Tuesday, October 3, 2017

گڈی کچے تے لاہ لوؤ ، میاں صاحب


عمرعزیز کا آدھے سے زیادہ حصہ بیرون ملک گزارنے کے بعد تین مہینے پہلے پاکستان مستقل واپسی اختیار کرلی، جب ملک سے باہر گیا تو بطور طالبعلم اینی اوائل جوانی میں گیا تھا اور اب سر میں چاندی اترنا شروع ہو گئی ہے، یورپ میں اتنا عرصہ رہ کر زیادہ تر عادتیں اور رویے یورپ والے ہوگئے ہیں جن میں خاص طور پر ڈرائیونگ کا انداز، رویہ اور عادت پختہ ہو چکی ہے ، یہ کوئی بری عادت یا رویہ نہیں ہے بلکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری ، باحفاظت ڈرائیونگ ، اپنے گرد و پیش پر نظر اور اسکے ساتھ ساتھ سڑک پر اپنے اور دوسرے ڈرائیور کے حقوق و فرائض بارے آگاہی اور اس پر اصرار بھی ہے
ہر دو چار سال بعد پاکستان کا چکر لگتا تھا تو میرے لئے گاڑی چلانا کافی ناخوشگوار تجربہ ہوا کرتا تھا اور اسلئے یا تو کسی مقامی ڈرائیور کی خدمات حاصل کرلیتا تھا یا میرا چھوٹا بھائی گاڑی چلاتا تھا ، ویسے بھی پاکستان میں قیام دو تین ہفتوں کا ہوتا تھا تو کم ہی ادھر ادھر کا سفر ہوتا تھا اور ملنے ملانے میں ہی چھٹیاں ختم ہوجاتی تھیں اور واپس بیرون ملک چلے جاتے تھے    
اس بار چونکہ پاکستان مستقل واپسی کرلی تھی اور پاکستان آئے ایک مہینہ ہو چلا تھا اور مجھے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ضلع جھنگ میں اپنے فارم پر جانا تھا ، عموما گاڑی چھوٹا بھائی چلاتا ہے لیکن اس دن میں نے کہا کہ آج گاڑی میں چلاتا ہوں، نئے بنے فیصل آباد-گوجرہ موٹر وے کا چراغ آباد انٹر چینج لیکر فیصل آباد-جھنگ  روڈ پر گاڑی ڈال لی ،موٹر وے کا سفر تو میرے لئے پیس آف کیک والا معاملہ تھا لیکن جونہی فیصل آباد - جھنگ روڈ پر آیا یہاں رولز آف دا گیم ہی کچھ اور تھے اور ٹریفک و ڈرائیونگ کے کسی اصول ضابطے اور قانون والی بات نہ تھی  اس دوران کئی  گاڑیوں جن میں کاریں ، ہائی ایس وینز اور ایک دو بسیں بھی تھیں نے نہایت ہی بیہودہ اور خطرناک انداز میں مجھے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے اوور ٹیک کیا ، وجہ یہ تھی کہ میرے آگے ایک دو گاڑیاں تھیں اور میں اپنی یورپی ڈرائیونگ عادت کے تحت محفوظ فاصلے اور باحفاظت اوور ٹیکنگ کیلئے صبر اور انتظار سے کام لے رہا تھا . میری اس عادت سے چھوٹا بھائی بھی کچھ بے چینی اور بیزاری کا شکار تھا . خیر میں اپنے تئیں غیرضروری اور جان لیوا رسک لینے کو ہرگز تیار نہ تھا 
ابھی چند منٹ مزید گزرے ہونگے کہ میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک ٹرک نہایت ہی خطرناک انداز میں دوسرے ٹرک کو اوورٹیک کرتا بالکل میرے سامنے آ رہا تھا ، اب میں اپنی یورپی ڈرائیونگ عادت کے تحت اس زعم میں ہوں کہ وہ مجھے سامنے آتا دیکھ کر رک جائے گا کہ راستہ تو ہے نہیں ورنہ سیدھا مجھ سے ٹکرائے گا ، لیکن ٹرک والے نے کسی قسم کی کوئی شرم حیا ، اصول  ضابطے قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سیدھا میری طرف آنا جاری رکھا اور میں نے گاڑی کا ایک ٹائر کچے پر اتار کر بمشکل اپنی ، اپنے بھائی کی جان بچائی اور گاڑی کو حادثے سے بچایا 
میں نے گاڑی روک لی لیکن وہ ٹرک والا بغیر کسی بھی قسم کی پشیمانی یا شرم اور رکے بغیر، اوورٹیک کرکے سیدھا چلتا گیا ، میں اب ٹرک والے اور اسکے خاندان کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا اور اس بات پر سخت پیچ تاب کھا رہا تھا کہ کیسا جاہل ، گھٹیا اور جانور نما انسان ہے جسے نہ اپنی اور نہ کسی اور کی جان مال کی پرواہ ہے اور جو اپنی لین چھوڑ کر زبردستی بغیر کسی اصول ضابطے اور حق کے میرے والی لین میں آ گھسا تھا اور مجھے سڑک سے اترنے اور رکنے پر مجبور کیا
میرا چھوٹا بھائی جو اب تک صبر سے سب کچھ برداشت کرتا آیا تھا ، پھٹ پڑا اور کہنے لگا کہ جناب یہ پاکستان ہے یہاں یورپ والی ڈرائیونگ اور اصول ضابطے اور حقوق نہیں چلتے یہاں پاکستان کے اصول ضابطے و رویے چلتے ہیں اور ہاں آپ نے ٹرک کو سامنے آتے دیکھ کر خود گاڑی کچے پر کیوں نہ اتار لی تاکہ ٹرک والے سے کسی تصادم کا خطرہ ہی نہ ہوتا اور ہم اسکو راستہ دیکر خود محفوظ رہتے اور اتنی ٹینشن بھی نہ رہتی ، دوسرے الفاظ میں ، سامنے توں  بدمست جاہل ٹرک ڈرائیور نوں ویکھ کے آپے گڈی کچے تے لاہ لئی دی جے تے موقع ولاہ جائی دا جے 
میاں صاحب دی موجودہ صورتحال نوں ویکھ کہ ایہہ واقعہ یاد آگیا تے میاں صاحب لئی مخلصانہ مشورہ ایہو جے کہ میاں صاحب ، گڈی کچے تے لاہ لوؤ ورنہ بچنا ککھ نئیں جے              

Friday, August 18, 2017

تعلیمی اچھوت پن



آپ میں سے اکثر نے یہ داستان پڑھی یا سنی ہوگی کہ پرانے وقتوں میں اگر کوئی شودر، ہندوؤں کی مذہبی کتاب کہیں پڑھی جارہی ہوتی اور وہ سن لیتا تھا تو اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیتے تھے 
اس داستان کی اصلیت بارے تو یہی کہوں گا کہ شاید کوئی اکا دکا واقعہ ہوا ہو تو ہو ورنہ ہمارے لوگوں کی ہندوؤں کو بدنام کرنے کی داستانیں ہیں 
میرا اصل موضوع ہندو مذھب یا اس بارے من گھڑت داستانیں نہیں ہے ، اصل موضوع کچھ اور ہے ، اس داستان بارے جب بھی میں نے غور کیا تو مجھے اس میں صرف ایک ہی پہلو نظر آیا کہ طاقتور طبقات خاص طور پر برہمن نہیں چاہتے تھے کہ کمزور اور پسے ہوئے طبقات کسی قسم کی تعلیم اور چاہے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو ، تک رسائی حاصل کریں، انکو اصل خطرہ یہ تھا کہ علم حاصل کرکے کمزور اور پسماندہ طبقات کہیں انکو چیلنج نہ کریں اور انکی برتری اور اختیار ختم نہ ہوجائے 
اگر ہم پاکستان میں موجودہ تعلیم اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کی صورتحال کو دیکھیں تو اج بھی یہی صورتحال ہے ، اس جدید زمانے میں غریب، پسماندہ اور کمزور طبقات کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ تو نہیں ڈالا جاتا البتہ انکی نسلوں کو تعلیم کی روشنی سے دور رکھنے کا پورا پورا بندوبست ہے 
کہنے کو تو کسی بھی قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر کوئی سماجی ، مذہبی ، قانونی یا آئینی پابندی نہیں ہے اور آپ امیر ہوں یا غریب ، طاقتور ہوں یا کمزور ، آپ کسی بھی تعلیم کو بظاہر اپنی محنت و صلاحیت کی بنا پر حاصل کر سکتے ہیں اور معاشرے میں پھیلا تصور بھی یہی ہے کہ اگر آپ اپنی مالی و سماجی حالت بہتر کرنا چاہتے ہیں اور  چاہتے ہیں کہ آپکی اگلی نسلیں ایک اچھے مستقبل کی حامل ہوں اور آپ صدیوں اور ازلوں کی سماجی ، معاشرتی اونچ نیچ اور ناانصافیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تعلیم ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر آپ یہ سب حاصل کر سکتے ہیں 
یہ خیال یا نظریہ کہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم آپکو سماجی و مالی ترقی عطا کرے گی نوے کی دھائی کے وسط یا اسکے اختتام تک تو شاید درست تھا لیکن پچھلے پندرہ بیس سال میں تعلیمی میدان میں ہوئی تبدیلیوں جس میں خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں کا کھمبیوں کی طرح اگ آنا اور انکا فروغ ایک ایسی بد دعا کے طور پر آیا ہے کہ غریب اور کمزور طبقات ایک بار پھر سے تعلیمی اچھوت پن کا شکار ہوگئے ہیں 
شروع شروع میں تو سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں، پھر بھی غریب اور کمزور طبقات کے لوگوں کی مالی دسترس میں تھیں کہ انکے تعلیمی اخراجات کسی نہ کسی طور پورے ہوجاتے تھے اور غریب ، پسماندہ اور کمزور طبقات کیلئے تعلیم کے ذریعہ اپنی سماجی و مالی حالت کے سدھار کی امید و روشنی کی کرن باقی تھی . لیکن پچھلے دس سال سے یہ امید کی کرن بھی ایک بھیانک اور ڈراونے خواب میں بدل چکی ہے 
نجی یونیورسٹیوں کے لاکھوں روپے سال کے تعلیمی اخراجات کو تو چھوڑئیے کہ وہ تو غریب ، پسماندہ اور کمزور طبقات کی کبھی بھی دسترس میں نہ تھے ، سرکاری کالج اور خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیوں کی ماہانہ تعلیمی فیس کم از کم سات آٹھ ہزار روپے ہیں ، ذرا تصور کیجئے کہ ایک ریڑھی لگانے والے ، کسی دوکان پر لگے سیلز مین ، کسی بینک میں کھڑے گارڈ ، کسی روزانہ دیہاڑی پر لگے مزدور ، جن کی کل ماہانہ تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپیہ ہوتی ہے کو اپنے دو تین بچے یونیورسٹی پڑھانا پڑھ جائیں تو وہ کیسے پڑھائے اور کیسے اپنا گزارا کرے 
لوگ یہ استدلال لیکر آ جاتے ہیں کہ بچے سکالر شپ حاصل کرلیں  تو بھائی میرے ، ہر بچہ سکالر شپ نہیں لے سکتا اور اسکے علاوہ کیا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا صرف امیر اور سکالر شپ حاصل کرنے والے کا حق ہے ، کیا ایک اوسط ذہن اور اہلیت والے بچے /بچی کا کوئی حق نہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے 
اصل بات یہی ہے کہ ہماری اشرافیہ جس کے بچے تو مہنگے نجی تعلیمی اداروں یا بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں نہیں چاہتی کہ پسماندہ ، غریب اور کمزور طبقات کے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی سماجی و مالی حالت بہتر کرسکیں اور انکے اقتدار ، اختیار اور برتری کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکیں. ایک طرف تو یہ نعرے اور بڑکیں کہ تعلیم سب کا حق ہے اور سب کو سستی اور قابل دسترس تعلیم دینا ہماری پالیسی ہے ،سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انکے اخراجات کے نام پر فیسوں کا بڑھانا کہ وہ پسماندہ طبقات کی دسترس سے باہر ہوجائیں بھی اشرافیہ کی چال ہے کہ عام عوام تعلیمی اچھوت ہی رہیں اور کبھی انکی برابری نہ کر پائیں
تو جناب سب اس بات کی آواز اٹھائیں کہ اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں خاص طور پر یونیورسٹیوں میں ماہانہ فیس زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپیہ ہو اور اس تعلیمی 
اچھوت پن کو فوری ختم کیا جائے
شاہ برہمن  
              

Monday, May 22, 2017

سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیم حکمت عملی

جس طرح چار  یا   پانچ پرتوں والی سیکوریٹی ہوتی ہے اسی طرح پاکستانی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیائی حکمت عملی ہوتی ہے صرف ایک چھوٹی
سی  مرکزی کور سوشل میڈیائی ٹیم ہوتی ہے جس کو اون کیا 
جاتا ہے ، اس کے گرد 

  *   ترکش جانثار
* رضا کار 
* پرائی شادی میں بیگانے عبداللہ
 اور
محض تالیاں پیٹنے والے تماش بینوں کے جتھے ہوتےہیں

 یہ سارا تام جھام ، اپنی اصل سوشل میڈیائی ٹیم اور غلط کاریوں کو چھپانے کیلئے ہوتا ہے

اس سارے   نظام میں سب سے قابل رحم  تالیاں پیٹنے والے تماش بین اور عبداللہ بیگانے ہوتے ہیں جو محض نگاہ التفات کے بھوکے ہوتے ہیں اور جب کبھی کبھار مل جاتی ہے تو تالیاں پیٹ پیٹ کر اور ناچ ناچ کر اپنے آپ کو زخمی کر لیتے ہیں ، انکی نگاہ التفات کی بھیک مخالفوں پر خواہ مخواہ گالیاں بکنے اور بھونکنے کی مرہون منت ہوتی ہے

جہاں تک رضاکاروں کا تعلق ہے تو یہ اپنے آپ کو تھوڑا
 برتر اور نظریاتی سمجھتے ہیں اور اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم یہ کام رضاکارانہ کرتے ہیں اور پیڈ کارکن نہیں ہیں المیہ یہ ہے کہ انہی میں سب سے بیہودہ اور گھٹیا  لوگ پائےجاتےہیں ،یہ مخالفوں کی ماں بہن بیٹی کی عزت تار تارکرنا اپنا خدائی حق اورنظریاتی فرض سمجھتے ہیں اور اسپر اپنا سینہ فخر سےپیٹتے ہیں انہی رضاکاروں میں کچھ سلجھے ہوئے ، کچھ نیم نظریاتی ، کچھ مبہم نظریاتی ، کچھ شخصی نظریاتی ، کچھ مخالف ضدی ، کچھ ذاتی پسند نظریاتی کچھ مفاداتی ، کچھ گروہی ، کچھ دوستی الغرض طیف یعنی سپیکٹرم کافی وسیع ہے ان میں گالیوں والے رضاکاروں کی کور سوشل میڈیائی ٹیم اور قیادت کی طرف سے پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور انہیں ہلا شیری بھی دی جاتی ہے کہ مخالفوں پر چڑھ دوڑو چالاکی اور مکاری یہ ہے کہ جونہی انکی بیہودگی ، گالیوں ، بدزبانیوں کی وجہ سے نام نہاد نیک نامی پر حرف آتا ہے فورا کہہ دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا ہماری سوشل میڈیا ٹیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم صرف اپنے سوشل میڈیا ٹیم کے کارکنان کے رویہ کے ذمہ دار ہیں ان رضا کاروں میں آپسی لڑائی جھگڑے اور پھڈےبھی اکثر ہوتے اور قیادت رومن اکھاڑے میں بیٹھے حکمرانوں کی طرح ان سے محظوظ بھی ہوتی ہے کہ چلو یہ لوگ کسی آرے تے لگے نیں ان رضاکاروں کو وقتا فوقتا قیادت ملنے کیلئے بھی بلا لیتی ہے ، وفاداری کے سرٹیفکیٹ بھی عطا کردیتی ہے ، فنکشنز میں بھی بلالیا جاتا ہے اور یہ اس پر ہی عقیدت سے ادھموئے ہو کر پہلے سے زیادہ بیہودگی والی زبان استعمال کرنے والے بن جاتے ہیں

اسکے بعد آتے ہیں ترکش جانثار،   یہ وہ لوگ ہیں جو اندھے
 حمایتی ہوتے ہیں اور ہر وقت اس نعرے کی عملی شکل ہوتے ہیں کہ فلاں تیرا اک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا ان لوگوں کی زندگی صرف اور صرف اپنی قیادت کے ہر کام کی تعریف کرنا چاہے برا ہی کیوں نہ ہو اور مخالفوں کے ہر کام میں نقص نکالنا چاہے کتنا اچھا ہی نہ ہو ، ہوتا ہے یہ جانثار صرف جان دینا جانتے ہیں اور سوشل میڈیائی جنگ میں اگر کام بھی آ جائیں تو اسکو عین سعادت سمجھتے ہیں ان جانثاروں کو قیادت براہ راست تو نہیں لیکن کئی دوسرے طریقوں سے مفادات بہم پہنچاتی ہے اور یہ جانثاران کبھی کھل کر اسکا تذکرہ بھی نہیں کرتے ان جانثاران کی وجہ سے اگر قیادت پر کوئی حرف آتا ہے تو انکی قربانی بھی دےدی جاتی ہے انکی سر عام سرزنش بھی کردی جاتی ہے اور یہ برا بھی نہیں مناتےکہ انکی زندگی کا مقصد ہی جان نثاری ہوتا ہے

جانثار بھی چونکہ باقاعدہ کسی ٹیم کا حصہ نہیں ہوتے تو انکی
 سوشل میڈیائی حرکات کو بھی انکی ذاتی حرکت قرار دیکر ہاتھ دھو لئے جاتے ہیں

اب آتے ہے سوشل میڈیا اصلی ٹیم کی طرف ان میں بھی ایک
 سے زائد طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ پیڈ کارکن اور کچھ جماعتی وابستگی والے پیڈ کارکن تو وہ ہیں جنہیں جو ہدایات ملتی ہے وہ صرف انہی ہدایات کو فالو کرتے ہیں اور اسکے مطابق سوشل میڈیا کو متحرک کرتے ہیں

جو جماعتی وابستگی والے سوشل میڈیا ٹیم کے اراکین ہیں
 لیکن پیڈ نہیں ہیں وہ جماعتی پالیسی فالو کرتے ہیں لیکن سر عام اختلاف کا حق
انہیں بھی نہیں ملتا ، اگر کریں تو سرزنش یا سوشل میڈیا ٹیم 
سےبرطرفی تک نوبت  پہنچ جاتی ہے


جب پہلی چار پرتیں موجود ہوں تو کیا ضرورت بدنامی مول
 لینے کی

Saturday, April 22, 2017

عوام کی موجودہ سیاسی حمایت کا مخمصہ


عمران خان کی کافی ساری حمایت  اس وجہ سے بھی ہے کہ نواز شریف کے مقابلے میں صرف وہی
 ایک متبادل میسر ہے، پیپلز پارٹی میں جناب زرداری کی حرکتوں اور حکومتی کارناموں کی بنا پر کوئی بھی سلجھا ہوا بندہ انکی طرف دیکھنے کو بھی تیار نہیں
اب چونکہ نواز شریف کے مقابل سوائے عمران خان کے اور کوئی نہیں تو لوگ مجبوری کی وجہ سے
اسکے ساتھ ہیں
یہ وہی مخمصہ ہے جو ہمارے نوجوان طبقہ کو درپیش ہے، ستر اسی کی دھائی تک  امریکہ اور دوسری استعماری طاقتوں کے خلاف نوجوان طبقے اور خاص طور پر طالبعلموں کو سوشلسٹ تحریک اپنی طرف استعمار مخالف بیانئے کی وجہ سے کھینچ لیتی تھی اور اس میں بہت کشش تھی، اسکے علاوہ اسوقت سرمایہ داری کیخلاف اور کیوبا، کوریا اور ویتنام وغیرہ میں امریکی جنگوں اور مظالم کی وجہ سے سوشلسٹ بیانئے اور نظریات میں بہت طاقتور کشش پائی جاتی تھی اور نوجوان طبقہ کی توانائی کو استعمار مخالف جدوجہد میں استعمال بھی ہوتی تھی
افغانستان میں روس کی شکست اور اسکے بعد روس کے انہدام کے بعد سوشلسٹ نظریہ بری طرح پٹ گیا اور اس میں کوئی کشش باقی نہ رہی . اس سے پیدا ہونے والے خلاء کا اسلامی شدت پسند گروہوں نے فائدہ اٹھایا اور نوجوان طبقے اور طالبعلموں کو امریکی استعمار کے خلاف اپنی جدوجہد کو استعمار مخالف بیانیہ بناکر اسکی نہایت پرکشش  پیکجنگ کی. افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے مسلمان نوجوان طبقے اور طالبعلموں کو اسلامی شدت پسند گروہوں میں شامل ہونے کیلئے خود بخود ایک راہ دکھا دی اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل صرف اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی میں ہی دیکھ پائے اور اسکا حصہ بنتے گئے
دوسرے الفاظ میں امریکی قیادت میں مغربی سرمایہ داریت کے خلاف متبادل صرف اسلامی شدت پسندی و دہشت گردی میں نظر آیا اور دوسرا اور کوئی نظریاتی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شدت پسند بیانئے سے متاثر ہوئی اور اسکو قبول کرتی گئی
اب واپس آتے ہیں قومی سیاسی صورتحال کی طرف، نواز شریف کی سیاست کے خلاف عوام کو پیپلز پارٹی کی بری طرح ناکامی کے بعد متبادل صرف اور صرف عمران خان کی شدت پسندی والی سیاست میں نظر آیا اور لوگ اسکا شکار ہوتے گئے. لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نے عمران کے اس بیانئے کہ ن لیگ ایک لوٹ مار والی جماعت ہے اور شریف اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں میں کشش محسوس کرتے ہوئے عمران کا ساتھ دیا اور ان لوگوں میں کافی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو پرانے جیالے یا تاریخی طور پر دائیں بازو کے مخالف رہے ہیں.
بات کے نتیجے کے طور پر کہوں گا کہ جب بھی نواز شریف کا کوئی قابل عمل متبادل نظر آیا چاہے اسکا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے ، بیشمار لوگ ن لیگ سے اور پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر اس 
متبادل کی قیادت کو قبول کرلیں گے

Wednesday, April 12, 2017

سرمایہ داری نظام -- چالبازی تیرا نام

آپ نے اکثر خبروں میں پڑھا ہوگا کہ

امریکی حکومت نے فلاں بینک کو  اپنے گاہکوں کو کوئی خدمت یا پراڈکٹ غلط طور پر یا 
غلط معلومات کی بنا پر بیچنے پر اتنے سو ملین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں سافٹ وئیر کمپنی کو غیر مسابقتی رویہ اپنانے پر اتنے سو ملین 
ڈالر کا جرمانہ کردیا

یورپی یونین نے مائیکروسافٹ /اوریکل /فیس بک پر فلاں فلاں قانون کی خلاف ورزی پر
 اتنے بلین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں آئل کمپنی کو ماحولیاتی آلودگی پھیلانے پر اتنے بلین ڈالر کا جرمانہ کردیا

برطانوی حکومت نے اپنے خریداروں کو اوور چارجنگ پر فلاں گیس یا ٹیلیفون کمپنی کو
 اتنے ملین ڈالر کا جرمانہ کردیا

امریکی حکومت نے فلاں غیر ملکی کمپنی کے تمام اثاثے قبضہ میں لے لئے

اس طرح کی خبریں ہم آئے روز سنتے اور پڑھتے ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ
 جو سارا جرمانہ اکٹھا ہوتا ہے جو ہر سال کئی بلین ڈالر کا ہوتا ہے ، وہ کہاں جاتا ہے ، اسکا کیا بنتا ہے ، کیا وہ متاثرہ لوگوں تک پہنچتا ہے ، کتنا پہنچتا ہے ، کتنی دیر میں پہنچتا ہے اور کس صورت میں پہنچتا ہے

میں بھی ان سوالات پر اکثر غور کرتا رہتا تھا اور کرتا رہتا ہوں ، پھر سوچا اس بارے تھوڑی تحقیق کیوں نہ کی جائے. جب اس معاملے پی تحقیق و کھوج لگانے کی کوشش کی تو سب سے پہلا حیرت کا جھٹکا جو لگا وہ کل اعداد و شمار بارے حکومت یا کسی بھی متعلقہ حکومتی ادارے کا ان اعدادوشمار کو کسی ایک جگہ پر اکٹھا نہ کرنا تھا. یعنی مجھے کوئی ایسی حکومتی ویب سائٹ یا حکومتی دستاویز نہ ملی جس میں ہر سال کے ان جرمانوں کی کل تعداد کا ذکر ہو اور انکی وصولی کا طریقہ کار موجود ہو اور اس بات کی تفصیل بھی یہ ساری رقم جو اکٹھی ہوتی ہے اسکا کیا کیا جاتا ہے ، اگر کچھ معلومات موجود بھی ہیں تو وہ بہت مبہم ہیں،متاثرہ لوگوں تک جرمانے کی اس رقم کا ایک معمولی حصہ مختص کیا جاتا ہے اور اسکا طریقہ وصولی بھی اتنا لمبا اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس میں کئی سال لگ جاتے ہیں

اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ معاملہ مالیاتی اداروں کو بھاری جرمانے کا ہے، اگر
 ہم اعدادوشمار کو دیکھیں تو شائد ہی ایسا کوئی مالیاتی ادارہ ہے جس کو بھاری جرمانہ کیا گیا ہو اور اسکے حصص کی قیمت میں کوئی خاص فرق پڑا ہو، اگر جرمانے کے اعلان کے بعد حصص کی قیمت میں کوئی معمولی کمی ہوئی بھی  ہو تو چند ہفتوں بعد حصص میں وہ کمی بھی دور ہو گئی. اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کئی مالیاتی ادارے جن کو آٹھ دس بلین ڈالر کے بھاری جرمانے کا اعلان کیا گیا  تو کیا وجہ کہ انکے حصص میں معمولی سی کمی بھی نہ ہوئی بلکہ محاورے کی طرح بطخ کے پروں پر  پانی جتنا بھی اثر نہ ہوا

نظام سرمایہ داری میں جو اصل قوت نظام کو چلا رہی ہے تو وہ یہ مالیاتی ادارے ہی ہوتے
 ہیں اور ان کے ساتھ بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نظام کو چلانے والی قوت ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار لے. اس ضمن میں  ایک مزید  بات جو معلوم ہوئی  کہ جب بھی کسی جرمانے کا  اعلان کیا گیا  تو ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے یہ جرمانہ کئی سال کی تفتیش کے بعد کیا، یعنی کئی سال تک اس غلط کام یا قانون کی خلاف ورزی کو جاری رہنے دیا گیا. کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ محلے کی پولیس کو کسی چور کی مسلسل چوریوں کا علم ہو اور وہ اسکو کئی سال تک چوریاں کرتے رہنے دے

تو جناب ، جب اس سلسلہ میں مزید کھوج لگائی اور ادھر ادھر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو جو دھندلی سی تصویر بنی وہ یوں کہ سرمایہ دار حکومتیں(امریکہ و یورپ ) ان جرمانوں کو ایک خصوصی فنڈ میں ڈال دیتی ہیں جس کا استعمال بقول ان حکومتوں کے نئی قائم شدہ کمپنیوں اور مستقبل کی ٹیکنالوجی پر قائم ہونے وائی کمپنیوں کی مالی مدد کیلئے کیا جاتا ہے. جب مزید کھوج لگایا گیا تو پتہ چلا کہ ان تمام نئی کمپنیوں کو قائم کرنے والے وہی مالیاتی ادارے اور بین الالقوامی کمپنیاں ہیں جو اس نظام سرمایہ داری کو چلا رہی ہیں اور اکثر قانون کی خلاف ورزی میں ملوث رہتی ہیں اور انہیں یہ بھاری جرمانے ہوتے رہتے ہیں . دوسرے الفاظ میں یہ سارے جرمانے مالیاتی اداروں و بین الاقوامی کمپنیوں سے ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے ہاتھ سے انہیں ہی واپس کردئیے جاتے ہیں ، عوام اسی بات پر خوش رہتے ہیں کہ انکی حکومتیں مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی اداروں سے قانون کی پابندی کرواتے ہیں اور نہ کرنے پر بھاری جرمانے کرتی ہیں لیکن عوام ایک بار پھر بیوقوف بن جاتی ہے

اگر اس ساری بات کو گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ ایک ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس
 ہے جو عوام پر لگایا جاتا ہے. یعنی حکومت براہ راست تو عوام کی جیب سے پیسہ نہیں نکالتی بلکہ مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کو عوام کی لوٹ مار کی کھلی اجازت دیتی ہیں یا اس پر آنکھیں موند کر پڑی رہتی ہے اور جب عوامی شوروغوغا بلند ہوتا ہے یا ان اداروں کی چوری سرعام پکڑی جاتی ہے تو حکومتیں عوام کو چپ کروانے کیلئے ان پر جرمانے کردیتی ہیں لیکن جرمانے سے حاصل شدہ رقم ایک اور طریقہ اختیار کرکے انہی کمپنیوں/اداروں کو واپس کردی جاتی ہے، ہاں عوام کی لوٹ مار کے سلسلے میں ہونے والا تھوڑا بہت نقصان بھی پورا کردیا جاتا لیکن کبھی بھی اتنا جرمانہ نہیں کیا جاتا کہ بڑے مالیاتی ادارے یا ان بین الاقوامی کمپنیوں کو واقعی میں کوئی مالی زد پہنچے

بقول علامہ اقبال
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات 

-حوالہ جات کیلئے یہ صرف چند نمونے ہیں

http://www.cnbc.com/2015/10/30/misbehaving-banks-have-now-paid-204b-in-fines.html

https://www.theguardian.com/business/2016/aug/30/apple-pay-back-taxes-eu-ruling-ireland-state-aid

http://www.bbc.com/news/technology-21684329

http://www.theverge.com/2015/10/5/9454393/bp-oil-spill-record-fine-doj-settlement

https://www.theguardian.com/business/2017/jan/31/deutsche-bank-fined-630m-over-russia-money-laundering-claims

http://www.bankinfosecurity.com/chase-a-6356

http://www.reuters.com/article/us-hsbc-probe-idUSBRE8BA05M20121211

http://www.telegraph.co.uk/finance/newsbysector/banksandfinance/11619188/Barclays-handed-biggest-bank-fine-in-UK-history-over-brazen-currency-rigging.html

https://www.theguardian.com/business/2014/aug/20/standard-chartered-fined-300m-money-laundering-compliance

https://www.theguardian.com/business/2016/apr/26/uk-big-four-banks-face-19bn-compensation-fines-legal-costs-libor-ppi

https://www.ft.com/content/21099006-fef9-11e5-99cb-83242733f755

https://www.theguardian.com/business/2016/sep/16/deutsche-bank-14bn-dollar-fine-doj-q-and-a

https://www.theguardian.com/business/2016/nov/16/rbs-may-fined-more-than-12bn-settle-us-mis-selling-scandal

http://www.thisismoney.co.uk/money/markets/article-2731240/Bank-America-hit-record-10billion-fine-toxic-mortgage-debt-mis-selling.html

Sunday, April 9, 2017

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ) کی بحث اور اس کی اصل حقیقت

حصہ دوئم  

فوج اور اشرافیہ

اس خطۂ میں جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو انکی تعداد موجود مقامی آبادی کے حساب سےانتہائی قلیل تھی لیکن جدید اسلحہ اور صنعتی انقلاب کی بدولت وہ لوگوں پر اپنی حاکمیت اور دھاک بٹھانے میں آسانی سے کامیاب ہوگئے. انگریزوں نے یہاں پر جو فوج کا ڈھانچہ قائم کیا اس میں اعلیٰ افسر تو انگریز ہی ہوتے تھے البتہ چھوٹے افسروں کیلئے انہوں نے مقامی جاگیردار اشرافیہ کے بندے بھرتی کیے جو مقامی جاگیردار اشرافیہ نے خوشی خوشی فراہم کیے. انگریزوں نے اس بات کا پورا خیال رکھا کہ مقامی آبادی سے افسر صرف اور صرف جاگیردار اشرافیہ یا ان قبیلوں سے لئے جائے جو سرکار انگلشیہ کے پکے وفادار ہوں اور اس مقصد کیلئے مختلف قبیلوں کے درمیان سماجی تفریق بھی پیدا کی گئی،جاگیردار طبقہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے فوجی افسران کو انگریز افسر سے حکم لینے میں تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے سماجی مرتبہ سے چھوٹے مقامی فرد سے حکم لینے میں سخت اعتراض تھا چاہے وہ فوجی نظم و ضبط کا تقاضا ہی کیوں نہ ہو.
قیام پاکستان تک تو متحدہ ہندوستان کی فوج میں یہی اصول قائم رہا لیکن پاکستان بننے کے بعد اور خاص طور پر بھارت کے ساتھ جنگوں کی وجہ سے پاکستانی فوج کو جاگیردار اشرافیہ کی بجائے عام عوام سے بھی افسر رینک کیلئے لوگ بھرتی کرنے پڑے. جاگیردار اشرافیہ کے لوگ جب تک تو اعلیٰ عھدوں پر خود فائز تھے وہ اس بات کو برداشت کرتے رہے لیکن جب سو کالڈ عام عوام سے بھی لوگ فوج کے اعلیٰ عھدوں تک پہنچنے لگے تو جاگیردار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کیلئے سماجی طور پر ان سے کمتر لوگوں سے حکم لینا ناقابل برداشت ہوگیا اور انہوں نے فوج میں جانا کم کردیا اور ویسے بھی انکے اقتدار و اختیار کیلئے سیاست و بیوروکریسی کے دروازے خوب کھلے تھے
فوج کے افسر رینک میں عام عوام سے تعلق رکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ایک نئی سماجی اشرافیہ کو جنم دینا شروع کردیا جو جدی پشتی طور پر تو جاگیر دار اشرافیہ کے ہم پلہ نہ تھی لیکن ایوب خان اور فوج میں امریکی اثرورسوخ کی بنا پر طاقت پکڑ کر ایک نئے اشرافیہ کی شکل اختیار کرگئی.چونکہ سیاست اور بیوروکریسی میں جاگیردار اشرافیہ کی بہت بڑی اکثریت تھی تو اس نئی اشرافیہ کے دل و دماغ اور جذبات میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے خلاف سخت نفرت اور ہتک کے جذبات پیدا ہونا ایک فطری امر تھا. ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوج میں موجود نفرت کا ایک باعث جاگیردار اشرافیہ کے خلاف ہونے والی نفرت بھی تھی اور امریکہ کیلئےجنرل ضیاءالحق کی شکل میں اس نفرت کو استعمال کرنا انتہائی آسان کام تھا
ضیاء الحق کے مارشل لاء کی دوسری ٹھوس اور اہم وجوہات بھی ہیں مگر فی الوقت وہ موضوع بحث نہیں ہیں
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران امریکہ کو ایک بار پھر موقع مل گیا کہ پاکستانی معاشرے میں موجود برطانوی اثرورسوخ جوکہ جاگیردارانہ اشرافیہ کی صورت موجود تھا کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ختم کردیا جائے یا اسکو انتہائی کمزور کر دیا جائے. ضیاء الحق نے آتے ہی پھر سے صنعتی سرگرمیوں پر سے پابندیاں ختم کرتے ہوئے پاکستان معیشت و سماج کو ایک سرمایہ دارانہ سماج کی طرف بدلنے کا کام شروع کردیا اور اس سلسلہ میں فوج کے ساتھ ساتھ عوام میں سے ایک سرمایہ دار اشرافیہ کی دیوار بنانا شروع کردی. نواز شریف کی سیاست میں سرپرستی،  ضیاء الحق اور امریکہ کا وہی دیرپا منصوبہ تھا جس کی بدولت پاکستان میں جاگیردار اشرافیہ کو ایک سرمایہ دار اشرافیہ سے بدلنا تھا
اگر لوگوں کو پنجاب میں نواز شریف کے خلاف پہلی تحریک عدم اعتماد کا زمانہ یاد ہو تو اس زمانے میں سید مردان علی شاہ پیر پگاڑہ نے یہ مشھور الفاظ کہے تھے کہ یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لڑائی ہے

پیپلز پارٹی اور اشرافیہ

پاکستان پیپلز پارٹی اکثر یہ نعرہ لگاتی ہے کہ وہ ہی اصلی جماعت ہے جو اسٹیبلشمنٹ (پاکستانی) کے خلاف ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی جدوجہد کی علامت ہے. اصل میں جب پیپلز پارٹی یہ بات کر رہی ہوتی ہے تو وہ جاگیردارانہ اشرافیہ کی فوجی اشرافیہ اور سرمایہ دار اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کی بات کر رهی ہوتی ہے کہ پاکستان میں اب صرف پیپلز پارٹی ہی جاگیردار اشرافیہ کی نمائندہ جماعت ہے اور اس میں شامل جاگیرداروں وڈیروں کی تعداد سے اسکا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے. پیپلز پارٹی کا پنجاب اور بالخصوص شہری صنعتی علاقوں سے مکمل خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نئی سرمایہ دار اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے. اسی طرح کراچی میں مہاجر طبقہ کے ساتھ سندھی زبان کے بل سے لیکر موجودہ مخاصمت تک یہ بات عیاں ہے کہ پیپلز پارٹی کو صرف جاگیردار اشرافیہ کے مفادات کو محفوظ کرنے سے غرض ہے اور نئی سرمایہ دار اشرافیہ سے اسکا کچھ خاص لینا دینا نہیں ہے

عمران خان – فوج -نواز شریف
اسی کی دھائی میں پاکستانی فوج نے جناب نواز شریف کو پالا پوسا اور انہیں نئی سرمایہ دار اشرافیہ کا نمائندہ اور سربراہ بنادیا. لیکن نواز شریف اپنی افتاد طبع اور فکری و نظریاتی ناپختگی کی وجہ سے یہ نہ سمجھ سکے کہ فوجی قیادت اور امریکہ کے سوچ بچار کرنے والے ایک نئی اشرافیہ (سرمایہ دار) کی تعمیر کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں نہ کہ کسی ایک شخصیت کی پرورش یا سرپرستی پر.جب فوجی اشرافیہ نے یہ دیکھ لیا کہ میاں صاحب انکے منصوبے کو مکمل کرنے سے قاصر ہیں تو یہی سوچا گیا کہ انکی بجائے کوئی اور گھوڑا میدان میں اتارا جائے تاکہ نئی اشرافیہ کی پرورش میں آسانی رہے
جناب مشرف کی نواز شریف کے خلاف فوجی بغاوت اصل میں صرف انہی کے خلاف فوج کی بغاوت تھی اور اسی لئے نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نون کے زیادہ تر افراد کو نئی حکومت میں شامل کرلیا گیا تھا اور خاص طور پر شہری سرمایہ دار طبقے کو اس میں اچھا خاصہ حصہ دیا گیا تھا. جنرل مشرف نے بیوروکریسی میں موجود جاگیردار اشرافیہ کے اثرورسوخ کو ختم کرنے کیلئے بھی اسکی ریڑھ کی ہڈی ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ کو مکمل بے اختیار کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسکے ساتھ ساتھ شہری حکومتوں کے نظام کے ذریعہ نئی سرمایہ دار اشرافیہ کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی
فوجی اشرافیہ کو جنرل مشرف کے سیاسی اخلاقی جواز کا ہمیشہ سے مسئلہ تھا اور مشرف کی بینظیر کے ساتھ  ڈیل ایک بار پھر سے جاگیردار اشرافیہ کو اپنے قدم جمانے کا موقع دینا تھا . نواز شریف کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اور خاص طور پر انکے فوج کے خلاف سخت موقف کی بنا پر فوجی اشرافیہ کی نظر جناب عمران خان پر پڑی اور انہیں سرمایہ دار اشرافیہ کے نئے سیاسی نمائندے کے طور پر مشھہوری اور اہمیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا
فوجی اشرافیہ کیلئے عمران خان کی پاکستان کے نوجوان شہری پڑھے لکھے طبقہ میں مقبولیت ایک نعمت ثابت ہوئی اور عمران خان کا جاگیردار اشرافیہ سے بھی تعلق نہیں تھا لیکن جاگیردار اشرافیہ کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور تھے جو کہ جاگیردار اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو توڑنے کیلئے کارآمد تھے
یوں پراجیکٹ عمران کے اوپر کام شروع ہوا لیکن فوجی اشرافیہ اس معاملے میں نواز شریف سے بھی بڑی غلطی کر بیٹھی کہ خان صاحب ، میاں نواز شریف سے بڑے خود پسند ثابت ہوئے اور انہوں نے بجائے شہری سرمایہ دار اشرافیہ اور فوجی اشرافیہ کو ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر قوت بنانے کے، صرف اپنے ذاتی عزائم کیلئے کام کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدود کرلیا
امریکی و فوجی منصوبہ سازوں کیلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکہ تھا اوراس بات نے انہیں دوبارہ پھر سے نواز شریف کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کردیا

چین کی آمد
چین کی اقتصادی ضروریات اور خام مال و تیار اشیا کی بلا تعطل ترسیل کیلئے چین کو پاکستان کے راستہ سمندروں تک رسائی انتہائی ضروری ثابت ہوئی. اس کیلئے اسے پاکستان میں ایسے حکومتی شراکت کار کی ضرورت تھی جو خود بھی سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور سرمایہ دار اشرافیہ کے وجود و استحکام میں بھی یقین رکھتا ہو. اس مشترکہ نکتے پر پاکستان میں امریکی مفادات بھی یکساں تھے اور امریکہ کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری (سی پیک) پاکستان میں سرمایہ دار اشرافیہ کے  استحکام و پھیلاؤ مددگار و معاون ہی ثابت ہوتی تھی  
فوجی اشرافیہ بھی جوکہ جاگیردار اشرافیہ سے شدید خار کھاتی ہے کو سی پیک منصوبہ انتہائی مددگار محسوس ہوا. یہی وجہ ہے کہ سی پیک منصوبے پر جناب زرداری کے حکومت کے دوران کوئی کام نہ ہوا کہ چین اور پاکستانی فوج بشمول امریکہ کو جاگیردار اشرافیہ کی نمائندہ جماعت سے اس بارے کسی ٹھوس کام اور پراگریس کی کوئی امید نہ تھی اور نواز شریف کی حکومت کا انتظار کرنا مناسب سمجھا گیا
نواز شریف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک سے منسلک منصوبوں پر انتہائی سرعت سے کام جاری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سرمایہ دار اشرافیہ جس میں فوج اور شہری عوام شامل ہیں کو جاگیردار اشرافیہ کے مقابلے مضبوطی کا کام بھی جاری ہے
اگر آپ تھوڑا ذہن پر زور دیں تو آپکو پتہ چلے گا کہ سی پیک منصوبے کے خلاف آواز انہی حلقوں کی طرف سے بلند ہوئی تھی جو کہ جاگیردار اشرافیہ کا حصہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد ہوگا کہ فوج ایک سے زائد مواقع پر یہ 
کہہ چکی ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کی محافظ ہے

اختتام
اگر پاکستانی کی اقتداری اور اختیار کی حقیقت کو دیکھا جائے تو اس میں تین بڑے طبقات ہیں جن کے درمیان اقتدار و اختیار کی جنگ ہوتی ہے. ایک فوج ، دوسرا سرمایہ دار طبقہ ، تیسرا جاگیردار طبقہ
دوسرے الفاظ میں پاکستانی اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ کے تین حصے ہیں اور انکے درمیان ابھی تک اقتدار اور اختیار کے توازن بارے کوئی فارمولہ یا معاہدہ موجود نہیں ہے . ایک ڈھیلی ڈھالی مفاہمت تو ضرور موجود ہے لیکن چونکہ ان تینوں طبقات میں سے کوئی بھی گہرا فکری یا نظریاتی نہیں ہے تو نظریاتی بنیادوں پر کوئی بھی مستقل بندوبست طے نہیں ہو پارہا
ہر فریق ایک دوسرے کا ڈسا ہوا اور ایک دوسرے سے ڈرا ہوا ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ سرمایہ دار اشرافیہ اور فوجی اشرافیہ میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہے لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ایک زرعی اور جاگیردارانہ پس منظر والا معاشرہ ہےاور صنعتی انقلاب کی اسے ہوا نہیں لگی اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید ہے تو جاگیردار اشرافیہ ابھی تک اچھی خاصی قوت کے ساتھ موجود ہے
ایک اور مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ کہ شہری عوام جس کی نمائندگی سرمایہ دار اشرافیہ (نواز شریف) کے ذریعہ ہورہی ہے کے دل میں فوجی اقتدار کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے فوجی اشرافیہ اب شش و پنج میں ہے کہ معاملات کو کیسے آگے بڑھایا جائے اور نواز شریف کے بارے میں یہی تذبذب کچھ بھی کرنے سے اسے روکے ہوئے ہے کہ کسی قابل عمل شہری سرمایہ دار متبادل کی غیر موجودگی میں نواز شریف کی جگہ پھر سے جاگیردار اشرافیہ کو قبول کرنا پڑے گا
یہاں پر ضمنا یہ بھی عرض کردوں چونکہ فوجی اشرافیہ کی زیادہ تر تعداد اب متوسط اور بالائی متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے تو وہ بھی اپنے آپکو اس طبقہ کی نمائندہ سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے متوسط اور بالائی متوسط خاص طور پر شہری عوام میں اسکی مقبولیت سب سے زیادہ ہے
اس فقرے پر بات کو ختم کروں گا کہ جب بھی آپ پاکستان میں اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمل  یا جدوجہد کی بات سنیں تو پہلے اس بات کا تعیین ضرور کرلیا کریں کہ اس جدوجہد کی بات کرنے والا خود اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے  

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ) کی بحث اور اس کی اصل حقیقت

حصہ اول 

پاکستان میں اکثر ہم اسٹیبلشمنٹ / اشرافیہ کی اصطلاحات بارے سنتے رہتے ہیں
 اور اکثر الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے
ہمارے سیاستدان یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انکے خلاف ہے، اور پھر یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کے خلاف جنگ ہے اور ہم عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ
عوام کو عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ سے مراد فوج اور اسکے جرنیل ہیں، اگر ہم اپنے صحافیوں کے کہے پر یقین کریں یا انکی بیان کردہ کہانیوں کو پڑھیں تو صاف پتہ چلتا ہے اشرافیہ تو خود سیاستدان یا بیوروکریسی یعنی نوکر شاہی ہے
سیاسی جماعتوں میں ایسی جماعتیں یا ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اس ملک کو سرمایہ دار لوٹ کر کھا گئے اور وہ قومی اثاثوں کی نجکاری کے ذریعہ ان پر قبضہ کرکے عوام کو محکوم بنانا چاہتے ہیں، اس پر عوام میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ شائد اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ یعنی اشرافیہ سرمایہ دار طبقہ ہے
اسکے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی پڑھتے یا  سنتے ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ کے مختلف گروہوں میں آپسی لڑائی ہورہی ہے
الغرض اتنی کھچڑی پکی ہوئی ہے اور ڈور اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسکا کوئی سرا نہیں ملتا کہ سلجھایا جا سکے
کافی عرصہ سے اس بارے اپنے خیالات لکھنے کا سوچ رکھا تھا تو پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ یعنی اشرافیہ بارے میرے ذاتی خیالات و تجزیہ حاضر ہے
معاملات کو سمجھنے کیلئے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ کیسے وجود پزیر ہوتی ہے ، اس میں کون کون سے طبقات ہوتے ہیں ، دنیا میں اسکی کونسی شکلیں یا ہییتیں پائی جاتی ہیں اور پاکستان کے معروضی حالات میں اسکی کیا شکل ہے
صنعتی انقلاب سے پہلے کسی بھی ملک میں زمین ہی طاقت و اختیار کا منبع ہوتی تھی کہ وسائل اور ذرائع پیداوار کا تعلق زمین سے ہی ہوتا تھا اور کسی بھی ملک میں جاگیردار طبقہ ہی طاقت اور اختیار کے فیصلے کرتا تھا. پرانے زمانے میں حکمران اگر کسی سے خوش ہوتا تھا تو اسکو انعام میں جاگیر عطا کرنا سب سے بڑا انعام ہوتا تھا اور اپنے وفادار لوگوں اور جرنیلوں کو جاگیریں ہی عطا کی جاتی تھیں اور بدلے میں ان لوگوں سے حکمران کو خراج کی فراہمی اور جنگ کے زمانے میں فوج کیلئے افراد فراہم کرنے کی پابندی ہوتی تھی
برطانیہ اور یورپ میں اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے جاگیردار طبقہ ہی رہا تھا وہی بادشاہ کا وفادار رہتا تھا تو حکمرانی قائم رہتی تھی اگر انکی اکثریت بادشاہ کے خلاف ہوجاتی تو کسی بھی بادشاہ کا اپنا اقتدار بچانا ایک طرح سے ناممکن ہوجاتا تھا
وہی لوگ بادشاہ کو ٹیکس اکٹھا کرکے دیتے تھے اور وہی بادشاہ یعنی حکمران کو لڑنے کیلئے افرادی قوت فراہم کرتے تھے اور یہ جاگیردار طبقہ نوبلز یعنی اشرف  کہلاتے تھے اور اسی سے اشرافیہ کی اصطلاح اور تصور نکلا ہے
پرانی اشرافیہ – نئی اشرافیہ
صنعتی انقلاب کی آمد نے یورپ میں بالعموم اور سلطنت برطانیہ میں بالخصوص اشرافیہ کے ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا، جب صرف زمین ہی ذرائع پیداوار اور وسائل پیداوار کا منبع نہ رہی اور دولت و اختیار کے نئے منبع وجود پزیر ہونے لگے تو ایک نئی صورتحال نے جنم لیا جس نے ایک نئی اشرافیہ کو جنم دیا
صنعتی انقلاب کی وجہ سے سٹاک بروکرز ، بینکرز، صنعتکاروں ، سرمایہ داروں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جس کے پاس بے تحاشا پیسہ آنا شروع ہوگیا اور اس پیسے کے ساتھ ساتھ انکو سیاسی اختیار و اقتدار میں حصہ ملنا شروع  ہوگیا
پرانا جاگیردار طبقہ جو دور اندیش اور سیانا تھا وہ بھی موقع کی نزاکت اور آنے والے حالات کو بھانپ کر اس صنعتی انقلاب کا حصہ بن گیا اور یوں اپنے سیاسی اختیار و اقتدار کو بچانے میں کامیاب رہا
یورپ میں صنعتی انقلاب سے سیاسی حقوق کی تحریکیں بھی شروع ہوئیں جوکہ پرانے سیاسی ڈھانچوں کے خاتمے پر منتج ہوئیں اور یوں نئے سیاسی و اقتداری ڈھانچے وجود میں آئے
صنعتی انقلاب کا سیاسی ڈھانچے اور اشرافیہ کی ہییت پر سب سے بڑا اثر امریکہ میں پڑا ، امریکہ میں جو اشرافیہ وجود پزیر ہوئی وہ جاگیردار طبقہ کی بجائے سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتی تھی اور امریکہ کے برطانیہ سے آزادی کے پیچھے ایک بڑا محرک جاگیرداری پر مبنی اشرافیہ سے نجات حاصل کرنا تھا . خیر یہ ایک لمبی بحث والا موضوع ہے تو اسکو یہیں چھوڑتے ہیں
یورپ اور امریکہ میں پچھلے ڈیڑھ سو سال میں جو اشرافیہ کی شکل بنی ہے وہ صرف اور صرف سرمایہ دار اشرافیہ ہے اور اسکی وجہ صنعتی انقلاب کا معاشرے کے ہر پہلو کا احاطہ کر لینا ہے، حتی کہ پرانا جاگیردار طبقہ ہی سرمایہ دار  بن بیٹھا ہے اور وہی سٹاک مارکیٹ ، بینکنگ ، سیاسی جماعتوں ، صحافت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں حاوی ہوکر نئی اشرافیہ کی شکل اختیار کرگیا ہے. اگر آپ یورپ کے مالیاتی و سیاسی اداروں میں موجود اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی تاریخ کو کنگھالیں تو آپ کو انکا شجرہ نسب وہی جاگیردار خاندانوں میں ہی ملے گا جو صنعتی انقلاب سے پہلے اشرافیہ کہلاتی تھی
برصغیر میں اشرافیہ
انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے پہلے یہاں پر موجود اشرافیہ بھی محض جاگیردار اشرافیہ ہی تھی اور فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں مسلمان اور خاص طور پر ایران، عرب ، افغانستان اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان جو حکمرانوں کے حلیف تھے ، شامل تھے. اسکے علاوہ مقامی آبادی میں سے کشتریا (راجپوت اور دوسرے) قبیلے اور رنجیت سنگھ کے زمانے میں جاٹ/گجر قبیلے بھی شامل تھے
اس اشرافیہ کی ہییت ترکیبہ بھی وہی تھی کہ حکمرانوں سے جاگیروں کی عطا اور بدلے میں علاقے سے ٹیکسوں کی وصولی اور جنگ کے لئے افراد کی فراہمی
جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس بات کا پورا خیال رکھا کہ صنعتی انقلاب کا ہلکا سا سایہ بھی اس خطۂ زمین پر نہ پڑنے پائے اور اس خطۂ کو جاگیرداری سماج والا ہی رکھا جائے. انگریزوں نے جاگیروں کی عطا والا کام نہ صرف جاری و ساری رکھا بلکہ اسکو ایک نئی معراج تک پہنچایا اور غیر آباد علاقوں کو آباد کرنے کی مہم چلا کر اور نہری نظام کو قائم کرکے جاگیریں عطا کرنے والا کام جاری و ساری رکھا اور جاگیردار طبقے کی پرورش و سرپرستی جاری رکھی اور بدلے میں وہی کام کہ وہ جاگیردار طبقہ اپنے علاقہ سے ٹیکس اکٹھا کرے گا اور فوج کیلئے افراد مہیا کرے گا
سلطنت برطانیہ کی طرف سے برصغیر میں جو تھوڑی بہت نام نہاد صنعتی ترقی نظر آتی ہے وہ صرف اور صرف زرعی خام مال کو بندرگاہوں تک پہنچانے کیے تھی اور کچھ صنعت تو ضرور لگی لیکن اس بات کا پورا خیال رکھا گیا کہ اس خطۂ میں صنعتی انقلاب کی بھنک بھی نہ پڑے. برصغیر کیلئے تاج برطانیہ کا منصوبہ یہی تھا کہ اس معاشرے کو جاگیردار معاشرے سے کبھی بھی ترقی نہ دی جائے اور یہاں پر محض حکمرانوں کی نوکری اور خاص طور پر فوج کی نوکری کی ذہنیت قائم رہے . یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت تک اس خطۂ میں سرمایہ دار طبقہ کی تعداد انتہائی قلیل تھی اور اگر اسکا وجود تھا بھی تو صرف ہندوؤں میں تھا اور "مسلمان الحمداللہ اس سے پوری طرح محفوظ تھے" یاد رہے کہ صنعت کا لگانا اور صنعتی انقلاب کا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں. صنعت کا لگانا ، اشیا کو انسانی مشقت کی بجائے مشینی طریقہ پیداوار سے بنانا ہے جبکہ صنعتی انقلاب کا مطلب ، سماج کی سوچ و فکر کو بھی پرانے فرسودہ طریقہ پیداوار سے مکمل بدلنا اور انسان کو محض مجبور اور غلام  ذہنیت سے بھی نکالنا ہے
برصغیر کے سماج اور مزاج پر اور خصوصا یہاں کی اشرافیہ پر برطانوی چھاپ انتہائی گہری تھی، اتنی گہری کہ برصغیر کی اشرافیہ نے کبھی اس بارے دھیان نہ دیا کہ برصغیر میں بھی صنعتی انقلاب کی کوئی روشنی پڑ جائے  بلکہ وہ اسی میں خوش تھے کہ حکمران (سلطنت برطانیہ) کی طرف سے جاگیردار طبقے کی پرورش اور سرپرستی کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے

تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں قیام پاکستان کا واقعہ بھی یہاں کی جاگیردار اشرافیہ کی ذہنیت کو نہ بدل سکا اور انکی وفاداری ہمیشہ سلطنت برطانیہ کے ساتھ رہی.قیام پاکستان کے وقت بیوروکریسی، فوج اور سیاستدان(مسلم لیگ) کا تعلق جاگیردار اشرافیہ سے ہی تھا


پاکستان اشرافیہ کی تقسیم
ایوب خان کے ذریعہ سے پہلی دفعہ پاکستانی اشرافیہ کو تقسیم کرنے اور موجود جاگیر اشرافیہ کو سرمایہ دار اشرافیہ سے بدلنے کا امریکی منصوبہ شروع ہوا
امریکیوں نے جب اس خطے پر دھیان دیا تو انہیں یہ نظر آیا کہ پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ میں انتہائی گہرائی تک برطانوی اثر و رسوخ پایا جاتا ہے اور اس اشرافیہ میں اثرورسوخ قائم کرنا انتہائی مشکل ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے فوج میں ایوب خان کے ذریعہ اپنا اثر رسوخ بڑھایا اور سیاست میں موجود جاگیردار اشرافیہ کو اختیار و اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے ایبڈو کے ذریعہ موجود جاگیردار سیاستدانوں کی ایک کثیر تعداد کو نااہل کروا دیا. اسکے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک صنعتی طبقہ کو وجود میں لانے کیلئے جو پرانی جاگیردار اشرافیہ کی جگہ لے سکے، پاکستان میں صنعتیں لگانے کا شاندار پروگرام شروع کیا گیا. یاد رہے کہ صنعتی انقلاب تب بھی پیش نظر نہیں تھا کہ لمبہ عرصہ میں اس میں پاکستان کے ہاتھ سے نکل جانے کا حقیقی خطرہ موجود تھا
پاکستان میں ایک نئی اشرافیہ بنانے کا امریکی کام زور و شور سے جاری تھا کہ ایوب خان کے خلاف پرانے جاگیردار اشرافیہ نے اکٹھ کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی صورت ایک مزاحمت کھڑی کر دی . ایوب خان کے منظر سے ہٹنے کے بعد امریکیوں نے یحیی خان کے ذریعہ معاملات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن برطانوی ایماء اور شہہ پر اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کردی اور مرے پہ سو درے والا کام  مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کی تحریک نے پورا کر دیا. یاد رہے کہ بھارتی کاںگریس پارٹی بھی ہمیشہ سے برطانوی اثر و رسوخ میں رہی ہے. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کو ایک بار پھر موقع مل گیا کہ ابھرتی ہوئی سرمایہ دار اشرافیہ کا مکو ٹھپ دیا جائے. جناب بھٹو نے صنعتوں کو قومیانے کے عمل سے اس نوزائیدہ سرمایا دار اشرافیہ کے تابوت میں پکی کیلیں ٹھونک دی اور ملک ایک بار پھر جاگیردار اشرافیہ کے چنگل میں چلا گیا
جناب بھٹو نے شروع میں دکھاوے کو سوشلزم کے پرچارک اور شہری علاقوں کے لوگ اپنے مشیر وزیر رکھے لیکن  اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط ہوتے ہی جاگیردار اشرافیہ کو سیاست و بیوروکریسی میں مضبوط کرنا شروع کردیا اور اپنی جماعت میں بھی پھر سے تمام جاگیردار طبقہ کو شامل کرلیا. عام عوام کو سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کے خلاف نعرے اور جدوجہد کا منجن بیچا گیا اور انہیں خوب بیوقوف بنایا گیا اور انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ وہ ایک بار پھر صنعتی ترقی سے محروم کر دئیے گئے ہیں