Saturday, August 8, 2015

سیکولر اشرافیہ کی منافقت اور مولوی کا مقدمہ

چلیں جی ، آج اک اور سیکولر اور مولوی تعصب مخالف دوسرے الفاظ میں ملفوف اسلام مخالف بیانئے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں ، تیار ہیں سارے :)
حسن نثار ، یاسر پیرزادہ ،اور ان جیسے کئی ہم نوا اکثر یہ بات کرتےہیں کہ مولوی کو عورت کی ننگی ایڑھی تو نظر آ جاتی ہے لیکن معاشرے میں موجود کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، طبقاتی اونچ نیچ وغیرہ وغیرہ نظر نہیں آتی اور ان بارے بات نہیں کرتا یا دھیان نہیں دیتا
اسی طرح یہ بیانیہ کہ مولوی کو معاشرے میں جسمانی فحاشی تو نظر آتی ہے لیکن معاشی ناانصافی کی فحاشی نظر نہیں آتی وغیرہ وغیرہ
آئیں اس بیانئے کے تضادات دیکھیں
کہنے والے ، مذھب اور سیاست کو مکمل علیحدہ رکھنے کے قائل ہیں مولوی کی دنیاوی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہیں اور ہر وقت کی لفظی جگالی کرتے ہیں کہ مولویوں کو دنیاوی معاملات کا کیا پتا وہ تو کسی معاملے پر اکٹھےنہیں ہو سکتے وہ معاشرے میں تقسیم کےذمہ دار ہیں انکے پاس جدید مسائل کا حل نہیں
ایک طرف تو بنی سیکولران نے مولوی پر آغاز میں ہی اتنی بڑی چارج شیٹ لگا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور خود معصوم بن گئے کہ جیسے یہ سارے مسائل یعنی کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، جسمانی و جنسی زیادتیاں ، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی مولوی کے پیدا کردہ ہیں یا اسکے ریاست و وسائل ریاست پر قبضہ  کی وجہ سےہیں، اور وہ ان سب کا اکلوتا ذمہ وار ہے. وہی حکومت پر قابض ہے،بیوروکریسی پر قابض، زمینوں پر قابض ہے، آرمی کے جرنیل بھی مولوی ہیں جیسے میرے محلے کی مسجد کا مولوی ISI کا چیف بھی ہے ، ساتھ والے محلے کی مسجد کا مولوی سیکریٹری خارجہ ہے، اسکا مولوی چھوٹا بھائی وزیر خزانہ ہے

 اب خود غور و فکر کیجئے کہ اس بیانئے میں کتنے تضادات ہیں اور اسکے پھیلانے والے مولوی کو کسی با اختیار جگہ پر دیکھنے کے کتنے حق میں ہیں جب آپ مولوی کو کسی با اختیار و طاقتور جگہ پر دیکھنے کے قائل تو کیا سخت مخالف ہوں تو پھر آپ مولوی سے ان موضوعات پر رائے دینے یا اس بارے بات   کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے بارے کیوں کہتے ہو اور توقع کرتے ہو.
ایک طرف تو یہ کہ حکومتی معاملات کو مذھب کی بنا پر ہرگز نا چلایا جائے ، دوسری طرف مولوی سے توقع کہ نا صرف اس بارے رائے دے بلکہ معاشرہ بھی استوار کرے، بھائی لوگو ، حکومت ،عدلیہ ،پولیس ، قانون ، زمین، فوج ، سیاست سب کچھ آپ کے اختیار میں تعلیمی نصاب آپکے ہاتھ میں ، خزانے کی کنجیاں آپکے ہاتھ میں، بیرونی تعلقات و معاہدے آپکے ہاتھ میں، میڈیا آپکے ہاتھ ، انتظامیہ آپکے اختیار میں  ,معاشرے میں کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، جسمانی و جنسی زیادتیاں ، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی کے ذمہ وار تو آپ ہیں ،اور آپ چاہتے ہیں کہ آپکو کوئی الزام نا دے آپکا سارا گند مولوی صاف کرے اور آپکے گند کی ذمہ داری بھی لے لے اور اسکے باوجود وہ آپ سے گالیاں بھی کھائے ، آپ تو واقعی میں مہان ہیں

توجناب جب آپ مولوی سے اصلاح معاشرہ اور کرپشن، ملاوٹ ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی، طبقاتی اونچ نیچ، نا انصافی بارے بات کی توقع کرتے ہیں تو اختیار بھی دیں ہے پھر اسکی معاشرے کے ہر پہلو میں مداخلت پراپنی چونچ بھی بند رکھیں ، اگر یہ قبول نہیں تو اس سےکوئی توقع نا رکھیں اسےاپنا کام کرنےدیں جیسے آپ مختلف معاملات پر اپنی رائے دینے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں تو وہی حق ایک مولوی کو بھی ، اس سے یہ حق آپ چھین نہیں سکتے
 ہاں اگر وہ اپنی رائے سے لوگوں کو تشدد پر اکسا رہا ہے یا خود ان سب کاموم میں ملوث ہے تو قانون استعمال کیجئے لیکن آپ تو وہ بھی نہیں کریں گے کہ پیدائشی بزدل اور پھٹو ہیں
 اس ساری تمہید و بیان سے یہ مت سمجھا جائے کہ میں مولوی کی بلا مشروط حمایت میں تلا ہوا ہوں اور اس کے فکر و عمل میں کوئی عیب نہیں دیکھتا  میں مولوی کی ہرگز ہرگز بلا مشروط حمایت و وکالت نا تو کرتا ہوں اور نا ہی کروں گا لیکن ایک آئینہ دکھانا ضروری تھا کہ سب اختیار آپ کے ہاتھ میں اور آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں اور ساوی ساوتری بنیں اور خون میں لت پت لاشوں پر کھڑے ہو کر دعوی کریں کہ آپکے ہاتھ پر کوئی خون نہیں اور مولوی نے کسی کو تھپڑ ہی مارا ہو تو آپ اسکو راندہ درگاہ بنا دیں اصل میں آپکا بغض مولوی سے ہے بھی نہیں ، یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانا بھی ضروری ہے تو اپنی تمام حکومتی ، سیاسی ، انتظامی ، معاشی ناکامیوں، خصی پن  اور نامردی کا سارا الزام مولوی کو دے دو،
 آپ کا اصل غصہ تو اسلام کے ساتھ ہے ، آپکی نفس کی غلام سیکولر لبرل  تربیت چاہتی ہے کہ آپ سب کچھ لوٹ کھسوٹ لیں ، ظلم و ناانصافی کو قائم رکھیں جبکہ اسلام کا نفاذ آپکو یہ سب کرنے نہیں دے گا ، بزدل اتنے ہیں کہ کھل کر اسلام دشمنی کر نہیں سکتے . اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ضیاء الحق جیسا اسلام کو دھوکہ دینے والا بھی آپکو قبول کہ پھر اسکے ذریعہ اسلام پر الزام لگانا آسان ، مولوی کو بھی کچھ جگہ اسی لئے دیتے ہیں کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ اس پر ڈال سکیں
تو جناب آپ بتائیں پچھلے ستر سال میں آپ نے کیا معرکہ مارا ہے، کتنی تعلیم عام کی ہے ، کتنی صحت کی ضروریات عام کی ہیں، کتنا امن امان دیا ہے، معاشرے میں کتنا شعور عام کیا ہے ، عوام میں اپنے حقوق بارے آگاہی اور فرائض بارے کتنی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا ہے، لوگوں میں غلط رویوں و کاموں بارے کتنی معلومات عام کی ہیں، شہری ذمہ داریوں بارے کتنی مہمات چلائی ہیں ، معاشرے میں ہر طرح کے تعصبات کو کم کرنے یا ختم کرنے بارے ریاست کی طاقت کو کو کتنا موثر انداز میں استمعال کیا ہے. معاشرے میں گھٹن و شدت پسندی کو کم کرنے کیلئے ریاستی سطح پر کیا تیر مارے ہیں
  آپ نے سوائے الفاظ سے کھیلنے، مولوی کا ٹھٹھا و مذاق اڑانے ، لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے علاوہ کیا کیا ہے . آپکی بیاض میں ہے کیا
چند جھوٹی سچی کہانیوں کو بنیاد بنا کر مولوی کو بدنام کیجئے لیکن آپکو کسی وڈیرے ،جاگیردار، کسی صنعتکار ، کسی میڈیا سیٹھ کے ہاتھوں جنسی زیادتیاں اور لٹی عصمتیں نظر نہیں آئیں گی، مدرسوں میں جکڑے طلباء اور وہاں کی جنسی زیادتیاں نظر آتی ہیں (جس کی سخت ترین مذمت کرتا ہوں) لیکن جکڑے ہاری ، مزارع اور نجی جیلیں اور معاشرے میں ہوتی بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی و جسمانی زیادتیاں نظر نہیں آتیں

میرا خیال ہے کافی تضاد دکھا دیا ہے جوکہ اصل مقصد تھا اور اب اس کا اختتام کرتا ہوں کہ آئندہ سے یک طرفہ الزمات اور جھوٹ بھولنے سے پہلے غور کر لیجئے گا

Monday, August 3, 2015

قومی سیاست کی بلدیاتی سوچ



#PMLN اور #PPP کی طرف سے بلدیاتی نظام کی اب تک کی مخالفت اور نافذ نا کرنے پرکچھ تجزیہ ذہن میں آیا ہے،جوابی تبصرہ سے پہلے پورا پڑھ لیجئے گا
قیام پاکستان سے لیکر اگلے 12-14 سال پاکستان کی سیاست کچھ حد تک نظریاتی تھی پاکستان کی سیاست 1960 کی دھائی سے بالکل غیر نظریاتی موڑ مڑ گئی اور اس غیر نظریاتی سیاست کا سب سے بڑا اثر سیاسی جماعتوں اور انکے ووٹ لینے کی بنیاد پر پڑا.
ایوب خان کے زمانے میں BD نظام نے عوامی نمائندوں کو اور انکی سوچ کو محض پرمٹ ، نالیاں اور گلیاں پکی کرنے کی حد تک محدود کر دیا. وہ عوامی نمائندے جنہوں نے پورے ملک کیلئے خارجہ ،معاشی ،تعلیمی معاشرتی ، انتظامی ، عسکری، حکمت عملی بنانی تھی ان کی سوچ اور عمل کی وسعت محلے کی حد تک ہی رہ گئی. نا صرف انکی بلکہ عوام کی ان نمائندوں سے توقعات بھی پہلے تو انکی نالیاں ، گلیاں ، سڑکیں ، سکول کی چار دیواری وغیرہ وغیرہ بنوانے تک محدود ہوئی اسکے بعد صرف رہ ہی یہ گئی کہ کون ہمارے یہ کام کرواتا ہے اور اسی بنیاد پر ہمارا ووٹ اسکو ملے گا. معاشرے میں اس سوچ کا پیدا ہونا فوجی، سیاسی اور بیوروکریسی اشرافیہ کیلئے ایک نعمت    ثابت ہوا اور انہوں نے بھی یہ جان لیا کہ عوام کی سیاسی سوچ کو گلی محلے اور نالیاں پکی کروانے تک محدود کرنے کے بے شمار سیاسی و سٹریٹجک فائدے ہیں . اس سوچ سے عوام کی فکری گہرائی و گیرائی صرف مقامی معاملات سے اوپر یا باہر کبھی نہیں جاتی جوکہ انکو بیوقوف بنانے کیلئے بہت ضروری ہے
بھٹو کے زمانے اور بعد میں ضیاء الحق کے زمانے میں اس سوچ نے پستی کی ایک مزید کھائی دیکھی، اس دور میں پیدا ہونے والی سیاسی قیادت نے بھی اس سوچ کو نا صرف مزید بڑھاوا دیا بلکہ ان کا سارا سیاسی فہم اور سیاسی فکر ہی اس سوچ پر پروان چڑھی کہ سیاست صرف گلی محلے کے ترقیاتی کام اور کچھ اور بڑے ترقیاتی کام کرنے کا نام ہے، انکے نزدیک چونکہ ووٹ صرف ترقیاتی کاموں سے ملتے ہیں اور ان ترقیاتی کاموں کیلئے معاشرے میں کسی بھی فکری و نظریاتی سوچ کا ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا تو اسکا معاشرے میں پھیلاؤ یا جوت لگانا کار بیکار ہے .
اس سیاسی قیادت کے نزدیک اصل مقصد سیاسی طاقت و حکومت کا حصول ہے اور اسکا انکے نزدیک صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے، محلوں ، شہروں وغیرہ کے ترقیاتی کام ،
اب اگر پاکستان میں بلدیاتی نظام آ جائے تو یہ تمام ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں اور ان میں منتخب شدہ نمائندوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے، یہ صورتحال کسی بھی ایسی "سیاسی " قیادت کیلئے ڈراونے خواب سے کم نہیں جس کے نزدیک سیاست صرف گلی محلے شہر کے ترقیاتی کام کا نام ہو.
انکی سوچ و فہم میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ سیاست ، سیاسی طاقت اور حکومت میں آنے کیلئے کچھ نظریاتی و فکری بنیاد بھی ہوتی ہے اور اسکی بنیاد پر قومی و ملکی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں ، قوم و ملک کی فکری و نظریاتی تعمیر ہوتی ہے اور وہ اسکے ذمہ دار ہوتے ہیں، معاشرے کو ہر طرح کے فکری نظریاتی ،جغرافیائی خطرات سے بچانا ہوتا ہے ، شدت پسندی اور گھٹن کا قلع قمہ کرنا ہوتا ہے . لیکن موجودہ سیاسی قیادت تو صرف اینٹ گارے کی سوچ سے باہر ہی نہیں نکل سکتی کہ انکے نزدیک اگر قومی سطح کی سیاست اور سیاستدانوں سے گلی محلے شہر کا ترقیاتی کام لے لیا گیا تو وہ کریں گے کیا،
بلدیاتی نظام کے بارے ہر طرح کی رکاوٹ ، ہچکچاہٹ ، کے پیچھے اصل میں یہ سوچ ہے. آپ بلدیاتی نظام کو نافذ نا کرنے بارے جتنی مرضی سیلاب یا دوسری رکاوٹوں کی دلیلیں دے لیں ، جتنی مرضی تاویلیں لے آئیں کہ حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں، فلاں مسئلہ ہے یا ڈھمکاں مسئلہ ہے ، سب آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے ،
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی سیاست اور سیاسی فکری و نظریاتی گہرائی و گیرائی صرف گلی محلے کی نالیاں اور سڑکیں پکی کرنے تک ہے اور آپ اس ذہنی حصار سے باہر نکل نہیں سکتے،
موجودہ سیاسی قیادت کا ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر سیاست سے تعلق والا معاملہ ، بندریا اور اسکے مرے ہوئے بچے کو سینے سے چمٹائے رکھے جانے والا ہے ، جب تک کوئی اس بندریا کو یقین نہیں دلا دیتا کہ بچہ مر چکا ہے اور بدبو مار رہا ہے وہ بچے کو نہیں چھوڑے گی ، یہی معاملہ ہمارے #PMLN اور #PPP کی قومی سیاسی قیادت کے ساتھ ہے کہ ترقیاتی کاموں کے مرے ہوئے بچے کو سینے سے لگائے سڑکوں ، پلوں ، نالیوں کی تعمیر میں مصروف ہیں
 #PPP یا #PMLN کی طرف سے کسی واضح خارجہ ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی، انتظامی ، عسکری وغیرہ حکمت عملی پیدا نا کرنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے محض ترقیاتی کاموں کی سیاست سے ہمارے قومی سیاستدانوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت کو روکنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے کہ وہ اپنا سارا وقت ، توانائیاں اور سوچ بچار ان منصوبوں کے آغاز اور انکی مانیٹرنگ میں الجھے رہتے ہیں.
خدا را ، اپنے آپ کو قومی سطح کا سیاسی رہنما صرف سمجھئے ہی نہیں ، بن کر بھی دکھائیے اور اپنی سیاسی سوچ ، فکر و فہم کو وسیع کیجئے اور گلی محلے شہر کے ترقیاتی کاموں کو بلدیاتی نظام و اداروں کے حوالے کر کے قومی سطح پر سیاسی طاقت اور حکومت میں آنے کا نیا بیانیہ دیجئے اور صحیح فکری و نظریاتی سیاسی سوچ کے معمار بنئیے