Monday, March 14, 2016

ایم کیو ایم -- نامعلوم

جب سے جناب مصطفے کمال اور جناب انیس قائم خانی کی کراچی میں اچانک اور ڈرامائی رونمائی ہوئی ہے اور جناب الطاف حسین پر کھلے عام سنگین الزامات لگائے گئے ہیں تب سے لوگ حیران پریشان ہے کہ یہ ہوا کیا ہے . عام بندے سے لیکر بڑے بڑے جغادری تجزیہ نگار اپنے اپنے قیافے لگا رہے ہیں ، کوئی اسکو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایم کیوایم کو توڑنے کی سازش بتا رہا ہے ، کوئی اسکو نوے کی دہائی والا کھیل قرار دے رہا ہے ، کوئی اسکو اردو بولنے والوں کی طرف سے اپنے اوپر لگے دھبوں کو دھونے کی کوشش قرار دے رہا ہے ، کوئی اسے حقیقت میں ضمیر کی آواز قرار دے رہا ہے . الغرض سو طرح کی باتیں

سندھ کے اردو بولنے والے کی اکثریت حسب معمول اسے اردو بولنے والوں کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی نئی سازش اور چال بتا کر اسے یکسر رد کررہی ہے اور پھر سے اس انہونے خوف کا شکار ہے کہ اسے پھر سے سیاسی طور پر تنہا کیا جارہا ہے ، ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں اس بارے اپنے اپنے اندازے لگا رہی ہے ، کوئی دبے لفظوں میں اسے فوج کی طرف سے سیاسی جماعتوں پر ایک اور حملہ قرار دے رہا ہے تو سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں اس بارے خاموشی کی لمبی چادر تانے ہوئے ہیں

ٹی وی کے اینکر حضرات تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے کے مصداق اس پر نت نئے تبصرے اور لندن سے الطاف حسین کے جسمانی و  دماغی طور پر غیر فعال ہونے ،  مصطفے عزیز آبادی کے الطاف حسین کا بہروپ بھرنے سے لیکر جناب الطاف حسین کی موت کی خبر تک پھیلانے کا منجن با آواز بلند بیچنے میں مصروف ہیں  
ہر دوسرے تیسرے روز ایم کیو ایم کی پپتنگ کٹنے یعنی کسی بڑے رہنما کے ضمیر جاگنے کی خبر آجاتی ہے جو زور و شور سے سب کو بتانے میں مضروف ہوتا ہے کہ وہ تو ننھا منا دودھ پیتا چالیس پچاس سال کا بچہ تھا جسے جناب الطاف حسین نے گندے کاموں میں زبردستی ملوث کردیا اور وہ دل سے ان کاموں سے نفرت کرتا تھا لیکن مجبور تھا

میں بھی اس سارے قصے کو دیکھ رہا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اصل میں ہوکیا رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے اور کیسے ہونے جارہا ہے
تو صاحبو کچھ سوچ بچار کرنے اور سیاسی چالوں کو سمجھنے کی کوشش میں  سیاسی تجزیہ کا لچ ہم بھی تلنے جارہے ہیں  

میرے خیال کے مطابق ، اصل کہانی جناب مصطفے کمال کی پہلی پریس کانفرنس میں ہی موجود تھی ، اس پریس کانفرنس میں ہی اتنا بڑا اشارہ یعنی کلیو موجود تھا کہ صرف اس پر غور کرنے سے ساری کہانی کھل جاتی ہے . وہ اشارہ کیا تھا ، وہ اشارہ تھا جناب مصطفے کمال کا اپنی نئی سیاسی جماعت کا نام نہ رکھنا ، یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ آپ سیاسی جماعت تو قائم کرنے جا رہے ہیں لیکن اسکا کوئی نام ہی نہیں رکھ رہے، ایک ایسی حقیقت جس میں ہم سب رہ رہے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ بھی آدم کو اسکی تخلیق کے بعد نام ہی سکھاتے ہیں ،ایسی حقیقت جس میں بغیر نام کے کسی بھی شے یا انسان کی کوئی پہچان نہیں ہے اس میں نئی سیاسی جماعت بن رہی ہے لیکن نام کوئی نہیں ہے ، ہے ناں حیرت کی بات

تو جناب نام کی اس لئے ضرورت نہ تھی کہ نام تو پہلے سے ہی موجود تھا ، جب پہلے سے نام موجود ہو اور سب کا جانا پہچانا اور زبان زد عام ہو تو کسی نئے نام کی بھلا کیا ضرورت ، ابھی بھی نہیں سمجھے ، بھائی جب ایم کیو ایم کا نام پہلے سے موجود ہے تو نیا نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے

اب آتے ہیں کہ اصل کھیل یا سیاسی ناٹک کیا ہے

سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کن کی بنائی ہوئی ہے اور کن کے ہاتھ کا رومال ہے. ایم کیو ایم  بنانے والوں کیلئے ایم کیو ایم سندھ میں پی پی پی اور سندھی قوم پرستوں کو کاؤنٹر کرنے یعنی جواب دینے اور انکو کینڈے میں رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی ، میں یہاں پر اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ اردو بولنے والوں کی مکمل حمایت ایم کیو ایم کو حاصل رہی ہے اور عام اردو بولنے والوں نے اسکو اپنے حقوق کے تحفظ کی واحد ضمانت سمجھا  لیکن فی الحال یہ موضوع نہیں ہے

پچھلے چند سالوں سے جناب الطاف حسین ، ایم کیو ایم اور اسکے بنانے والوں کیلئے ناگوار بوجھ یعنی لائبیلٹی بن گئے تھے . وجوہات بیشمار تھیں، انکے برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے، بنانے والوں کی ہر بات ماننے سے انکار، اپنے آپ کو اپنے سیاسی قد سے بڑا دیکھنے کی خواہش و زعم، کراچی کی بدامنی کو کنٹرول نہ کرنا بلکہ اسکو مزید بڑھاوا دیتے جانا وغیرہ وغیرہ ، بنانے والے اشارے کنائے میں جناب الطاف حسین کو بتاتے آ رہے تھے کہ جناب بس بہت ہوگیا اور وہی کیجئے جس کیلئے آپکو لیڈر بنایا گیا تھا لیکن الطاف حسین ان سب باتوں کو مسلسل نظرانداز کرتے آ رہے تھے بلکہ کھل کر اسکے خلاف عمل کرنا شروع ہوگئے تھے. اور تو اور ، الطاف حسین نے پیش بندی کے طور پر ہر اس بندے کو منظر سے فورا ہٹا دیا یا پیچھے کردیا جو کہ قیادت کا ممکنہ امیدوار ہوسکتا تھا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ مائنس الطاف فارمولے کو کوئی مہاجر قبول نہیں کرے گا. بنانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا تھا اور یہ حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی قوت میں کمی آ جائے اور پی پی پی کے مقابلے میں اس کاونٹر ویٹ میں کمی ہوجائے اور اسکے دو تین ٹکڑے ہوجائیں.
ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اور اس سے جناب الطاف حسین کیلئے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وہ سنہری موقع تھا جب بنانے والوں کیلئے ایم کیو ایم کی طاقت کو الطاف حسین کے بغیر قائم رکھنے کا وقت آ گیا تھا. ایم کیو ایم پر لگنے والے تمام الزامات کو الطاف حسین کے کھاتے میں ڈال کر ایم کیو ایم کو ایک بار پھر سب کیلئے قابل قبول بنانے کا عمل شروع ہوگیا اور اس سارے عمل پر پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے کام جاری تھا . چونکہ یہ کام ایم کیو ایم کو توڑے بغیر کرنے کا منصوبہ تھا تو اسکے لئے بظاہر صاف ستھرے بندوں کا انتخاب ضروری تھا چنانچہ نگاہ انتخاب جناب مصطفے کمال پر پڑی اور خوب پڑی
تو جناب سارا منصوبہ یا پلان یہ ہے ایم کیو ایم تو ویسے کی ویسے رہے گی بس اس میں جناب الطاف حسین نہیں ہونگے ، وہی تمام بندے ہونگے جن پر سنگین الزامات لگتے رہے ہیں لیکن  پاکبازی و عام معافی کا غسل دیکر انہیں پاک و پوتر کردیا جائے گا، جب تقریبا سارے اہم لوگ ہی   مصطفے کمال کے بہائے ہوئے آنسوؤں سے دھل جائیں گے تو کسی کو شک بھی نہیں ہوگا کہ یہ تو وہی راسکل یا غنڈے ہیں جو الطاف بھائی کے نام یا ایماء پر لوگوں کو زندہ جلاتے رہے ہیں یا ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ہیں یا بھتہ کی بوریاں بھر بھر کر الطاف حسین کیلئے سکاٹش وہسکی کی بوتلوں کا بندوبست کرتے رہے ہیں اور انکے بے سرے گانے سنوانے کا بندوبست کرتے رہے ہیں

باقی کی کہانی کا کچھ خود بھی سوچ لیں ، اب سارا کچھ میں تو بتانے سے رہا


اب آیا سمجھ میں کہ ایم کیو ایم نامعلوم کا نام کیوں نہیں ہے