Friday, August 18, 2017

تعلیمی اچھوت پن



آپ میں سے اکثر نے یہ داستان پڑھی یا سنی ہوگی کہ پرانے وقتوں میں اگر کوئی شودر، ہندوؤں کی مذہبی کتاب کہیں پڑھی جارہی ہوتی اور وہ سن لیتا تھا تو اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیتے تھے 
اس داستان کی اصلیت بارے تو یہی کہوں گا کہ شاید کوئی اکا دکا واقعہ ہوا ہو تو ہو ورنہ ہمارے لوگوں کی ہندوؤں کو بدنام کرنے کی داستانیں ہیں 
میرا اصل موضوع ہندو مذھب یا اس بارے من گھڑت داستانیں نہیں ہے ، اصل موضوع کچھ اور ہے ، اس داستان بارے جب بھی میں نے غور کیا تو مجھے اس میں صرف ایک ہی پہلو نظر آیا کہ طاقتور طبقات خاص طور پر برہمن نہیں چاہتے تھے کہ کمزور اور پسے ہوئے طبقات کسی قسم کی تعلیم اور چاہے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو ، تک رسائی حاصل کریں، انکو اصل خطرہ یہ تھا کہ علم حاصل کرکے کمزور اور پسماندہ طبقات کہیں انکو چیلنج نہ کریں اور انکی برتری اور اختیار ختم نہ ہوجائے 
اگر ہم پاکستان میں موجودہ تعلیم اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کی صورتحال کو دیکھیں تو اج بھی یہی صورتحال ہے ، اس جدید زمانے میں غریب، پسماندہ اور کمزور طبقات کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ تو نہیں ڈالا جاتا البتہ انکی نسلوں کو تعلیم کی روشنی سے دور رکھنے کا پورا پورا بندوبست ہے 
کہنے کو تو کسی بھی قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر کوئی سماجی ، مذہبی ، قانونی یا آئینی پابندی نہیں ہے اور آپ امیر ہوں یا غریب ، طاقتور ہوں یا کمزور ، آپ کسی بھی تعلیم کو بظاہر اپنی محنت و صلاحیت کی بنا پر حاصل کر سکتے ہیں اور معاشرے میں پھیلا تصور بھی یہی ہے کہ اگر آپ اپنی مالی و سماجی حالت بہتر کرنا چاہتے ہیں اور  چاہتے ہیں کہ آپکی اگلی نسلیں ایک اچھے مستقبل کی حامل ہوں اور آپ صدیوں اور ازلوں کی سماجی ، معاشرتی اونچ نیچ اور ناانصافیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تعلیم ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر آپ یہ سب حاصل کر سکتے ہیں 
یہ خیال یا نظریہ کہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم آپکو سماجی و مالی ترقی عطا کرے گی نوے کی دھائی کے وسط یا اسکے اختتام تک تو شاید درست تھا لیکن پچھلے پندرہ بیس سال میں تعلیمی میدان میں ہوئی تبدیلیوں جس میں خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں کا کھمبیوں کی طرح اگ آنا اور انکا فروغ ایک ایسی بد دعا کے طور پر آیا ہے کہ غریب اور کمزور طبقات ایک بار پھر سے تعلیمی اچھوت پن کا شکار ہوگئے ہیں 
شروع شروع میں تو سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں، پھر بھی غریب اور کمزور طبقات کے لوگوں کی مالی دسترس میں تھیں کہ انکے تعلیمی اخراجات کسی نہ کسی طور پورے ہوجاتے تھے اور غریب ، پسماندہ اور کمزور طبقات کیلئے تعلیم کے ذریعہ اپنی سماجی و مالی حالت کے سدھار کی امید و روشنی کی کرن باقی تھی . لیکن پچھلے دس سال سے یہ امید کی کرن بھی ایک بھیانک اور ڈراونے خواب میں بدل چکی ہے 
نجی یونیورسٹیوں کے لاکھوں روپے سال کے تعلیمی اخراجات کو تو چھوڑئیے کہ وہ تو غریب ، پسماندہ اور کمزور طبقات کی کبھی بھی دسترس میں نہ تھے ، سرکاری کالج اور خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیوں کی ماہانہ تعلیمی فیس کم از کم سات آٹھ ہزار روپے ہیں ، ذرا تصور کیجئے کہ ایک ریڑھی لگانے والے ، کسی دوکان پر لگے سیلز مین ، کسی بینک میں کھڑے گارڈ ، کسی روزانہ دیہاڑی پر لگے مزدور ، جن کی کل ماہانہ تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپیہ ہوتی ہے کو اپنے دو تین بچے یونیورسٹی پڑھانا پڑھ جائیں تو وہ کیسے پڑھائے اور کیسے اپنا گزارا کرے 
لوگ یہ استدلال لیکر آ جاتے ہیں کہ بچے سکالر شپ حاصل کرلیں  تو بھائی میرے ، ہر بچہ سکالر شپ نہیں لے سکتا اور اسکے علاوہ کیا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا صرف امیر اور سکالر شپ حاصل کرنے والے کا حق ہے ، کیا ایک اوسط ذہن اور اہلیت والے بچے /بچی کا کوئی حق نہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے 
اصل بات یہی ہے کہ ہماری اشرافیہ جس کے بچے تو مہنگے نجی تعلیمی اداروں یا بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں نہیں چاہتی کہ پسماندہ ، غریب اور کمزور طبقات کے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی سماجی و مالی حالت بہتر کرسکیں اور انکے اقتدار ، اختیار اور برتری کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکیں. ایک طرف تو یہ نعرے اور بڑکیں کہ تعلیم سب کا حق ہے اور سب کو سستی اور قابل دسترس تعلیم دینا ہماری پالیسی ہے ،سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انکے اخراجات کے نام پر فیسوں کا بڑھانا کہ وہ پسماندہ طبقات کی دسترس سے باہر ہوجائیں بھی اشرافیہ کی چال ہے کہ عام عوام تعلیمی اچھوت ہی رہیں اور کبھی انکی برابری نہ کر پائیں
تو جناب سب اس بات کی آواز اٹھائیں کہ اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں خاص طور پر یونیورسٹیوں میں ماہانہ فیس زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپیہ ہو اور اس تعلیمی 
اچھوت پن کو فوری ختم کیا جائے
شاہ برہمن