Monday, August 3, 2015

قومی سیاست کی بلدیاتی سوچ



#PMLN اور #PPP کی طرف سے بلدیاتی نظام کی اب تک کی مخالفت اور نافذ نا کرنے پرکچھ تجزیہ ذہن میں آیا ہے،جوابی تبصرہ سے پہلے پورا پڑھ لیجئے گا
قیام پاکستان سے لیکر اگلے 12-14 سال پاکستان کی سیاست کچھ حد تک نظریاتی تھی پاکستان کی سیاست 1960 کی دھائی سے بالکل غیر نظریاتی موڑ مڑ گئی اور اس غیر نظریاتی سیاست کا سب سے بڑا اثر سیاسی جماعتوں اور انکے ووٹ لینے کی بنیاد پر پڑا.
ایوب خان کے زمانے میں BD نظام نے عوامی نمائندوں کو اور انکی سوچ کو محض پرمٹ ، نالیاں اور گلیاں پکی کرنے کی حد تک محدود کر دیا. وہ عوامی نمائندے جنہوں نے پورے ملک کیلئے خارجہ ،معاشی ،تعلیمی معاشرتی ، انتظامی ، عسکری، حکمت عملی بنانی تھی ان کی سوچ اور عمل کی وسعت محلے کی حد تک ہی رہ گئی. نا صرف انکی بلکہ عوام کی ان نمائندوں سے توقعات بھی پہلے تو انکی نالیاں ، گلیاں ، سڑکیں ، سکول کی چار دیواری وغیرہ وغیرہ بنوانے تک محدود ہوئی اسکے بعد صرف رہ ہی یہ گئی کہ کون ہمارے یہ کام کرواتا ہے اور اسی بنیاد پر ہمارا ووٹ اسکو ملے گا. معاشرے میں اس سوچ کا پیدا ہونا فوجی، سیاسی اور بیوروکریسی اشرافیہ کیلئے ایک نعمت    ثابت ہوا اور انہوں نے بھی یہ جان لیا کہ عوام کی سیاسی سوچ کو گلی محلے اور نالیاں پکی کروانے تک محدود کرنے کے بے شمار سیاسی و سٹریٹجک فائدے ہیں . اس سوچ سے عوام کی فکری گہرائی و گیرائی صرف مقامی معاملات سے اوپر یا باہر کبھی نہیں جاتی جوکہ انکو بیوقوف بنانے کیلئے بہت ضروری ہے
بھٹو کے زمانے اور بعد میں ضیاء الحق کے زمانے میں اس سوچ نے پستی کی ایک مزید کھائی دیکھی، اس دور میں پیدا ہونے والی سیاسی قیادت نے بھی اس سوچ کو نا صرف مزید بڑھاوا دیا بلکہ ان کا سارا سیاسی فہم اور سیاسی فکر ہی اس سوچ پر پروان چڑھی کہ سیاست صرف گلی محلے کے ترقیاتی کام اور کچھ اور بڑے ترقیاتی کام کرنے کا نام ہے، انکے نزدیک چونکہ ووٹ صرف ترقیاتی کاموں سے ملتے ہیں اور ان ترقیاتی کاموں کیلئے معاشرے میں کسی بھی فکری و نظریاتی سوچ کا ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا تو اسکا معاشرے میں پھیلاؤ یا جوت لگانا کار بیکار ہے .
اس سیاسی قیادت کے نزدیک اصل مقصد سیاسی طاقت و حکومت کا حصول ہے اور اسکا انکے نزدیک صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے، محلوں ، شہروں وغیرہ کے ترقیاتی کام ،
اب اگر پاکستان میں بلدیاتی نظام آ جائے تو یہ تمام ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں اور ان میں منتخب شدہ نمائندوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے، یہ صورتحال کسی بھی ایسی "سیاسی " قیادت کیلئے ڈراونے خواب سے کم نہیں جس کے نزدیک سیاست صرف گلی محلے شہر کے ترقیاتی کام کا نام ہو.
انکی سوچ و فہم میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ سیاست ، سیاسی طاقت اور حکومت میں آنے کیلئے کچھ نظریاتی و فکری بنیاد بھی ہوتی ہے اور اسکی بنیاد پر قومی و ملکی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں ، قوم و ملک کی فکری و نظریاتی تعمیر ہوتی ہے اور وہ اسکے ذمہ دار ہوتے ہیں، معاشرے کو ہر طرح کے فکری نظریاتی ،جغرافیائی خطرات سے بچانا ہوتا ہے ، شدت پسندی اور گھٹن کا قلع قمہ کرنا ہوتا ہے . لیکن موجودہ سیاسی قیادت تو صرف اینٹ گارے کی سوچ سے باہر ہی نہیں نکل سکتی کہ انکے نزدیک اگر قومی سطح کی سیاست اور سیاستدانوں سے گلی محلے شہر کا ترقیاتی کام لے لیا گیا تو وہ کریں گے کیا،
بلدیاتی نظام کے بارے ہر طرح کی رکاوٹ ، ہچکچاہٹ ، کے پیچھے اصل میں یہ سوچ ہے. آپ بلدیاتی نظام کو نافذ نا کرنے بارے جتنی مرضی سیلاب یا دوسری رکاوٹوں کی دلیلیں دے لیں ، جتنی مرضی تاویلیں لے آئیں کہ حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں، فلاں مسئلہ ہے یا ڈھمکاں مسئلہ ہے ، سب آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے ،
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی سیاست اور سیاسی فکری و نظریاتی گہرائی و گیرائی صرف گلی محلے کی نالیاں اور سڑکیں پکی کرنے تک ہے اور آپ اس ذہنی حصار سے باہر نکل نہیں سکتے،
موجودہ سیاسی قیادت کا ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر سیاست سے تعلق والا معاملہ ، بندریا اور اسکے مرے ہوئے بچے کو سینے سے چمٹائے رکھے جانے والا ہے ، جب تک کوئی اس بندریا کو یقین نہیں دلا دیتا کہ بچہ مر چکا ہے اور بدبو مار رہا ہے وہ بچے کو نہیں چھوڑے گی ، یہی معاملہ ہمارے #PMLN اور #PPP کی قومی سیاسی قیادت کے ساتھ ہے کہ ترقیاتی کاموں کے مرے ہوئے بچے کو سینے سے لگائے سڑکوں ، پلوں ، نالیوں کی تعمیر میں مصروف ہیں
 #PPP یا #PMLN کی طرف سے کسی واضح خارجہ ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی، انتظامی ، عسکری وغیرہ حکمت عملی پیدا نا کرنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے محض ترقیاتی کاموں کی سیاست سے ہمارے قومی سیاستدانوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت کو روکنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے کہ وہ اپنا سارا وقت ، توانائیاں اور سوچ بچار ان منصوبوں کے آغاز اور انکی مانیٹرنگ میں الجھے رہتے ہیں.
خدا را ، اپنے آپ کو قومی سطح کا سیاسی رہنما صرف سمجھئے ہی نہیں ، بن کر بھی دکھائیے اور اپنی سیاسی سوچ ، فکر و فہم کو وسیع کیجئے اور گلی محلے شہر کے ترقیاتی کاموں کو بلدیاتی نظام و اداروں کے حوالے کر کے قومی سطح پر سیاسی طاقت اور حکومت میں آنے کا نیا بیانیہ دیجئے اور صحیح فکری و نظریاتی سیاسی سوچ کے معمار بنئیے