Tuesday, July 16, 2019

ہمارا تعلیمی نظام اور امتحانی نمبر گیم




میٹرک کے نتائج کو لیکر کل سے پاکستان میں پھر سے تعلیمی نظام اور اسکے انحطاط کو لیکر دھواں دھار بحث چھڑی ہوئی ہے ، بحث کا غالب حصہ اس پہلو پر ہے کہ طلباء و طالبات کس طرح سے ننانوے فیصد نمبر لینے پر پہنچے ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ اتنے زیادہ نمبر لینے کے باوجود ان طلباء و طالبات کو ان مضامین جن میں یہ نمبر حاصل کیے ہیں کا کوئی فہم یا ادراک تک نہیں ہے

احباب اس بات پر بھی دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں کہ "ہمارے زمانے" میں تو 
کسی کے ساڑھے آٹھ سو میں سے سات سو نمبر آ جاتے تھے تو بورڈ میں پوزیشن آ جاتی تھی . محلے و شہر میں شور مچ جاتا تھا اور خاندان میں واہ واہ ہو جاتی تھی اور اب تو ہر دوسرا بچہ /بچی گیارہ سو میں سے ١٠٥٠ نمبر لئے بیٹھا ہوتا ہے

بحث اس بات پر بھی جاری ہے کہ نا صرف مسئلہ میٹرک یا ایف اس سی میں منوں کے حساب سے نمبر حاصل کرنے پر ہے بلکہ گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے طالب علم بھی انگریزی میں ڈھنگ کی چار سطریں تک نہیں لکھ سکتے اور اپنے متعلقہ مضمون میں انکا علم بھی بس واجبی سا ہی ہوتا ہے اور زندگی کے کسی بھی معاملے میں انکی سوچ علم فہم و ذہنیت میں کسی قسم کی کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی

ان تمام کمیوں کوتاہیوں مسائل کو اجاگر کرنے بارے ہر شخص کی اپنی رائے ہے، کوئی تعلیمی نصاب کو اسکا قصوروار ٹھہراتا ہے ، کوئی اساتذہ کو ، کوئی والدین کو کہ بچے کی افتاد طبع کی بجائے اپنی مرضی ٹھونستے ہیں، کوئی تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو، کوئی معاشرے میں موجود شدت پسندی اور مذہبی رہنماؤں کو اور کسی اور کو کچھ اور نہیں سوجھتا تو اسکی تان بالاخر ضیاء الحق پر جا ٹوٹتی ہے

اس ساری بحث میں جو سب سے اہم بات یعنی ان تمام مسائل کی اصل وجہ کیا ہے اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یا ہونا چاہئے بالکل ہی غائب ہے

میرا اس مضمون لکھنے کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ تعلیمی نظام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کی جائے اور ہر شخص اس معاملے میں اپنا اپنا حل پیش کرے اور پھر اس پر ایک قومی بحث شروع ہو اور تمام پیش کردہ حلوں میں سے بہترین حل چن کر انکا نفاذ کیا جائے تاکہ ہم ہر سال کے امتحان کے نتائج کے موسم میں آئے اس باسی کڑھی کے ابال سے محفوظ رہیں

پاکستان اور برطانیہ میں تعلیمی نظام سے مستفید ہونے کے ذاتی تجربہ کی بنا پر میری یہ گزارشات ہیں

میٹرک اور ایف اس سی میں مضامین کو ایک خاص بندش میں ہی پڑھنے اور امتحان دینے پر پابندی کو فورا ختم کیا جائے ، یعنی صرف آرٹس اور سائنس کی تقسیم پر مشتمل مضامین کے مرکب یعنی کومبینیشن کی بندش کا خاتمہ. تعلیم کو صرف دو خانوں یعنی آرٹس و سائنس میں تقسیم کرکے ہم نے تعلیمی اچھوت پن پیدا کیا ہوا ہے اور مزید یہ کہ اگر کوئی طالب علم کسی سائنسی مضمون کو کسی آرٹس (ہیومینیٹیز) کے مضمون کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے اس انتخاب کا حق ہی نہیں دیا جاتا. ایف اس سی میں میری اپنی خواہش یہ تھی کہ میں میتھیمیٹکس کے مضمون کے ساتھ فلسفہ اور سیاسیات پڑھ سکوں لیکن یہ حق انتخاب نہ آج سے تیس سال پہلے تھا اور نہ ہی آج کسی طالبعلم کو میسر ہے

مضامین کو میٹرک اور ایف اس سی میں صرف سائنس اور آرٹس کے غیر لچکدار مرکب میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ایک تعلیمی اچھوت پن پیدا ہوگیا ہے جس میں سائنس پڑھنا تعلیمی برہمنیت اور ہیومنیٹیز کے مضامین کی تعلیم، تعلیمی شودرپن خیال کیا جانے لگا ہے، اس پر مزید یہ کام کیا گیا ہے کہ سائنس کے مضامین والوں کو تو آرٹس کی کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلے کا موقع فراہم کردیا گیا جبکہ ہیومنیٹیز والوں کو سائنس کی ڈگری میں داخلے کا کوئی موقع میسر نہیں

ایف اس سی میں صرف تین مضامین کو بنیادی قرار دیا جائے اور کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلہ کیلئے کم از کم دو متعلقہ بنیادی مضامین کی شرط لگا دی جائے اور صرف انہی متعلقہ مضامین میں اعلیٰ نمبر داخلے کی بنیادی شرط ہوں مثال کے طور پر اگر آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنی ہے تو اسکے لئے انگریزی زبان ، فلسفہ ، سیاسیات ، سماجیات ، نفسیات، انگریزی ادب، اردو ادب وغیرہ میں سے کوئی بھی دو بنیادی مضامین کا ہونا ضروری ہو

امتحانات میں بجائے نمبر دینے کے صرف گریڈ دئیے جائیں اور گریڈز کے بینڈ بنا دئیے جائیں، یعنی ٩٠ فیصد سے اوپر اے پلس ، پچاسی سے ٩٠ فیصد کے درمیان نمبر، اے گریڈ، اسی سے پچاسی فیصد کے درمیان ، بی پلس گریڈ، پچھتر سے اسی فیصد کے درمیان بی گریڈ، ستر سے پچھتر فیصد کے درمیان سی پلس گریڈ، پیسنٹھ سے ستر فیصد کے درمیان سی گریڈ  وغیرہ وغیرہ ، یہ سب گریڈنگ کا نظام مضمون میں حاصل کردہ نمبر پر ہی ہو اور بورڈ میں پوزیشن ہولڈر والی ڈرامہ بازی ختم کی جائے