Monday, May 22, 2017

سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیم حکمت عملی

جس طرح چار  یا   پانچ پرتوں والی سیکوریٹی ہوتی ہے اسی طرح پاکستانی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیائی حکمت عملی ہوتی ہے صرف ایک چھوٹی
سی  مرکزی کور سوشل میڈیائی ٹیم ہوتی ہے جس کو اون کیا 
جاتا ہے ، اس کے گرد 

  *   ترکش جانثار
* رضا کار 
* پرائی شادی میں بیگانے عبداللہ
 اور
محض تالیاں پیٹنے والے تماش بینوں کے جتھے ہوتےہیں

 یہ سارا تام جھام ، اپنی اصل سوشل میڈیائی ٹیم اور غلط کاریوں کو چھپانے کیلئے ہوتا ہے

اس سارے   نظام میں سب سے قابل رحم  تالیاں پیٹنے والے تماش بین اور عبداللہ بیگانے ہوتے ہیں جو محض نگاہ التفات کے بھوکے ہوتے ہیں اور جب کبھی کبھار مل جاتی ہے تو تالیاں پیٹ پیٹ کر اور ناچ ناچ کر اپنے آپ کو زخمی کر لیتے ہیں ، انکی نگاہ التفات کی بھیک مخالفوں پر خواہ مخواہ گالیاں بکنے اور بھونکنے کی مرہون منت ہوتی ہے

جہاں تک رضاکاروں کا تعلق ہے تو یہ اپنے آپ کو تھوڑا
 برتر اور نظریاتی سمجھتے ہیں اور اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم یہ کام رضاکارانہ کرتے ہیں اور پیڈ کارکن نہیں ہیں المیہ یہ ہے کہ انہی میں سب سے بیہودہ اور گھٹیا  لوگ پائےجاتےہیں ،یہ مخالفوں کی ماں بہن بیٹی کی عزت تار تارکرنا اپنا خدائی حق اورنظریاتی فرض سمجھتے ہیں اور اسپر اپنا سینہ فخر سےپیٹتے ہیں انہی رضاکاروں میں کچھ سلجھے ہوئے ، کچھ نیم نظریاتی ، کچھ مبہم نظریاتی ، کچھ شخصی نظریاتی ، کچھ مخالف ضدی ، کچھ ذاتی پسند نظریاتی کچھ مفاداتی ، کچھ گروہی ، کچھ دوستی الغرض طیف یعنی سپیکٹرم کافی وسیع ہے ان میں گالیوں والے رضاکاروں کی کور سوشل میڈیائی ٹیم اور قیادت کی طرف سے پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور انہیں ہلا شیری بھی دی جاتی ہے کہ مخالفوں پر چڑھ دوڑو چالاکی اور مکاری یہ ہے کہ جونہی انکی بیہودگی ، گالیوں ، بدزبانیوں کی وجہ سے نام نہاد نیک نامی پر حرف آتا ہے فورا کہہ دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا ہماری سوشل میڈیا ٹیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم صرف اپنے سوشل میڈیا ٹیم کے کارکنان کے رویہ کے ذمہ دار ہیں ان رضا کاروں میں آپسی لڑائی جھگڑے اور پھڈےبھی اکثر ہوتے اور قیادت رومن اکھاڑے میں بیٹھے حکمرانوں کی طرح ان سے محظوظ بھی ہوتی ہے کہ چلو یہ لوگ کسی آرے تے لگے نیں ان رضاکاروں کو وقتا فوقتا قیادت ملنے کیلئے بھی بلا لیتی ہے ، وفاداری کے سرٹیفکیٹ بھی عطا کردیتی ہے ، فنکشنز میں بھی بلالیا جاتا ہے اور یہ اس پر ہی عقیدت سے ادھموئے ہو کر پہلے سے زیادہ بیہودگی والی زبان استعمال کرنے والے بن جاتے ہیں

اسکے بعد آتے ہیں ترکش جانثار،   یہ وہ لوگ ہیں جو اندھے
 حمایتی ہوتے ہیں اور ہر وقت اس نعرے کی عملی شکل ہوتے ہیں کہ فلاں تیرا اک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا ان لوگوں کی زندگی صرف اور صرف اپنی قیادت کے ہر کام کی تعریف کرنا چاہے برا ہی کیوں نہ ہو اور مخالفوں کے ہر کام میں نقص نکالنا چاہے کتنا اچھا ہی نہ ہو ، ہوتا ہے یہ جانثار صرف جان دینا جانتے ہیں اور سوشل میڈیائی جنگ میں اگر کام بھی آ جائیں تو اسکو عین سعادت سمجھتے ہیں ان جانثاروں کو قیادت براہ راست تو نہیں لیکن کئی دوسرے طریقوں سے مفادات بہم پہنچاتی ہے اور یہ جانثاران کبھی کھل کر اسکا تذکرہ بھی نہیں کرتے ان جانثاران کی وجہ سے اگر قیادت پر کوئی حرف آتا ہے تو انکی قربانی بھی دےدی جاتی ہے انکی سر عام سرزنش بھی کردی جاتی ہے اور یہ برا بھی نہیں مناتےکہ انکی زندگی کا مقصد ہی جان نثاری ہوتا ہے

جانثار بھی چونکہ باقاعدہ کسی ٹیم کا حصہ نہیں ہوتے تو انکی
 سوشل میڈیائی حرکات کو بھی انکی ذاتی حرکت قرار دیکر ہاتھ دھو لئے جاتے ہیں

اب آتے ہے سوشل میڈیا اصلی ٹیم کی طرف ان میں بھی ایک
 سے زائد طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ پیڈ کارکن اور کچھ جماعتی وابستگی والے پیڈ کارکن تو وہ ہیں جنہیں جو ہدایات ملتی ہے وہ صرف انہی ہدایات کو فالو کرتے ہیں اور اسکے مطابق سوشل میڈیا کو متحرک کرتے ہیں

جو جماعتی وابستگی والے سوشل میڈیا ٹیم کے اراکین ہیں
 لیکن پیڈ نہیں ہیں وہ جماعتی پالیسی فالو کرتے ہیں لیکن سر عام اختلاف کا حق
انہیں بھی نہیں ملتا ، اگر کریں تو سرزنش یا سوشل میڈیا ٹیم 
سےبرطرفی تک نوبت  پہنچ جاتی ہے


جب پہلی چار پرتیں موجود ہوں تو کیا ضرورت بدنامی مول
 لینے کی