Tuesday, November 10, 2015

پاکستان میں اداروں کے قیام کی بحث – دوسرا پہلو


پاکستان میں شدید زلزلہ ، ہزاروں مکانات گر گئے ، سینکڑوں لوگ ہلاک ،ہزاروں 
امدادی کاروائی کے منتظر

نیشنل ہائی وے پر دو بسوں میں تصادم ،حادثے میں اسی لوگ مارے گئے، زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں شدید مشکلات

فیکٹری میں آگ لگنے سے دو سو کارکن ہلاک، سینکڑوں زخمی، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ آنے میں تین گھنٹے لگے

پولیس کا بیگناہ لوگوں پر تشدد.عوام کا شدید احتجاج ، تھانیدار کو معطل کر دیا گیا

بجلی کی پیداوار کے منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

وڈیرے نے اپنے مزارعوں پر کتے چھوڑ دئیے، پولیس خاموش تماشائی

یہ اور اس طرح کے خبریں جب ہمارے اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو ایک بات جس کا دھوم دھڑکے اور زور شور سے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان تمام مسائل کے ہونے کی وجہ ،جی ہمارے ہاں ادارے نہیں ہیں یا ادارے غیر سیاسی اور آزاد نہیں ہیں ، گویا کہ ادارے نام کی گیڈر سنگھی ہے جو ہمارے تمام مسائل حل کردے گی اور جونہی یہ ادارے نام کا جن وجود میں آئے گا ، پلک جھپکتے ہی ہمارے تمام دلددر دور ہو جائیں گے اور ہمیں ہمارے تمام مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا اور ہر دن عید اور ہر رات ، شبرات کا روپ لئے آئے گی

مان لیا حضور کہ ہمارے ہاں ادارے نہیں ہیں یا یہ کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں ، مان لیا ہمیں ادارے چاہئے اور ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا ہے

لیکن کیا معاملہ اتنا ہی آسان اور سادہ ہے. کیا ہم نے کبھی غور کیا کیا ہے کہ ادارے ، ٹوٹے پھوٹے ہی سہی ،جو موجود ہیں ، کیا ہم نے بطور ایک ذمہ دار شہری انکو استعمال کرنے کی بھی کوشش کی ہے ، کیا ہم نے بطور ایک ذمہ دار شہری کبھی اپنے مسائل کیلئے موجود اداروں کو مروجہ قوائد ضوابط کا استعمال کرتے ہوئے ان سے استفادہ کیا ہے. کیا ہم نے کبھی اس بات کی طرف دھیان دیا ہے کہ ان اداروں کی تعمیر و مضبوطی کیلئے بطور ایک زمہ دار شہری ہماری جو ذمہ داری ہے وہ کیا ہے اور اسکو کیسے پورا کرنا

کیا ہم نے کبھی اس بات کا سوچا ہے کہ اگر ہمیں کسی سرکاری ادارے میں کام پر جائے تو بجائے اصول و ضوابط پر عمل کرنے کے ہم فورا شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے چکر میں ہوتے ہیں اور فورا کسی سفارش کا سوچتے ہیں

کیا ہم نے اس بات کا سوچا ہے کہ ٹریفک وارڈن سے پوچھنے کے ہمارا چلان کیوں کررہا ہے اور ہم نے کونسا قانون توڑا ہے ، ہم کیوں فورا اسکو پیسے دینے کا سوچتے ہیں

کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے گلی محلے میں ہونے والی قانون کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہتے ہیں اور کیوں خاموش رہتے ہیں، کیا یہ وجہ نہیں ہے کہ ہم نے خود وہ خلاف ورزیاں کی ہوتی ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

کیا ہم نے کبھی بطور ایک ذمہ دار شہری کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے علاقے میں فوری ہنگامی امداد کے کتنے ادارے ہیں اور انکی کارکردگی ، صلاحیت اور استطاعت کی حالت کیسی ہے اور کیسے ہم متعلقہ اداروں یا حکومت کو اسکی بری حالت بارے بتائیں اور اسکے لئے فنڈز اور تربیت کو یقینی بنائیں
کیا ہم نے کبھی اپنے مقامی سرکاری سکول ، کالج کا دورہ کیا ہے کہ اسکی حالت کیسی ہے ، اسکا معیار تعلیم کیسا ہے ، اسکو بہتری کیلئے کیا درکار ہے اور ہم بطور ایک ذمہ دار شہری کیا کردار ادا کر سکتے ہیں

کیا ہم نے کبھی علاقے کے سرکاری ہسپتال ، طبی مرکز یا ڈسپنسری میں جانے کی زحمت کی ہے کہ وہاں عملے کے کیا اوقات کار ہیں اور کن مشکلات میں لوگ کام کر رہے ہیں یا کام نہیں کر رہے اور سرگرمی سے اس بات کو یقینی بنایا ہو کہ ہم اپنے منتخب نمائندوں اوراعلی  سرکاری اہل کاروں کو اس بارے بتائیں

کیا ہم نے کبھی انفرادی طور پر یا محلے کا کوئی وفد بنا کے علاقے کے تھانے میں جانے کی زحمت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایف آئی آر درج کروانے کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسے اسکو بہتر کیا جا سکتا ہے اور تھانے میں کتنے بے گناہ لوگ موجود ہیں

ایسے ہے بیشمار کام اور ہیں جن کی میں یہاں مثال دے سکتا ہوں لیکن بات کو طول دینا مقصد نہیں ہے

اداروں کے بنانے کی جو بحث ہے وہ دو طرفہ ہے، ایک حکومت یا ریاست کی طرف سے  اور دوسری بطور ایک ذمہ دار شہری ہونے کی طرف سے، جبتک ہم دونوں پہلوؤں بارے توجہ نہیں دیں گے ، نہ تو ادارے بن سکتے ہیں اور نہ ہی ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں

ایک بہت ہی اہم اور کلیدی نکتہ اس ساری بحث میں یہ ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے کے ذمہ دار شہری ، اپنے ملک کے اداروں کی وجود پزیری ، بقاء اور استحکام کیلئے اپنا وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں ، وہ گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہتے کہ ہر حادثے ، سانحے یا قدرتی آفات میں غیب سے مدد آئے گی اور انکے ادارے خود بخود کام کرنے لگ جائیں گے

ہمیں اس نفسیاتی کیفیت اور حالت سے باہر نکلنا ہو گا کہ اپنے یا علاقے کے کسی مسئلہ کیلئے ہمیں سفارش ڈھونڈنی چاہیے اور اپنا وقت بچانا چاہئے اور فورا نچلے درجوں کو چھوڑ کر سب سے اونچے عھدے والے بندے سے بات کرنی چاہیے

ہمیں اداروں کیلئے اپنا وقت دینا ہی ہوگا ، ہمیں اداروں کیلئے اپنی توانائی خرچ کرنی ہی ہوگی ، ہمیں اداروں کیلئے ، انکے استحکام کیلئے ، انکی بقا کیلئے ان اداروں کو استمعال کرنے کے اصول ، قوائد اور ضوابط بارے جاننا ہی ہوگا
اگر یہ سب نہیں کریں گے تو سو چھوڑ ہزار نئے ادارے بنا لیں ، وہ ادارے کچھ 
نہیں کر سکیں گے


شاہ برہمن 

Monday, November 9, 2015

قومی تعمیراتی منصوبے اور سیاسی مداخلت



پاکستان میں بننے والے پچھلے بیس تیس سال کے قومی تعمیراتی منصوبوں کو اگر دیکھا جائے تو شائد ہی کوئی ایسا قومی تعمیراتی منصوبہ ہوگا جو متنازع نہ ہو، شائد ہی کوئی ایسا قومی منصوبہ ملے گا جس کی کسی نہ کسی حوالے سے مخالفت نہ کی گئی ہو یا اس پر مختلف اعتراضات کی بھرمار نہ ہوئی ہو


ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت کے منصوبے پر اعتراض ہوا ہو یا کسی ایک مخصوص علاقے میں مجوزہ منصوبے پر اعتراض ہوا ہو، تمام قومی تعمیراتی منصوبے ، چاہے وہ کسی فوجی حکومت نے شروع کیے ہوں یا منتخب سیاسی حکومت نے ، وہ منصوبے کسی سڑک کی تعمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی آبی ڈیم کی تعمیر سے ، وہ منصوبہ ایک نئی بحری بندرگاہ کی تعمیر ہو یا کسی شہر میں میٹرو بس کا منصوبہ ہو ، تمام کے تمام کسی نہ کسی حوالے سے اختلافات اور تنازع کا شکار ہوئے ہیں اور کسی بھی منصوبے پر ایک قومی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوسکا


ان منصوبوں کو شروع کرنے والی حکومتیں ، چاہے وہ فوجی ہوں یا سیاسی منتخب حکومتیں ، ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کو قومی ترقی کے دشمن سے لیکر محض نری سیاسی مخالفت کے طعنوں سے نوازتی رہی ہیں. حال یہ ہے کہ ان منصوبوں کے مکمل ہو جانے کے بعد بھی تنازعات ختم ہونے میں نہیں آ رہے اور ابھی تک ان منصوبوں کے قابل عمل و قابل قبول ہونے بارے بحث و مباحثہ جاری و ساری ہے


میری ناقص رائے میں ان تمام اور مستقبل کے قومی تعمیراتی منصوبوں کیلئے ہمیں ایک نئی سوچ اور ایک نئی سیاسی فکر کی ضرورت ہے. ہمیں قومی سیاسی منصوبوں کو ہر حال میں سیاست اور سیاسی جماعتی مفاد سے علیحدہ کرنے کی اشد ضرورت ہے . اسوقت تک ان منصوبوں کی جو صورتحال رہی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت دیتی ہے کہ قومی تعمیراتی ترقی کے منصوبے ، قومی منصوبے کم اور ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی مفادات کے منصوبے زیادہ تھے


قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے میں کچھ تجاویز عرض کر رہا ہوں اور تمام پاکستانی عوام کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ان پر غور کرنےکی دعوت دے رہا ہوں 

قومی ترقی کے تمام تعمیراتی منصوبوں کیلئے ایک آزاد اور مکمل غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنایا جائے 

اس ادارے کا یہ کام ہونا چاہئے کہ قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے تین سالہ ، پانچ سالہ ، دس سالہ اور پندرہ سالہ تجاویز دے

اس ادارے کے تجویز کردہ کسی بھی منصوبے کے علاوہ ، قومی ترقی کےتمام تعمیراتی منصوبے شروع کرنے پر پابندی ہونی چاہئے

کسی بھی حکومت ، وہ سیاسی ہو یا فوجی ، اسکو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی ترقی کا کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ شروع نہیں کر سکتی

تمام موٹر ویز ، ائیرپورٹ ، ریل کی پٹری کے منصوبے ، آبی ذخیرہ جات ، بجلی کی پیداوار، میٹرو بس یا میٹرو ٹرین، وغیرہ اس ادارے کے دائرہ کار میں ہونے چاہییں

ایسا کوئی بھی منصوبہ جس کی لاگت بیس ارب روپے سے زائدہ ہو ، اس ادارے کے دائرہ کار میں ہو

کسی بھی منصوبے کی جگہ کا تعین اس ادارے کی ذمہ داری ہو اور یہ کام مکمل غیر سیاسی مداخلت، اقتصادی قابل عمل اور ملکی ترقی کے نقطہ نظر سے ہو

تمام منصوبوں کی پیداواری لاگت اور ان سے ہونے والے عوامی و اقتصادی فوائد کا جواز دینا ، اس ادارے کی ذمہ داری ہو


ایک اعتراض یہ کیا جائے گا کہ پلاننگ کمشن کا ایک ادارہ پہلے سے موجود ہے تو ایک نیا ادارہ بنانے کا کیا فائدہ . جس ادارے کی میں بات کر رہا ہوں وہ پیشہ ور لوگوں کا ادارہ ہوگا ، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور طبقوں کی نمائندگی ہوگی لیکن فیصلے مکمل غیر سیاسی قومی ترقی کے نقطہ نظر سے کیے جائیں گے

اس ادارے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ سیاسی فائدے کیلئے بجٹ کی مختلف مدوں کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو سکے گا اور قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے اپنی حکومت کے علاوہ آنے والی حکومتوں کے دور میں ان منصوبوں کیلئے رقم مختص کرنی پڑے گی

قومی ادارے کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی اسی طرح کا غیر سیاسی پیشہ وارانہ ادارہ بنانا چاہئے تاکہ صوبائی سطح پر بھی بڑے تعمیراتی منصوبے ، کسی سیاسی مداخلت کے بغیر وجود پزیر ہوں اور تعمیر ہوں 

چونکہ ملکی ترقی کے تعمیراتی منصوبے تمام عوام کے ٹیکسوں سے بنائے جاتے ہیں تو ایسے منصوبے کسی ایک علاقے یا کسی ایک طبقے کو فائدہ پہنچانے کیلئے کرنا ، باقی علاقوں اور لوگوں کا استحصال کرنا ہے. 

جب تک ہم قومی ترقی کے تعمیراتی منصوبوں کیلئے غیر سیاسی ، پیشہ وارانہ طور پر نہیں سوچیں گے ، منصوبے ہمیشہ متنازع رہیں گے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی منصوبہ اچھا بھی ہوا تو آنے والی حکومت اسکو جاری نہیں رکھے گی جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے 


شاہ برہمن