Wednesday, April 12, 2017

سرمایہ داری نظام -- چالبازی تیرا نام

آپ نے اکثر خبروں میں پڑھا ہوگا کہ

امریکی حکومت نے فلاں بینک کو  اپنے گاہکوں کو کوئی خدمت یا پراڈکٹ غلط طور پر یا 
غلط معلومات کی بنا پر بیچنے پر اتنے سو ملین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں سافٹ وئیر کمپنی کو غیر مسابقتی رویہ اپنانے پر اتنے سو ملین 
ڈالر کا جرمانہ کردیا

یورپی یونین نے مائیکروسافٹ /اوریکل /فیس بک پر فلاں فلاں قانون کی خلاف ورزی پر
 اتنے بلین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں آئل کمپنی کو ماحولیاتی آلودگی پھیلانے پر اتنے بلین ڈالر کا جرمانہ کردیا

برطانوی حکومت نے اپنے خریداروں کو اوور چارجنگ پر فلاں گیس یا ٹیلیفون کمپنی کو
 اتنے ملین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں غیر ملکی کمپنی کے تمام اثاثے قبضہ میں لے لئے

اس طرح کی خبریں ہم آئے روز سنتے اور پڑھتے ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ
 جو سارا جرمانہ اکٹھا ہوتا ہے جو ہر سال کئی بلین ڈالر کا ہوتا ہے ، وہ کہاں جاتا ہے ، اسکا کیا بنتا ہے ، کیا وہ متاثرہ لوگوں تک پہنچتا ہے ، کتنا پہنچتا ہے ، کتنی دیر میں پہنچتا ہے اور کس صورت میں پہنچتا ہے

میں بھی ان سوالات پر اکثر غور کرتا رہتا تھا اور کرتا رہتا ہوں ، پھر سوچا اس بارے تھوڑی تحقیق کیوں نہ کی جائے. جب اس معاملے پی تحقیق و کھوج لگانے کی کوشش کی تو سب سے پہلا حیرت کا جھٹکا جو لگا وہ کل اعداد و شمار بارے حکومت یا کسی بھی متعلقہ حکومتی ادارے کا ان اعدادوشمار کو کسی ایک جگہ پر اکٹھا نہ کرنا تھا. یعنی مجھے کوئی ایسی حکومتی ویب سائٹ یا حکومتی دستاویز نہ ملی جس میں ہر سال کے ان جرمانوں کی کل تعداد کا ذکر ہو اور انکی وصولی کا طریقہ کار موجود ہو اور اس بات کی تفصیل بھی یہ ساری رقم جو اکٹھی ہوتی ہے اسکا کیا کیا جاتا ہے ، اگر کچھ معلومات موجود بھی ہیں تو وہ بہت مبہم ہیں،متاثرہ لوگوں تک جرمانے کی اس رقم کا ایک معمولی حصہ مختص کیا جاتا ہے اور اسکا طریقہ وصولی بھی اتنا لمبا اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس میں کئی سال لگ جاتے ہیں

اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ معاملہ مالیاتی اداروں کو بھاری جرمانے کا ہے، اگر
 ہم اعدادوشمار کو دیکھیں تو شائد ہی ایسا کوئی مالیاتی ادارہ ہے جس کو بھاری جرمانہ کیا گیا ہو اور اسکے حصص کی قیمت میں کوئی خاص فرق پڑا ہو، اگر جرمانے کے اعلان کے بعد حصص کی قیمت میں کوئی معمولی کمی ہوئی بھی  ہو تو چند ہفتوں بعد حصص میں وہ کمی بھی دور ہو گئی. اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کئی مالیاتی ادارے جن کو آٹھ دس بلین ڈالر کے بھاری جرمانے کا اعلان کیا گیا  تو کیا وجہ کہ انکے حصص میں معمولی سی کمی بھی نہ ہوئی بلکہ محاورے کی طرح بطخ کے پروں پر  پانی جتنا بھی اثر نہ ہوا

نظام سرمایہ داری میں جو اصل قوت نظام کو چلا رہی ہے تو وہ یہ مالیاتی ادارے ہی ہوتے
 ہیں اور ان کے ساتھ بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نظام کو چلانے والی قوت ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار لے. اس ضمن میں  ایک مزید  بات جو معلوم ہوئی  کہ جب بھی کسی جرمانے کا  اعلان کیا گیا  تو ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے یہ جرمانہ کئی سال کی تفتیش کے بعد کیا، یعنی کئی سال تک اس غلط کام یا قانون کی خلاف ورزی کو جاری رہنے دیا گیا. کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ محلے کی پولیس کو کسی چور کی مسلسل چوریوں کا علم ہو اور وہ اسکو کئی سال تک چوریاں کرتے رہنے دے

تو جناب ، جب اس سلسلہ میں مزید کھوج لگائی اور ادھر ادھر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو جو دھندلی سی تصویر بنی وہ یوں کہ سرمایہ دار حکومتیں(امریکہ و یورپ ) ان جرمانوں کو ایک خصوصی فنڈ میں ڈال دیتی ہیں جس کا استعمال بقول ان حکومتوں کے نئی قائم شدہ کمپنیوں اور مستقبل کی ٹیکنالوجی پر قائم ہونے وائی کمپنیوں کی مالی مدد کیلئے کیا جاتا ہے. جب مزید کھوج لگایا گیا تو پتہ چلا کہ ان تمام نئی کمپنیوں کو قائم کرنے والے وہی مالیاتی ادارے اور بین الالقوامی کمپنیاں ہیں جو اس نظام سرمایہ داری کو چلا رہی ہیں اور اکثر قانون کی خلاف ورزی میں ملوث رہتی ہیں اور انہیں یہ بھاری جرمانے ہوتے رہتے ہیں . دوسرے الفاظ میں یہ سارے جرمانے مالیاتی اداروں و بین الاقوامی کمپنیوں سے ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے ہاتھ سے انہیں ہی واپس کردئیے جاتے ہیں ، عوام اسی بات پر خوش رہتے ہیں کہ انکی حکومتیں مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی اداروں سے قانون کی پابندی کرواتے ہیں اور نہ کرنے پر بھاری جرمانے کرتی ہیں لیکن عوام ایک بار پھر بیوقوف بن جاتی ہے

اگر اس ساری بات کو گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ ایک ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس
 ہے جو عوام پر لگایا جاتا ہے. یعنی حکومت براہ راست تو عوام کی جیب سے پیسہ نہیں نکالتی بلکہ مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کو عوام کی لوٹ مار کی کھلی اجازت دیتی ہیں یا اس پر آنکھیں موند کر پڑی رہتی ہے اور جب عوامی شوروغوغا بلند ہوتا ہے یا ان اداروں کی چوری سرعام پکڑی جاتی ہے تو حکومتیں عوام کو چپ کروانے کیلئے ان پر جرمانے کردیتی ہیں لیکن جرمانے سے حاصل شدہ رقم ایک اور طریقہ اختیار کرکے انہی کمپنیوں/اداروں کو واپس کردی جاتی ہے، ہاں عوام کی لوٹ مار کے سلسلے میں ہونے والا تھوڑا بہت نقصان بھی پورا کردیا جاتا لیکن کبھی بھی اتنا جرمانہ نہیں کیا جاتا کہ بڑے مالیاتی ادارے یا ان بین الاقوامی کمپنیوں کو واقعی میں کوئی مالی زد پہنچے

بقول علامہ اقبال
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

-حوالہ جات کیلئے یہ صرف چند نمونے ہیں

http://www.cnbc.com/2015/10/30/misbehaving-banks-have-now-paid-204b-in-fines.html

https://www.theguardian.com/business/2016/aug/30/apple-pay-back-taxes-eu-ruling-ireland-state-aid

http://www.bbc.com/news/technology-21684329

http://www.theverge.com/2015/10/5/9454393/bp-oil-spill-record-fine-doj-settlement

https://www.theguardian.com/business/2017/jan/31/deutsche-bank-fined-630m-over-russia-money-laundering-claims

http://www.bankinfosecurity.com/chase-a-6356

http://www.reuters.com/article/us-hsbc-probe-idUSBRE8BA05M20121211

http://www.telegraph.co.uk/finance/newsbysector/banksandfinance/11619188/Barclays-handed-biggest-bank-fine-in-UK-history-over-brazen-currency-rigging.html

https://www.theguardian.com/business/2014/aug/20/standard-chartered-fined-300m-money-laundering-compliance

https://www.theguardian.com/business/2016/apr/26/uk-big-four-banks-face-19bn-compensation-fines-legal-costs-libor-ppi

https://www.ft.com/content/21099006-fef9-11e5-99cb-83242733f755

https://www.theguardian.com/business/2016/sep/16/deutsche-bank-14bn-dollar-fine-doj-q-and-a

https://www.theguardian.com/business/2016/nov/16/rbs-may-fined-more-than-12bn-settle-us-mis-selling-scandal

http://www.thisismoney.co.uk/money/markets/article-2731240/Bank-America-hit-record-10billion-fine-toxic-mortgage-debt-mis-selling.html