Saturday, April 22, 2017

عوام کی موجودہ سیاسی حمایت کا مخمصہ


عمران خان کی کافی ساری حمایت  اس وجہ سے بھی ہے کہ نواز شریف کے مقابلے میں صرف وہی
 ایک متبادل میسر ہے، پیپلز پارٹی میں جناب زرداری کی حرکتوں اور حکومتی کارناموں کی بنا پر کوئی بھی سلجھا ہوا بندہ انکی طرف دیکھنے کو بھی تیار نہیں
اب چونکہ نواز شریف کے مقابل سوائے عمران خان کے اور کوئی نہیں تو لوگ مجبوری کی وجہ سے
اسکے ساتھ ہیں
یہ وہی مخمصہ ہے جو ہمارے نوجوان طبقہ کو درپیش ہے، ستر اسی کی دھائی تک  امریکہ اور دوسری استعماری طاقتوں کے خلاف نوجوان طبقے اور خاص طور پر طالبعلموں کو سوشلسٹ تحریک اپنی طرف استعمار مخالف بیانئے کی وجہ سے کھینچ لیتی تھی اور اس میں بہت کشش تھی، اسکے علاوہ اسوقت سرمایہ داری کیخلاف اور کیوبا، کوریا اور ویتنام وغیرہ میں امریکی جنگوں اور مظالم کی وجہ سے سوشلسٹ بیانئے اور نظریات میں بہت طاقتور کشش پائی جاتی تھی اور نوجوان طبقہ کی توانائی کو استعمار مخالف جدوجہد میں استعمال بھی ہوتی تھی
افغانستان میں روس کی شکست اور اسکے بعد روس کے انہدام کے بعد سوشلسٹ نظریہ بری طرح پٹ گیا اور اس میں کوئی کشش باقی نہ رہی . اس سے پیدا ہونے والے خلاء کا اسلامی شدت پسند گروہوں نے فائدہ اٹھایا اور نوجوان طبقے اور طالبعلموں کو امریکی استعمار کے خلاف اپنی جدوجہد کو استعمار مخالف بیانیہ بناکر اسکی نہایت پرکشش  پیکجنگ کی. افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے مسلمان نوجوان طبقے اور طالبعلموں کو اسلامی شدت پسند گروہوں میں شامل ہونے کیلئے خود بخود ایک راہ دکھا دی اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل صرف اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی میں ہی دیکھ پائے اور اسکا حصہ بنتے گئے
دوسرے الفاظ میں امریکی قیادت میں مغربی سرمایہ داریت کے خلاف متبادل صرف اسلامی شدت پسندی و دہشت گردی میں نظر آیا اور دوسرا اور کوئی نظریاتی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شدت پسند بیانئے سے متاثر ہوئی اور اسکو قبول کرتی گئی
اب واپس آتے ہیں قومی سیاسی صورتحال کی طرف، نواز شریف کی سیاست کے خلاف عوام کو پیپلز پارٹی کی بری طرح ناکامی کے بعد متبادل صرف اور صرف عمران خان کی شدت پسندی والی سیاست میں نظر آیا اور لوگ اسکا شکار ہوتے گئے. لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نے عمران کے اس بیانئے کہ ن لیگ ایک لوٹ مار والی جماعت ہے اور شریف اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں میں کشش محسوس کرتے ہوئے عمران کا ساتھ دیا اور ان لوگوں میں کافی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو پرانے جیالے یا تاریخی طور پر دائیں بازو کے مخالف رہے ہیں.
بات کے نتیجے کے طور پر کہوں گا کہ جب بھی نواز شریف کا کوئی قابل عمل متبادل نظر آیا چاہے اسکا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے ، بیشمار لوگ ن لیگ سے اور پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر اس 
متبادل کی قیادت کو قبول کرلیں گے