالک بنے ہوئے تھے اپنے سرمائے ، اثر ورسوخ و اختیار کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ، حضرت اقبال نے 
شائد ایسے ہی موقع کیلئے اپنا یہ شعر کہا تھا کہ

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

اور یوں ، برٹش ورجن آئی لینڈ ، کیمن آئی لینڈ ، چینل آئی لینڈ ، بہاماز، پانامہ ، ماریشس، بیلیز، برمودا ، قبرص، وغیرہ وغیرہ کی ٹیکس و سرمایہ بچانے کے محفوظ ٹھکانے وجود میں آگئے . ان محفوظ ٹھکانوں کی مکمل فہرست آپ انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں.
روس میں ١٩١٧ میں آنے والے بالشویک انقلاب ، پہلی و دوسری جنگ عظیم اور مغربی و

روسی بلاکس کی سرد جنگ میں سرمائے کے ان محفوظ ٹھکانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی اور امریکی و مغربی یورپی سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کو عام لوگوں کی طرح ان پر لگنے والے بھاری ٹیکسوں سے بچانے کیلئے نت نئی چالوں ، کمپنیوں کے ڈھانچوں ، بینکوں کے ڈھانچوں اور قانون سازی سے اپنے سرمائے کو کاغذوں کی حد تک ان محفوظ پناہ گاہوں جنکو لوگ آج آف شور کمپنیاں یا آف شور بینک کہتے ہیں ، میں منتقل کردیا

اس سارے قصے میں جو اصل بات غور کرنے کی اور سوالات جو اٹھانے والے ہیں انکی
 طرف کبھی بھی لوگوں کا دھیان نہیں جانے دیا جاتا. سب سے پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں اسوقت جو نظام معیشت تسلط رکھے ہوئے ہیں وہ ہے نظام سرمایہ داری، اور اس نظام کو لانے والے ، نافذ کرنے والے ، تحفظ دینے والے اور پھیلانے والے وہی سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے سرمائے کی محفوظ پناہ گاہیں بنائی ہیں. دنیا کا کوئی بھی آف شور بینک ، امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے ریاستی (نجی پڑھئیے) بینکوں کے ڈھانچے کا حصہ بنے بغیر کسی بھی قسم کا کاروبار یا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا اور 
ان ریاستی بینکوں پر قابض لوگوں کی ساری تاریخ میں اوپر بیان کر چکا ہوں

دوسرے الفاظ میں یہ آف شور کمپنیاں اور آف شور بینک ، اصل میں اسی نظام سرمایہ داری
 کا جزو لاینفک ہیں اور اسی نظام نے اپنے مالکوں کے سرمائے کے تحفظ کیلئے ہی بنائی ہیں . اس لئے کسی بھی یورپی یا امریکی حکومتوں کی طرف سے ان پر واویلا یا ان پر پابندی لگانے کے مطالبے اصل میں نری منافقت اور سموک سکرین ہیں اور لوگوں کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہیں، کیا کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار ہوگا کہ امریکہ اور یورپ کے ممالک محض اس شک پر کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے  پر تباہی والے ہتھیار ہیں  تو چڑھ دوڑیں اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں لیکن ٹیکس چوری اور ٹیکس بچانے والی محفوظ پناہ گاہیں جو چند سو مربع میل کے جزیرے ہیں کے بارے میں کچھ کرنے پر اپنے آپ کو بے بس اور بے اختیار پائیں

اب آتا ہوں موجودہ پانامہ لیکس کے قضیے کی جانب، جس دن پانامہ پیپرز کا غلغلہ بلند ہوا اور ساری میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہا ہا کار مچی ، میرا اسی وقت ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی جائے جبکہ یہ نظام اپنے ہی سرمائے کو محفوظ کرنے کیلیے ہو

اس بابت کچھ ابتدائی تحقیق اور سوچ بچار کیا تو بات فورا کھل گئی اور دوسرے ہی دن میں
 نے ایک ٹویٹ میں اسکا اظہار کردیا تھا کہ اصل قصہ ہے کیا، تیسرے دن صدر اوبامہ کی تقریر اور امریکی محکمہ خزانہ کی ان معاملات کی تفتیش کرنے اور پھر جید امریکی و یورپی جریدوں میں اوپر تلے چھپنے والے مضامین نے میرے شک کو حقیقت میں بدل دیا کہ اصل قصہ وہی ہے

چلیں جی مزید کیا پہیلیاں بجھوانا ، اس بات کو بھی بیان کردوں کہ پانامہ پیپرز اور آف شور
 کمپنیوں و آف شور خفیہ اکاونٹس کے خلاف موجودہ مہم اصل میں کس لئے ہے

١٩٩٠ میں سوویت یونین کے خاتمے سے عالمی سرمایہ داری کو لاحق بڑا خطرہ ختم ہوگیا تھا اور دنیا کے باقی ماندہ وسائل پر بھی عالمی سرمایہ داروں کا قبضہ مکمل ہوگیا. اس قبضے کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ یورپی و امریکی سرمایہ داروں کے گروہ کے مقابلے میں روسی ، چینی ، بھارتی اور مشرق وسطی کے سرمایہ دار گروہ پیدا ہوگئے، شروع میں یہ سرمایہ دار گروہ چھوٹے اور کم اثر و رسوخ والے تھے اور انکا عالمی معاشی ہتھکنڈوں بارے تجربہ و علم بہت کم تھا اور یہ لوگ ان پرانے اصلی تے وڈے سرمایہ داروں کے گروہ کے ساتھ اور انکے نیچے لگ کر کام کرنے پر مجبور تھے لیکن چین ، روس ، انڈیا اور مشرق وسطی میں غیر یقینی سیاسی صورتحال نے ان نئے سرمایہ دار طبقوں کو بھی اپنے سرمائے کے تحفظ کیلئے ان آف شور بینکوں اور آف شور کمپنیوں کی راہ دکھلا دی

 ١٩٩٠ کے بعد سے پھیلائی جانے والی عالمگیریت، آزاد منڈی کی معیشت اور سرمائے کے
 آزادانہ بہاؤ نے ان نئے سرمایہ داروں کو اپنے ملکوں میں موجود قدرتی و معدنی وسائل سے  دولت کمانے کے بے پناہ مواقع فراہم کردئیے اور انکے پاس بھی دولت کے پہاڑ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس دولت کو سرمائے کی ان محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کردیا اور ان محفوظ پناہ گاہوں کے اچھے خاصے حصے پر قابض ہوگئے. عالمی سرمایہ داری کے اصلی مالکوں کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ مراثی کا بچہ گاؤں کے چوہدری بننے کے خواب دیکھے تو انہوں نے اس دوران اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کیلئے متبادل راستوں اور طریقوں پر غور و خوض شروع کردیا اور متبادل ڈھانچہ بنانا شروع کردیا

پچھلے چار پانچ سالوں سے مغربی میڈیا اور مغربی سیاستدانوں نے آف شور کمپنیوں اور آف شور بینکوں کے نظام پر شدید تنقید کرنا شروع کردی ہے اور حتی کہ سویٹزرلینڈ پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بینکوں کے رازداری سے پردہ اٹھائے. یہ سب اس بات کا اشارہ تھا کہ اصلی تے وڈے سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کیلئے نئی محفوظ پناہ گاہوں اور ڈھانچے کا بندوبست کرلیا ہے اور موجودہ آف شور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور نئے نئے سرمایہ داروں کو انکی اوقات دکھانے کا وقت آ گیا ہے. پانامہ پیپیرز کے افشاء کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ اصلی سرمایہ دار طبقہ ، سرمائے کی آف شور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے جارہا اور اس ضمن میں انکو روسی، چینی اور دوسرے مخالف سیاسی و سرمایہ 
دار لوگوں کو بدنام کرنے کا مفت میں موقع بھی مل رہا ہے

یعنی سرمائے کی آف شور محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مہم میں اصل نشانہ تو کوئی اور ہے اور اس میں شریف خاندان یا دوسری پاکستانی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تو خواہ مخواہ ہی پھنس گئی ہیں

پانامہ پیپرز کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں تحقیقی صحافیوں کی عالمی تنظیم
 نامی اکٹھ کو پیسے دینے والوں میں کون کون سے اصلی تے وڈے سرمایہ داروں کی فاؤنڈیشنز شامل ہیں

   حصہ اول  یہاں پڑھئیے 

آف شور کمپنیاں علامت ہیں اصل بیماری نہیں- حصہ اول


موضوع پر جانے سے پہلے تھوڑے سے تاریخی حوالے کہ انکے بغیر اصل کہانی سمجھ نہیں آئے گی
 ملک ہے انگلینڈ ، بادشاہ ہے جیمز دوئم اور سال ہے ١٦٨٨،  جیمز دوئم کے گھر پیدا ہوتا ہے اسکا بیٹا جیمز فرانسس ایڈورڈ المعروف جیمز سوئم . بیٹے کی پیدایش نے پہلے سے الجھے جانشینی  کے معاملات کو مزید الجھا دیا. بیٹے کی پیدایش سے پہلے جیمز دوئم کی بیٹی میری دوئم جس کی شادی ہالینڈ کے ولیم سوئم المعروف ولیم  آف اورنج کے ساتھ ہوچکی تھی ، تاج برطانیہ کی جانشین تھی
مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ جیمز دوئم کیتھولک تھا جبکہ اسکی بیٹی اور داماد پروٹسٹنٹ اور انگلینڈ میں اشرافیہ بھی پروٹسٹنٹ تھی . جیمز سوئم کی پیدایش نے اس بات کی راہ ہموار کردی کہ اب اگلا بادشاہ بھی کیتھولک ہوگا اور یوں انگلینڈ پھر سے کیتھولک بالادستی میں چلا جائے گا  . اس خدشے کے پیش نظر انگلینڈ کی اشرافیہ نے ولیم سوئم اور اسکی بیوی میری دوئم کو دعوت دی کہ وہ جیمز دوئم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے برطانیہ پر قبضہ کرلیں اور یوں اسی سال جیمز دوئم کو اقتدار سے بیدخل کردیا گیا اور اس انقلاب کو شاندار انقلاب کا نام دیا جاتا ہے
ولیم سوئم اور میری دوئم برطانیہ کے اقتدار پر قابض تو ہو گئے لیکن اگلے کئی سالوں میں خانہ جنگی اور فرانس (جسکا جیمز دوئم کے ساتھ الحاق تھا ) کے ساتھ جنگوں میں الجھ کر برطانیہ کا تقریبا دیوالیہ نکل گیا
سال ١٦٩٤ تک حالت یہ ہو گئی تھی کہ برطانیہ کا بادشاہ ولیم سوئم قرضدار ہوچکا تھا اور انگلینڈ ، سکاٹ لینڈ ، ائیر لینڈ میں جاگیرداروں پر مزید ٹیکس لگانے کی کوئی سبیل نہ تھی کہ سخت بغاوت کا خدشہ تھا
برطانیہ کو معاشی دیوالیہ اور بادشاہ کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے کئی تجاویز پر غور شروع ہوا اور اس زمانے میں ایک سکاٹش شخص  ولیم پیٹرسن نے ایک بینک کے قیام کا خاکہ اور تجویز پیش کی. تجویز یہ تھی کہ بادشاہ کو درکار بارہ لاکھ پاونڈ کی رقم فراہم کی جائے گی اور اسکے بدلے میں بادشاہ ایک نجی بینک ، بینک آف انگلینڈ کا چارٹر سرمایہ داروں کے ایک گروہ کو دے گا اور یہ بینک ، نوٹ جاری کرنے اور جتنے مرضی نوٹ جاری کرنے  اور بادشاہ / برطانیہ کو دئیے گئے قرضہ کے عوض ، عام عوام پر ٹیکس لگا کر اپنا قرض وصول کرنے کا حقدار ہوگا، یعنی کہ ریاست اور حکومت کے معاملات پر نجی سرمایہ دار انتہائی اثر و رسوخ والے بن بیٹھے  
چونکہ اس زمانہ میں کرنسی کا معیار سونا ہوا کرتا تھا اور سونے پر اجارہ داری سناروں اور خاص طور پر گولڈ سمتھ خاندان کی تھی تو انہوں نے درکار زیادہ تر سرمایہ فراہم کیا اور بینک میں بڑے حصہ دار بن گئے.
اب حقیقت حال یہ ہو گئی کہ بادشاہ اس غرض سے بے نیاز ہوگیا کہ اپنے اللے تللوں اور جنگوں کے لئے درکار سرمائے کا کہاں سے بندوبست کیا کرے ، اسکو جب بھی پیسہ درکار ہوگا وہ بینک سے لے لے گا اور بینک کے نجی سرمایہ دار اس قرض اور قرض پر چڑھے سود کی وصولی کیلئے مرضی سے نوٹ جاری کرنے اور عوام پر ٹیکس لگانے میں آزاد و خود مختار تھے اور اس بات میں بھی آزاد و خودمختار کہ کس کس شے اور خدمات پر ٹیکس لگا سکتے ہیں  اور بادشاہ کے لئے ہوئے قرض کو عوام پر قرض میں بدل کر اسے قومی قرض کا نام دیدیا گیا اور عوام سے کسی نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ آیا آپ کو یہ قرض قبول بھی ہے کہ نہیں
اور یوں دنیا میں ریاستی بینک کے لبادے میں نجی سرمایہ داروں کے کسی ملک کی اکانومی کو کنٹرول کرنے ، قومی قرضہ نام کے عفریت اور عوام پر مستقل ٹیکس لگانے کی بنیاد رکھ دی گئی، ناصرف یہ بلکہ اس بات کی بنیاد بھی رکھ دی گئی کہ عوام کے اوپر ٹیکس لگانے ، بڑھانے ، کم کرنے یا ختم کرنے میں عوام کی مرضی و منشاء کا کوئی اختیار ، اثر یا رائے نہیں ہوگی  
چلئے تاریخ کے پہئے کو تھوڑا آگے کو گھماتے ہیں، سال ہے ١٨١٥ اور مقام ہے واٹرلو ، نپولین کی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے اور ڈیوک آف ویلنگٹن  فتح کے جھنڈے لہرا رہا ہے لیکن ٹھہرئیے ، ڈیوک آف ویلنگٹن کے نیتھن روتھس چائلڈز کے ساتھ قریبی تعلقات کو نظرانداز نہ کیجئے . اصل میں ڈیوک آف ویلنگٹن کو اسکی فوج کے اخراجات کیلئے زیادہ تر سرمایہ نیتھن روتھس چائلڈز نے ہی فراہم کیا تھا، اور یہ نیتھن روتھس چائلڈز کی مالی امداد ہی تھی جس نےفرانس کی شکست کے نتیجہ میں برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی استعماری سلطنت بننے میں مدد کی تھی.  ویسے تو اس خاندان نے نپولین بونا پارٹ کو بھی جنگ کیلئے سرمایہ فراہم کیا تھا
اب یہ نیتھن روتھس چائلڈز کون ہیں ، یہ صاحب ہیں مشھور عام روتھس چائلڈز خاندان کے چشم و چراغ جنہیں اسکے باپ مائیر روتھس چائلڈز نے برطانیہ میں نام اور پیسہ کمانے کیلئے بھیجا تھا اور موصوف نے دنیا کی سب سے بڑی  بزنس ایمائر کھڑی کی. تو جناب نیتھن روتھس چائلڈز نے ڈیوک آف ویلنگٹن کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان جنگ سے لیکر لندن تک تیز رفتار معلومات کی بہم رسانی کا اپنا متوازی نظام قائم کر رکھا تھا . جونہی نیتھن روتھس چائلڈز تک برطانیہ کی فتح کی خبر سب سے پہلے پہنچی ، اس نے اس خبر کو خفیہ رکھتے ہوئے ، لندن کی سٹاک مارکیٹ میں اپنے سٹاک اور خاص طور پر پاونڈ اور بینک آف انگلینڈ کے سٹاک  فروخت کرنا شروع کردئیے. چونکہ نیتھن بہت بڑا سرمایہ دار تھا اور ڈیوک آف ویلنگٹن کے انتہائی قریب  تو باقی سرمایہ دار یہ سمجھے کہ برطانیہ کو جنگ میں شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے فوری طور پر اپنے سٹاک اونے پونے بیچنا شروع کردئیے ، اسکی وجہ سے لندن کی سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور قیمتیں زمین پر آ گری، نیتھن روتھ چائلڈز نے اگلے تین دن جتنا ہوسکتا تھا لوگوں سے انکے سٹاک اونے پونے خریدنا شروع کردئیے اور جب تک لندن میں نپولین کی شکست اور برطانیہ کی فتح کی باضابطہ اطلاع آئی ، وہ برطانیہ کا سب سے امیر شخص بن چکا تھا. روتھ چائلڈ خاندان ، اتنا امیر ہو گیا تھا کہ ١٨١٥ سے ١٨٢٥ کے درمیان اس نے بینک آف انگلینڈ کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے تمام درکار سرمایہ فراہم کیا اور ایک طرح سے باقی دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ ملکر  بینک آف انگلینڈ کا مالک بن بیٹھا اور انگلینڈ میں کرنسی،  اسکی رسد اور حکومتی بانڈز پر اسکی اجارہ داری قائم ہو گئی ، کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں اس نے یہ مبینه مشھور الفاظ کہے تھے




شائد بہتوں کو یہ حقیقت معلوم نہ ہو کہ ١٩٤٦ تک بینک آف انگلینڈ ایک نجی بینک تھا اور جب اسکو اسی سال قومیایا گیا تو چونکہ حکومت کے پاس اتنا سرمایہ موجود نہیں تھا تو حکومت نے قیمت کے بدلے حکومتی گارنٹی بانڈز یعنی سٹاک جاری کیے اور حکومت برطانیہ آج تک ان سٹاک کے اوپر منافع اور سود دینے کی پابند ہے ، دوسرے الفاظ میں آج بھی نجی سرمایہ دار بینک آف انگلینڈ کے مالک ہیں
یہ کہانی بتانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ یہ کام امریکہ میں راک فیلر ، روتھس چائلڈز ، جے پی مورگن وغیرہ نے  پھر ١٩١٣ میں فیڈرل ریزرو کے نام پر کیا اور نجی بینکوں کا ایک کنسورشیم یعنی اکٹھ بنا کر کرنسی کی طلب و رسد اور اسکے اجراء پر قابض ہو گئے.

١٩١٣ میں امریکی سٹاک مارکیٹ کو جان بوجھ کر تباہ کرنے میں یہی نجی بینکر شامل تھے اور بعد میں امریکی کاںگریس سے عوام کو دھوکے میں رکھتے ہوئے فیڈرل ریزرو بنانے کی منظوری لے لی ، شائد آپ کو جان کر حیرانی ہو کہ امریکی فیڈرل ریزرو ، ریاستی یا سرکاری بینک  نہیں ہے بلکہ نجی بینکوں کا کنسورشیم ہے جس کو مرضی سے ڈالر چھاپنے ، جاری کرنے کی پوری اجازت ہے اور یہی ڈالر چھاپ کر امریکی حکومت کو قرضہ دیتا 
ہے جسکو امریکی حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر مع سود ان بینکوں کو واپس کرتی ہے 

سرمایہ داروں کے اسی اثر و رسوخ، دھوکہ دہی اور روپے پیسے کے اوپر کنٹرول کی بات تھی کہ امریکی صدور تک یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے تھے 









جن حضرات کو یہ سب سازشی مفروضوں والی کہانی یا  اوریا مقبول جان والی کہانی لگ رہی ہے وہ اپنا وقت مزید ضائع کرنے کی بجائے طاہر شاہ کی فرشتے والی ویڈیو دیکھ لیں