Monday, November 9, 2015

قومی تعمیراتی منصوبے اور سیاسی مداخلت



پاکستان میں بننے والے پچھلے بیس تیس سال کے قومی تعمیراتی منصوبوں کو اگر دیکھا جائے تو شائد ہی کوئی ایسا قومی تعمیراتی منصوبہ ہوگا جو متنازع نہ ہو، شائد ہی کوئی ایسا قومی منصوبہ ملے گا جس کی کسی نہ کسی حوالے سے مخالفت نہ کی گئی ہو یا اس پر مختلف اعتراضات کی بھرمار نہ ہوئی ہو


ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت کے منصوبے پر اعتراض ہوا ہو یا کسی ایک مخصوص علاقے میں مجوزہ منصوبے پر اعتراض ہوا ہو، تمام قومی تعمیراتی منصوبے ، چاہے وہ کسی فوجی حکومت نے شروع کیے ہوں یا منتخب سیاسی حکومت نے ، وہ منصوبے کسی سڑک کی تعمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی آبی ڈیم کی تعمیر سے ، وہ منصوبہ ایک نئی بحری بندرگاہ کی تعمیر ہو یا کسی شہر میں میٹرو بس کا منصوبہ ہو ، تمام کے تمام کسی نہ کسی حوالے سے اختلافات اور تنازع کا شکار ہوئے ہیں اور کسی بھی منصوبے پر ایک قومی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوسکا


ان منصوبوں کو شروع کرنے والی حکومتیں ، چاہے وہ فوجی ہوں یا سیاسی منتخب حکومتیں ، ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کو قومی ترقی کے دشمن سے لیکر محض نری سیاسی مخالفت کے طعنوں سے نوازتی رہی ہیں. حال یہ ہے کہ ان منصوبوں کے مکمل ہو جانے کے بعد بھی تنازعات ختم ہونے میں نہیں آ رہے اور ابھی تک ان منصوبوں کے قابل عمل و قابل قبول ہونے بارے بحث و مباحثہ جاری و ساری ہے


میری ناقص رائے میں ان تمام اور مستقبل کے قومی تعمیراتی منصوبوں کیلئے ہمیں ایک نئی سوچ اور ایک نئی سیاسی فکر کی ضرورت ہے. ہمیں قومی سیاسی منصوبوں کو ہر حال میں سیاست اور سیاسی جماعتی مفاد سے علیحدہ کرنے کی اشد ضرورت ہے . اسوقت تک ان منصوبوں کی جو صورتحال رہی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت دیتی ہے کہ قومی تعمیراتی ترقی کے منصوبے ، قومی منصوبے کم اور ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی مفادات کے منصوبے زیادہ تھے


قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے میں کچھ تجاویز عرض کر رہا ہوں اور تمام پاکستانی عوام کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ان پر غور کرنےکی دعوت دے رہا ہوں 

قومی ترقی کے تمام تعمیراتی منصوبوں کیلئے ایک آزاد اور مکمل غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنایا جائے 

اس ادارے کا یہ کام ہونا چاہئے کہ قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے تین سالہ ، پانچ سالہ ، دس سالہ اور پندرہ سالہ تجاویز دے

اس ادارے کے تجویز کردہ کسی بھی منصوبے کے علاوہ ، قومی ترقی کےتمام تعمیراتی منصوبے شروع کرنے پر پابندی ہونی چاہئے

کسی بھی حکومت ، وہ سیاسی ہو یا فوجی ، اسکو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی ترقی کا کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ شروع نہیں کر سکتی

تمام موٹر ویز ، ائیرپورٹ ، ریل کی پٹری کے منصوبے ، آبی ذخیرہ جات ، بجلی کی پیداوار، میٹرو بس یا میٹرو ٹرین، وغیرہ اس ادارے کے دائرہ کار میں ہونے چاہییں

ایسا کوئی بھی منصوبہ جس کی لاگت بیس ارب روپے سے زائدہ ہو ، اس ادارے کے دائرہ کار میں ہو

کسی بھی منصوبے کی جگہ کا تعین اس ادارے کی ذمہ داری ہو اور یہ کام مکمل غیر سیاسی مداخلت، اقتصادی قابل عمل اور ملکی ترقی کے نقطہ نظر سے ہو

تمام منصوبوں کی پیداواری لاگت اور ان سے ہونے والے عوامی و اقتصادی فوائد کا جواز دینا ، اس ادارے کی ذمہ داری ہو


ایک اعتراض یہ کیا جائے گا کہ پلاننگ کمشن کا ایک ادارہ پہلے سے موجود ہے تو ایک نیا ادارہ بنانے کا کیا فائدہ . جس ادارے کی میں بات کر رہا ہوں وہ پیشہ ور لوگوں کا ادارہ ہوگا ، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور طبقوں کی نمائندگی ہوگی لیکن فیصلے مکمل غیر سیاسی قومی ترقی کے نقطہ نظر سے کیے جائیں گے

اس ادارے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ سیاسی فائدے کیلئے بجٹ کی مختلف مدوں کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو سکے گا اور قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے اپنی حکومت کے علاوہ آنے والی حکومتوں کے دور میں ان منصوبوں کیلئے رقم مختص کرنی پڑے گی

قومی ادارے کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی اسی طرح کا غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنانا چاہئے تاکہ صوبائی سطح پر بھی بڑے تعمیراتی منصوبے ، کسی سیاسی مداخلت کے بغیر وجود پزیر ہوں اور تعمیر ہوں 

چونکہ ملکی ترقی کے تعمیراتی منصوبے تمام عوام کے ٹیکسوں سے بنائے جاتے ہیں تو ایسے منصوبے کسی ایک علاقے یا کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچانے کیلئے کرنا ، باقی علاقوں اور لوگوں کا استحصال کرنا ہے. 

جب تک ہم قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے غیر سیاسی ، پیشہ وارانہ طور پر نہیں سوچیں گے ، منصوبے ہمیشہ متنازع رہیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی منصوبہ اچھا بھی ہوا تو آنے والی حکومت اسکو جاری نہیں رکھے گی جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے 


شاہ برہمن