Sunday, July 28, 2019

مماثلت کے مغالطے



پاکستان میں اکثر لوگ اس بات پر الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں کہ دو بالکل متضاد خیالات و نظریات کے لوگ کچھ معاملات میں بالکل ایک جیسے خیالات و عمل کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے ، اور لوگ ان کے اس عمل کو دیکھ کر یا تو ان پر انکی فکر و نظریہ سے روگردانی کا الزام لگانا شروع کردیتے ہیں یا انہیں وقتی مفادات کا اسیر قرار دیکر نفرت کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں اور آخر کار فکری و نظریاتی لوگوں بارے یہ عمومی رائے دے دی جاتی ہے کہ سب ان لوگوں کا ڈھونگ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ بالکل متضاد نظریات کے لوگ کسی معاملے میں ایک جیسی ہی رائے کا اظہار کریں
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاملے پر لیبر پارٹی اور کنزروٹیو پارٹی میں ہوئی اندرونی تقسیم اس نکتےکی وضاحت کیلئے اہم مثال ہے اور خاص طور پر لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن اور اسکے قریبی ساتھیوں کا یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج بارے موافقانہ موقف
یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حمایتیوں خصوصا کرتا دھرتاؤں بارے عموما یہ رائے یا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرست ، ماضی میں رہنے والے، طبقاتی نظام کے حمایتی، غیرملکیوں سے نفرت کرنے والے اور سرمایہ داروں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے اور انکے لے پالک ہیں، لیکن جب ہم لیبر پارٹی کی موجودہ قیادت یعنی جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو حیرانی سی ہوتی ہے کہ وہ سب تو قوم پرستی کے خلاف ،ہر رنگ و نسل کے مشترکہ سماج کے حامی، مستقبل کی طرف دیکھنے والے ، سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے سخت مخالف اور سوشلزم کے شدید حمایتی
اب ایسے دو انتہائی متضاد لوگوں اور گروہوں کے کسی ایک معاملے پر ایک جیسی رائے و خیال لوگوں کیلئے انتہائی الجھاؤ والی صورتحال بن جاتی ہے اور لوگ شدید حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جیریمی کوربن ، کنزروٹیو پارٹی کے ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو جن سے اسکا نظریاتی و فکری طور پر اٹ کتے کا ویر ہو
اصل میں اس سارے معاملے میں عام لوگ عموما جو غلطی کرتے ہیں وہ اس اصل نکتے جس پر سارا قضیہ کھڑا ہوتا ہے کی بجائے اس نکتے کے حمایتی یا مخالف لوگوں کی قطار اور صف بندی کو دیکھ اس پر حکم صادر کر دیتے ہیں اور یوں خود بھی الجھاؤ کے شکار رہتے ہیں اور ایک ایسی فضاء بھی تیار کردیتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی اسی الجھاؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، ایسا عموما اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عام لوگ گہرائی میں جا کر اس اصل نکتے یا قضیے کا تجزیہ یا چیر پھاڑ نہیں کرتے جسکی وجہ سے یہ صف بندی یا تقسیم پیدا ہوئی ہوتی ہے اور نہ اس صف بندی میں کھڑے مختلف الخیال لوگوں کے طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں
اگر ہم لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کے نظرئیے، طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کو دیکھیں تو ان کی جدوجہد اس حوالے سے ہے کہ سرمایہ داروں کے تسلط کو ختم کیا جائے، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے چنگل سے عوام کو آزاد کیا جائے، صحت ، تعلیم ، ذرائع رسل و رسائل اور دوسری عوامی خدمات میں ہوئی نجکاری کو ختم کیا جائے، سماجی ہم آہنگی پیدا کی جائے، معاشرے میں سماجی تفریق کو ختم کیا جائے اور تمام لوگوں کو تعلیم و ترقی کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں، اس حوالے سے وہ یہ دیکھتے ہیں یورپین یونین کا منصوبہ اصل میں ملکی سطح سے بھی اوپر عالمی سرمایہ داروں اور انکے بینکوں و مالیاتی اداروں کے تسلط کا منصوبہ تھا جس میں باوجود کچھ اچھے نقاط کے اصل میں عام عوام کی خواہشات ، امنگوں و ارادوں کو کچلا گیا، اس منصوبے سے حکومتی اختیار، عوام کے ہاتھ سے نکل کر یورپی یونین کی سطح پر چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنے لگ گئے اور یہ سارے فیصلے اس بنیاد پر تھے کہ ک ان سرمایہ داروں کے ہاتھ میں نہ صرف عوامی و ملکی وسائل کا کنٹرول آ جائے بلکہ عوام کی زندگیوں کا کنٹرول بھی انکے ہاتھ میں آ جائے
جب برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا معامله ایک اہم عوامی مطالبہ بن گیا تو ان لوگوں کے خیال میں انکے نظریاتی و فکری مقاصد و حکمت عملی کیلئے یہ انتہائی اہم اور پہلا قدم تھا کہ برطانیہ کو عالمی سرمایہ داروں کے چنگل سے نکالا جائے ، یہ درست ہے کہ اخراج کے دائیں بازو کے کٹڑ حمایتیوں کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ہم برطانیہ کو یورپی یونین کے تسلط سے آزاد کروانا چاہتے ہیں لیکن انکا اصل مقصد عالمی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے سے برطانیہ کے معاملات کو آزاد کروا کر مقامی برطانوی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے میں دینا ہے اور طبقاتی نظام کو قائم رکھنا اور عوامی خدمات کی نجکاری کرنا ہے. تو ایسی صورتحال میں جیریمی کوربن اور اسکے سوشلسٹ ساتھیوں کا اخراج کی حمایت کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے دشمن کی طاقت کو کم کیا جائے اور ایک عالمی سطح کے دشمن جس کے پاس عالمی سطح کے وسائل و اختیار ہوں سے لڑنا انتہائی مشکل ہے بنسبت اس دشمن کے جس کے پاس وسائل و اختیار صرف ایک ملکی سطح پر ہے ، یعنی ایک چھوٹا اور کمزور دشمن
تو یوں بظاہرجو نظر آتا ہے کہ بورس جانسن جیسے اخراج کے کٹڑ حمایتیوں کے منصوبے کے ساتھ جیریمی کوربن جیسے انتہائی نظریاتی مخالف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں وہ اصل میں محض نظر کا دھوکہ اور صورتحال کو گہرائی میں نہ جا کر دیکھنے کا نتیجہ ہے جبکہ یہ ایک طویل المیعاد مقصد و حکمت عملی کا حصہ ہے نہ کہ بورس جانسن اور اسکے دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرستوں کی کسی بھی قسم کی حمایت یا اعانت
اب سوچ و تخیل کے اس زاویے کو ہم پاکستان میں بننے والے مختلف سیاسی اتحادوں یا گٹھ بندوں پر منطبق کریں تو ہمیں دکھائی دینے لگے گا کہ متضاد خیال مختلف سیاسی جماعتوں کا کسی خاص معاملے یا مسئلہ پر اکٹھا ہونا یا ایک ہی صف میں نظر آنے کا کیا مطلب ہے اور اسی طرح کسی خاص معاملے یا مسئلہ پرنظریاتی و فکری مخالف کیوں ایک ہی صف بندی یا قطار میں نظر آتے ہیں
اس لئے کسی بھی معاملے ، قضیے یا مسئلے پر لوگوں کی رائے یا عمل کی مماثلت کے مغالطے سے بچنا خود اپنی فکری شفافیت کے حصول اور فکری الجھاؤ سے بچاؤ کیلئے اشد ضروری ہوتا ہے اور اصل مسئلے، قضیے و معاملے بارے مختلف الخیال لوگوں کے اپنے نظریاتی و فکری طویل المدت مقاصد و حکمت عملی کوجاننا اور پرکھنا بہت ضروری ہوتا ہے

Monday, July 22, 2019

اعلیٰ تعلیم کا مجوزہ نظام اور نیو لبرل ازم حکمت عملی


برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے زمانہ سے لیکر انیس سو اسی کی دہائی تک یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم پر امیر اور اونچے متوسط طبقہ کی ایک طرح سے اجارہ داری رہی اور اسکی وجہ سے سرکاری و نجی تمام بہتر اور انتظامی عہدوں پر ان طبقات کا غلبہ رہا

اس صورتحال کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انیس سو پچاس کے بعد سے غریب طبقات کے بچوں کو سکول کی تعلیم کے بعد فوری طور پر کسی نہ کسی فیکٹری/کارخانے یا ادارے میں نچلے درجہ کی نوکری مل جاتی تھی اور وہ نوکری ایک طرح سے زندگی بھر کیلئے مستقل سمجھی جاتی تھی، اس لئے غریب طبقات کیلئے چار چھ سال اعلیٰ تعلیم میں صرف کرنے کے بعد نوکری کا حصول کبھی بھی پرکشش نہ تھا اور ویسے بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں ماں باپ، انکلز ، آنٹیز، بڑے بھائی بہن دوست احباب کو سکول کی تعلیم کے بعد فیکٹری میں نوکری کرتے دیکھا ہو وہاں زندگی میں یہی بڑی امید اور کامیابی سمجھی جاتی تھی ، اس طرح کی زندگی میں کبھی بھی بڑے عہدوں کی آرزو اور امنگ پیدا نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسکا کوئی حقیقی موقع

انیس سو اسی کی دہائی سے برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی کنزرویٹوپارٹی کی حکومت نے برطانیہ کی اقتصادیات کو مینوفیکچرنگ کی بنیاد سے خدمات یعنی سروسز کی بنیاد والی اقتصادیات کی طرف منتقل کرنا شروع کردیا، اس حکومتی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں شدید کمی آئی اور آئے دن بڑے کارخانوں اور انڈسٹریل یونٹ کے بند ہونے سے شدید بیروزگاری آئی.

یہ سب کام نیو لبرل سرمایہ داری کا برطانیہ و امریکہ میں بالخصوص اور یورپ میں بالعموم آغاز تھا، مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کو ہی اصل میں نیو لبرل سرمایہ داری کی سیاسی قیادت و ریاستی نفاذ کنندگان سمجھا جاتا ہے کہ انہیں کے دور میں عوامی خدمات میں کٹوتی اور سرکاری اداروں کی دھڑا دھڑ نجکاری شروع کی گئی تھی .

غریب و نچلے طبقات کیلئے مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں نوکریوں کی کمی اور اس دور میں نئی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ظہور کی وجہ سے ان طبقات کے بچوں میں یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم کا شوق و شعور پیدا ہوا. چونکہ سروس انڈسٹری کی بنیاد ہی کمپیوٹنگ اور آئی ٹی انڈسٹری پر تھی اور امیر و اپر مڈل کلاس کا ان شعبوں میں کوئی رجحان نہ تھا تو غریب اور نچلے طبقات کی ایک کثیر تعداد نئی ٹیکنالوجی ، جس میں آئی ٹی اور ٹیلیکام سے متعلقہ شعبے تھے میں چلی گئی اور نہ صرف اچھی تنخواہیں لینے لگی بلکہ مڈل مینجمینٹ میں بھی پہنچنے لگی،اس کے علاوہ اس مفت اعلیٰ تعلیم کے مواقع کی وجہ سے نچلے طبقات (ورکنگ کلاس ) کے لوگ ان شعبوں میں بھی جانا شروع ہوگئے جو کہ روایتی طور پر امیر اور اعلیٰ طبقات کیلئے مخصوص تھے ، یعنی قانون ، طب، سماجی علوم، فنانس، بینکنگ اور معاشیات. نیو لبرل سرمایہ داری کا ایک اہم جز، آزاد منڈی کی معیشت (فرو مارکیٹ اکانومی)، سرمائے اور لوگوں کی آزادانہ نقل حرکت بھی تھی تو اس مجبوری کی وجہ سے غریب اور نچلے طبقات کو نئی ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں کی مینجمنٹ میں برداشت کرنا پڑا، نئی ٹیکنالوجی صرف آئی ٹی اور ٹیلیکام تک ہی محدود نہ رہی بلکہ ہر طرح کی مینوفیکچرنگ میں خود کاری یعنی آٹومیشن اور روبوٹس در آئے جن کی بنیاد بھی آئی ٹی کے ہی ذیلی شعبے تھے

اس سے دولتمندوں کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا جس کا تعلق پرانے امیر یا اپر مڈل کلاس کی بجائے غریب و نچلے طبقات سے تھا (یورپ امریکہ میں پاکستانی بھارتی و چینی لوگوں کی دوسری نسل کے اچانک امیر ہونے کے پیچھے بھی یہی عوامل اور شعبہ جات ہیں). اس نئے امیر طبقہ نے اپنے بچوں، بھائی بندوں کو دھڑا دھڑ یونیورسٹی بھیجنا اور اعلیٰ تعلیم دلوانی شروع کردی، برطانیہ میں انیس سو ستانوے تک ہر طرح کی یونیورسٹی کی تعلیم مفت تھی تو اس بات کا غریب و نچلے طبقات نے بھرپور فائدہ اٹھایا

نوے کی دہائی کے وسط میں ہی نیولبرل سرمایہ داروں کو یہ احساس ہونے لگ گیا کہ مفت کی اعلیٰ تعلیم سے ان کی معاشی اجارہ داری کو خطرہ و چیلنج درپیش ہے تو اس بارے کچھ کرنا ہوگا تاکہ غریب اور نچلے طبقات کے لوگ معاشی آزادی کی بنا پر انکے تسلط و غلبہ کو ختم نہ کردیں. برطانیہ جہاں پر نیولبرل سرمایہ داری کا کامیابی سے نفاذ کیا گیا تھا میں اس بات پر کمشن بنایا گیا کہ جائزہ لے کہ مفت کی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی سے حکومتی خزانے پر کتنا بوجھ پڑ رہا ہے اور اس عوامی خرچ کو کم اور پھر ختم کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ، لیبر پارٹی جو نظریاتی طور پر سوشلسٹ ، نظریہ، پس منظر اور حکمت عملی رکھتی تھی میں نقب لگا کر ان لوگوں (ٹونی بلئیر ) کو پروموٹ کیا گیا جی نیو لبرل سرمایہ داری کے ایجنڈے کا ساتھ بالکل متفق تھے اور لیبر کی جگہ نیو لیبر پارٹی کا تصور رائج کیا گیا اور پھر ٹونی بلئیر کی وہی نیو لیبر پارٹی تھی جس نے انیس سو ستانوے میں اقتدار میں آ کر یونیورسٹی میں مفت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے طلباء کیلئے پڑھائی کے اخراجات ادا کرنے لازمی کردئیے 

تعلیمی نظام میں اس نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ غریب اور نچلا طبقہ جو کہ ورکنگ کلاس کہلاتا تھا کے بچوں کو ایک بار پھر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہونا شروع ہوگئے کہ اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کی ادائیگی بتدریج اس ورکنگ کلاس کے بس سے باہر ہوتی گئی اور بیس سال بعد اب یہ صورتحال ہے کہ ورکنگ کلاس کے لوگوں کا اعلیٰ تعلیم میں تناسب کم ہونا شروع ہوگیا ہے اور اگر وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے جاتے بھی ہیں تو جب ڈگری لیکر نکلتے ہیں تو ان پر پچاس ساٹھ ہزار پاونڈز کا قرض چڑھا ہوتا ہے. وہ جب نوکری حاصل کرتے ہیں تو اس قرض کی ادائیگی کی وجہ سے کسی بھی سیاسی جدوجہد کا حصہ بننے سے قاصر ہوجاتے ہیں کہ اس سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اگر نوکری چھن گئی تو قرض کیسے ادا ہوگا 

یعنی تعلیم کی نجکاری کی نیو لبرل پالیسی سے کثیر جہتی مفاد حاصل کیے گئے، ورکنگ کلاس طبقہ کو اعلیٰ تعلیم سے ایک بار پھر محدود کردیا گیا، ان پر تعلیم کے حصول کی بنیاد پر قرض کا انبار کھڑا کردیا گیا، ورکنگ کلاس کے دل میں ڈر و خوف پیدا کردیا گیا کہ اگر انہوں نے کسی بھی قسم کی عوامی حقوق و عوامی برابری کی کسی سیاسی جدوجہد میں حصہ بننے کی کوشش کی تو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور قرض کی ادائیگی نہ کر پائیں گے. مزید یہ کہ تعلیم کے اعتبار سے بھی انہیں ان شعبوں میں محدود کردیا گیا جو کہ صرف اور صرف ٹیکنالوجی سے متعلقہ ہیں کہ آزاد منڈی کی معیشت اور نیو لبرل سرمایہ داری کو اچھے ملازموں کیلیے صرف ان شعبوں کے "ماہرین" کی ضرورت ہے اور سماجی علوم ، فلسفہ ،قانون، سیاسیات،فنانس، بینکنگ، اقتصادیات جیسے نان ٹیکنیکل مضامین وغیرہ میں جانے اور پڑھنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں . حالانکہ یہی مضامین ہیں جن میں مہارت کسی بھی معاشرے کو چلانے ، ترتیب دینے اور آگے لیجانے کیلئے اشد ضرورت ہوتی ہے

اگر پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو اعلیٰ تعلیم کے نجی تعلیمی اداروں کا قیام بھی نوے کی دہائی میں شروع ہوا جو کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنے عروج کو پہنچ گیا. تعلیم کی اس تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری ادارے اپنا معیار کھو بیٹھے اور ان سے فارغ التحصیل طلباء کے اعلیٰ عہدوں اور اہم شعبوں میں جانے کے مواقع ناممکن ہی ہوگئے اور اب وہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اداروں میں تعلیمی اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ غریب کو تو چھوڑیں، متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کیلیے اپنے دو تین بچوں کو یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم دلوانا تقریبا ناممکن ہی ہے

تعلیم کی نجکاری اور مخصوص شعبوں کی ہی تعلیم جو منڈی کی معیشت کیلئے تابعدار اور اچھے ملازم پیدا کرے ، نیو لبرل سرمایہ داری کا ایجنڈہ و حکمت عملی ہے جس پر عمران خان کی حکومت مکمل یکسوئی کے ساتھ کاربند ہے اور آئندہ چند سالوں میں موجودہ تعلیمی نظام کو بدل کر اسکی جگہ تجویز کردہ نظام کا نفاذ مقصود ہے

Tuesday, July 16, 2019

ہمارا تعلیمی نظام اور امتحانی نمبر گیم




میٹرک کے نتائج کو لیکر کل سے پاکستان میں پھر سے تعلیمی نظام اور اسکے انحطاط کو لیکر دھواں دھار بحث چھڑی ہوئی ہے ، بحث کا غالب حصہ اس پہلو پر ہے کہ طلباء و طالبات کس طرح سے ننانوے فیصد نمبر لینے پر پہنچے ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ اتنے زیادہ نمبر لینے کے باوجود ان طلباء و طالبات کو ان مضامین جن میں یہ نمبر حاصل کیے ہیں کا کوئی فہم یا ادراک تک نہیں ہے

احباب اس بات پر بھی دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں کہ "ہمارے زمانے" میں تو 
کسی کے ساڑھے آٹھ سو میں سے سات سو نمبر آ جاتے تھے تو بورڈ میں پوزیشن آ جاتی تھی . محلے و شہر میں شور مچ جاتا تھا اور خاندان میں واہ واہ ہو جاتی تھی اور اب تو ہر دوسرا بچہ /بچی گیارہ سو میں سے ١٠٥٠ نمبر لئے بیٹھا ہوتا ہے

بحث اس بات پر بھی جاری ہے کہ نا صرف مسئلہ میٹرک یا ایف اس سی میں منوں کے حساب سے نمبر حاصل کرنے پر ہے بلکہ گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے طالب علم بھی انگریزی میں ڈھنگ کی چار سطریں تک نہیں لکھ سکتے اور اپنے متعلقہ مضمون میں انکا علم بھی بس واجبی سا ہی ہوتا ہے اور زندگی کے کسی بھی معاملے میں انکی سوچ علم فہم و ذہنیت میں کسی قسم کی کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی

ان تمام کمیوں کوتاہیوں مسائل کو اجاگر کرنے بارے ہر شخص کی اپنی رائے ہے، کوئی تعلیمی نصاب کو اسکا قصوروار ٹھہراتا ہے ، کوئی اساتذہ کو ، کوئی والدین کو کہ بچے کی افتاد طبع کی بجائے اپنی مرضی ٹھونستے ہیں، کوئی تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو، کوئی معاشرے میں موجود شدت پسندی اور مذہبی رہنماؤں کو اور کسی اور کو کچھ اور نہیں سوجھتا تو اسکی تان بالاخر ضیاء الحق پر جا ٹوٹتی ہے

اس ساری بحث میں جو سب سے اہم بات یعنی ان تمام مسائل کی اصل وجہ کیا ہے اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یا ہونا چاہئے بالکل ہی غائب ہے

میرا اس مضمون لکھنے کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ تعلیمی نظام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کی جائے اور ہر شخص اس معاملے میں اپنا اپنا حل پیش کرے اور پھر اس پر ایک قومی بحث شروع ہو اور تمام پیش کردہ حلوں میں سے بہترین حل چن کر انکا نفاذ کیا جائے تاکہ ہم ہر سال کے امتحان کے نتائج کے موسم میں آئے اس باسی کڑھی کے ابال سے محفوظ رہیں

پاکستان اور برطانیہ میں تعلیمی نظام سے مستفید ہونے کے ذاتی تجربہ کی بنا پر میری یہ گزارشات ہیں

میٹرک اور ایف اس سی میں مضامین کو ایک خاص بندش میں ہی پڑھنے اور امتحان دینے پر پابندی کو فورا ختم کیا جائے ، یعنی صرف آرٹس اور سائنس کی تقسیم پر مشتمل مضامین کے مرکب یعنی کومبینیشن کی بندش کا خاتمہ. تعلیم کو صرف دو خانوں یعنی آرٹس و سائنس میں تقسیم کرکے ہم نے تعلیمی اچھوت پن پیدا کیا ہوا ہے اور مزید یہ کہ اگر کوئی طالب علم کسی سائنسی مضمون کو کسی آرٹس (ہیومینیٹیز) کے مضمون کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے اس انتخاب کا حق ہی نہیں دیا جاتا. ایف اس سی میں میری اپنی خواہش یہ تھی کہ میں میتھیمیٹکس کے مضمون کے ساتھ فلسفہ اور سیاسیات پڑھ سکوں لیکن یہ حق انتخاب نہ آج سے تیس سال پہلے تھا اور نہ ہی آج کسی طالبعلم کو میسر ہے

مضامین کو میٹرک اور ایف اس سی میں صرف سائنس اور آرٹس کے غیر لچکدار مرکب میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ایک تعلیمی اچھوت پن پیدا ہوگیا ہے جس میں سائنس پڑھنا تعلیمی برہمنیت اور ہیومنیٹیز کے مضامین کی تعلیم، تعلیمی شودرپن خیال کیا جانے لگا ہے، اس پر مزید یہ کام کیا گیا ہے کہ سائنس کے مضامین والوں کو تو آرٹس کی کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلے کا موقع فراہم کردیا گیا جبکہ ہیومنیٹیز والوں کو سائنس کی ڈگری میں داخلے کا کوئی موقع میسر نہیں

ایف اس سی میں صرف تین مضامین کو بنیادی قرار دیا جائے اور کسی بھی ڈگری پروگرام میں داخلہ کیلئے کم از کم دو متعلقہ بنیادی مضامین کی شرط لگا دی جائے اور صرف انہی متعلقہ مضامین میں اعلیٰ نمبر داخلے کی بنیادی شرط ہوں مثال کے طور پر اگر آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنی ہے تو اسکے لئے انگریزی زبان ، فلسفہ ، سیاسیات ، سماجیات ، نفسیات، انگریزی ادب، اردو ادب وغیرہ میں سے کوئی بھی دو بنیادی مضامین کا ہونا ضروری ہو

امتحانات میں بجائے نمبر دینے کے صرف گریڈ دئیے جائیں اور گریڈز کے بینڈ بنا دئیے جائیں، یعنی ٩٠ فیصد سے اوپر اے پلس ، پچاسی سے ٩٠ فیصد کے درمیان نمبر، اے گریڈ، اسی سے پچاسی فیصد کے درمیان ، بی پلس گریڈ، پچھتر سے اسی فیصد کے درمیان بی گریڈ، ستر سے پچھتر فیصد کے درمیان سی پلس گریڈ، پیسنٹھ سے ستر فیصد کے درمیان سی گریڈ  وغیرہ وغیرہ ، یہ سب گریڈنگ کا نظام مضمون میں حاصل کردہ نمبر پر ہی ہو اور بورڈ میں پوزیشن ہولڈر والی ڈرامہ بازی ختم کی جائے