Saturday, October 10, 2015

مغربی سیکولرلبرل ملحدین کی توہین رسالت کی اصل وجہ




کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر نام نہاد دیسی لبرلز، مسلمانوں کو اس بات کے طعنے دیتے نظر آتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا ہے یا قران پاک میں تحریف یا اسکی صداقت اور کھرے پن پر سوال اٹھاتا ہے  تو تم لوگ کیوں اتنے جذباتی ہو جاتے ہو ، تم کیوں مارا ماری پر اتر آتے ہو ، تم لوگ توہین رسالت کی سزا ، سر تن سے جدا کے نعرے کیوں مارتے ہو ، ان معاملات پر تم لوگ کیوں اپنے ہوش حواس کھو دیتے ہو وغیرہ وغیرہ

میرا آج کا موضوع اس جذباتیت کو پرکھنا ، اس کا جائزہ لینا یا اسکو جانچنا نہیں ہے اور نہ ہی اس جذباتی رویے کے حق یا مخالفت میں بحث کرنا یا دلائل دینا ہے. میرا موضوع اس بات کی جانچ پڑتال اور وضاحت کرنا ہے کہ نظریاتی مغرب سے آنے والے ان توہین رسالت اور صداقت قران بارے شکوک اٹھانے والے کاموں کی بنیاد اور وجہ کیا ہے

میں یہاں پر شروع میں ہی اس پہلو سے بھی مخاطب ہو جاؤں کہ ہمارے دیسی سیکولر لبرل یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ مغرب ہر شے میں تحقیق کا قائل ہے تو اس لئے وہ اپنے  "تحقیقی مزاج"  کی بنا پر ایسا کرتا ہے اور اسکا رویہ تمام مذاہب اور انکی تعلیمات بارے ایسا ہی ہے، میرے نزدیک یہ بیانیہ  محض ایک فریب نظر ، دھوکہ اور فکری بددیانتی  کے سوا کچھ نہیں ہے اور ہمارے دیسی سیکولر لبرل اس بیانئے کو اندھے پیروکاروں کی طرح آمنا و صدقنا کہتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں ، میں اس لئے اس بیانئے اور پہلو کو رد کرتے ہوئے  اس پر مزید وقت اور توانائی ضائع نہیں کروں گا

اصل وجوہات اور مغربی سیکولر لبرل فتور نیت کو جاننے کیلئے ہمیں تاریخ میں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا .جب مسلمانوں نے شام اور مصر کی فتوحات کی تو اس وقت عیسائی یورپ نے اسکو کوئی خاص اہمیت نہ دی اور یہی سمجھا کہ ہمارے (رومی سلطنت ) کے دور دراز کے کچھ علاقے چھن گئے ہیں جن پر ہم پھر قبضہ کر لیں گے . لیکن جب مسلمان فتوحات شمالی افریقہ اور سپین کے راستے مغربی یورپ،  اور ترکی کے راستے مشرقی یورپ،  کے اندر جا پہنچی تو شروع کی کچھ صدیوں میں عیسائی یورپ کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کون لوگ ہیں ، وجہ یہ تھی کہ یورپ آگے آگے بھاگ رہا تھا اور مسلمان فوجیں ان کے پیچھے پیچھے

یورپ کے اہل دانش و فکر کو اتنا وقت ہی نہیں مل رہا تھا کہ وہ اس نئے مظہر بارے 
سکون  سے بیٹھ کر غوروفکر کر سکیں. اس زمانے میں عیسائی یورپ کا اسلام   بارے تصور یہ تھا کہ یہ بت پرست لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم انکے بت محمد کی پرستش کریں اور اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو محمڈن کہتے تھے ان کے عیسائی مذہبی طبقہ اور دوسرے اہل دانش نے اصل اسلامی فکر بارے اور اس فکر کی بنیاد اور انسان کائنات اور زندگی پر اسکے اثرات اور انسانی سوچ پر اسکے اثرات بارے غور و فکر کی زحمت ہی نہ کی تھی . جب صلیبی جنگوں کے اختتام پر مسلمانوں اور عیسائی یورپ کے درمیان ایک جنگ بندی جیسی صورتحال پیدا ہوئی اور ترکی کی آسٹریا کے محاذ سے واپسی ہوئی تو یورپ کو کچھ سانس لینے کا موقع ملا اور اسلامی فکر ، اسلام کی اصل اور بنیاد بارے سوچ و بچار اور کتابیں لکھی جانے لگیں. اس دوران یورپ نے اسلام اور اسکی فکر کو محض ایک فوجی مظہر ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی و فکری مظہر کے طور پر جاننے کی کوشش شروع کی. جو ابتدائی نظریات اور نتائج اس بارے اخذ کیے گئے اور سمجھے گئے وہ یہ تھے کہ اسلام میں تین چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں

١ – قران
٢- محمد صلی اللہ علیہ وسلم
٣ – جہاد کا تصور

اب اس بات پر غوروفکر اور سوچ بچار شروع ہوئی کہ کیسے ان تصورات سے   نمٹا جائے
، اس زمانے میں زیادہ تر توجہ اسی بات پر رہی کہ مسلمانوں کے "خدا" محمد بارے ہی بکواس اور ہرزہ سرائی کی جائے ،چونکہ اسی زمانے میں یورپ میں بھی  نشاتہ ثانیہ کی لہریں  ابھرنا شروع ہوگئیں تھیں تو عیسائیت کو اپنی بقا کی پڑ گئی اور اس کا سارا زور لبرل سیکولر. الحاد اور اصلاح مذھب کی تحریکوں سے نمٹنے میں صرف ہونے لگا

چونکہ یورپ میں مذھب کا تجربہ اور تاریخ ایک بھیانک روپ لئے ہوئے تھی اس لئے سیکولر لبرل سوچ اور اسکے حاملین کیلئے مذھب کا مذاق اڑانا ، مذہبی روایات کی سند کو چیلنج کرنا ، مذہبی رسومات کی اصل کی جانچ پرکھ کا سوال اٹھانا بہت آسان تھا . اسکے ساتھ ساتھ چونکہ عیسائیت نے کافی ساری یہودی روایات کو سختی سے رد کیا ہوا تھا اور انکی جگہ اپنی من پسند تاریخی روایات گھڑ لی تھیں تو ایسی روایات کے مصدقہ ہونے کے پرخچے اڑانا بہت آسان تھا 
 ، ان روایات کا کوئی تاریخی ثبوت بھی نہ تھا تو کام اور بھی آسان ہوگیا.

یورپی نشاتہ ثانیہ کے شروع شروع میں جن لوگوں نے اسلام اور اسکی فکری بنیاد اور اسکے تاریخی سرمائے بارے لکھا یا "تحقیق" کی تو وہ اس مذہبی نفرت (یعنی عیسائیت سے نفرت ) کے تعصب اور ماحول میں کی اور اسلام کیلئے اسی جھاڑو کو استعمال کیا. چونکہ شروع میں ان سیکولر لبرلز /ملحدین کا اصل میدان عیسائیت کی مخالفت ہی تھا  تو اسلام کی طرف اتنی توجہ نہ تھی

جب یورپی (مغربی) سیکولر لبرل الحادی سوچ معاشرے میں اچھی طرح جڑ پکڑ گئی اور اس نے اقتدار اور طاقت کے ستونوں پر قبضہ کرلیا تو پھر اسکا رخ اپنے معاشرے سے باہر کے معاشروں کی طرف ہوا ، یوں ایک دفعہ پھر اسلام اور اسلام فکر کے ماخذ ، اسکے دائرہ کار اور اسکی دور رس پہنچ بارے غوروفکر اور تحقیقی کام شروع ہوا ، اس سلسلے میں ماضی کے یورپی حوالے بھی کنگھالے گئے اور ایک بار تان پھر انہی تین باتوں پر ٹوٹی جن کا اوپر ذکر کیا ہے یعنی قران ، رسول اللہ اور جہاد

یورپ جو کہ اس وقت تک ایک نئے مشترکہ فکری ڈھانچے یعنی مغرب میں ڈھل چکا تھا اور اس فکری ڈھانچے کی بنیاد لبرل سیکولر و الحاد پر مبنی فکر پر تھی ، نے اسلام کو ایک فکری و نظریاتی مخالف کے طور پر دیکھنا اور سمجھنا شروع کیا اور بالاخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام واقعی میں ایک ٹھوس حقیقت والا فکری خطرہ ہے

سیکولر لبرل و الحادی فکر نے اپنے پھیلاؤ کیلئے نوآبادی نظام و جارح فوج کشی کو بطور ایک آلہ کے استعمال کیا اور اسکے مقابلہ میں دیکھا کہ اسلام کے پاس جہاد کی صورت ایک نہایت موثر اور مہلک جواب موجود ہے ، اسلئے جہاد کی منفیت بارے نئے نئے بیانئے اور تصورات تراشے گئے ، نئے نئے فرقے اسلام کے اندر سے نکالے گئے تاکہ وہ جہاد کو منسوخ قرار دیدیں یا جدید دنیا میں اسکی جگہ نہ ہونے بارے فتاوی دیں ، بہرحال چونکہ یہ موضوع نہیں تو اس کو یہیں چھوڑتا ہوں

یورپی (مغربی ) نشاہ ثانیہ  کے بعد سیکولر لبرل الحادی قوتوں نے عیسائیت یا کسی بھی مذھب کو ہدف تنقید بنانے اور اس کی  جدید زمانے میں بے معنویت کو ثابت کرنے کیلئے اس مذھب کی الہامی کتاب اور اس مذھب کی مرکزی شخصیت کو استہزاء ، تمسخر اور مضحکہ خیزی کا نشانہ بنایا ہے. اصل مقصد و حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ اس بنیاد کو مشکوک بنا دیا جائے اور گرا دیا جائے جس کے اوپر اس مذھب کی ساری عمارت قائم ہے. کیونکہ اگر بنیاد ہی مشکوک اور کمزور ہوجائے تو اس پر قائم عمارت بارے ہر طرح کی باتیں اور بیان دئیے جاسکتے ہیں اور لوگوں کو اس عمارت میں پناہ لینے سے روکا جاسکتا ہے.

اگر آپ عیسائیت یا یہودیت کی مثال لیں تو آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی سیکولر لبرل الحادی بیانئے میں انجیل و تورات کی حیثیت بالکل مشکوک اور حتی کہ سیدنا عیسی علیہ سلام و سیدنا موسی علیہ سلام کی ذات مبارکہ کو ایک عام انسان کی حیثیت تک گھٹا دیا گیا ہے. چونکہ ان کتابوں میں خود عیسائیت اور یہودیت کی وجہ سے بے شمار تحریفات ہو چکی تھیں تو کسی بھی الہامی یعنی اللہ تعالیٰ کے قانون کو تختہ مشق بنانا اور اسکا مذاق و ٹھٹھا اڑانا آسان ٹھہرا اور اسکو منسوخ کرکے اپنی مرضی کے حیوانی و نفسانی قوانین کو لاگو کرنا بہت آسان ٹھہرا

عیسائیت و یہودیت کی بنیاد کو مشکوک بنا دینے سے سیکولر لبرل الحادی فکر نے مذھب کو سختی سے ایک چار دیواری جس کو آپ چرچ کہیں یا کنیسہ تک محدود کردیا

اب ہم آتے ہیں اسلام کی طرف، اسلام کی بنیاد بھی قران اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر قائم ہے ، بلکہ اگر دیکھا جائے تو اصل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر قائم ہے ، وہی ہیں جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ  کی ذات سے روشناس کروایا ہے اور وہی ہیں جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے روشناس کروایا ہے. اب اگر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک کو کسی پہلو یا گوشے سے متنازع اور مشکوک بنا دیا جائے تو ان پر اترنے والے کلام اللہ کو مشکوک و متنازع بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر قران پاک کی الہامی/خدائی حیثیت  کو اگر مشکوک بنادیا جائے تو اس میں موجود تمام قوانین کی الہامی و خدائی حیثیت کو فورا رد کیا جاسکتا ہے ، جب قران پاک کی الہامی حیثیت کی تصدیق ناممکن ہوجائے تو اسکے قوانین پھر ہر طرح کے ردوبدل کا نشانہ بن جاتے ہیں اور اسکی جگہ انسانی نفسانی قوانین کا نفاذ بالکل آسان بن جاتا ہے

یہ ہے وہ بنیادی اور اصل وجہ کہ مغربی سیکولر لبرل ملحدین ، کیوں بار بار رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک کو نت نئے طریقوں یعنی کبھی کارٹون ، کبھی فلم بنا کر، کبھی کتابیں لکھ کر استہزا اور ٹھٹھا اڑانے کی کوشش  کرتے ہیں اور کبھی ازواج مطہرات کے حوالے سے ، کبھی بنی قینقاع اور بنو قریظہ کے حوالے سے ، کبھی جہاد کے حوالے سے اور کبھی کسی اور حوالے سے متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں

ہمارے ادھار کی دانش والے نقل باز نام نہاد دیسی سیکولر لبرل و ملحدین حضرات اور وہ نادان مسلمان حضرات جو تاریخ و اصلی ایجنڈے سے واقفیت  نہیں رکھتے   وہ بھی مغربی سیکولر لبرل الحادی بیانئے کا شکار ہوکر باقی مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق یا تمسخر اڑاتا ہے تو اسکو نظرانداز کردیں اور اپنے کام سے کام رکھیں ، وہ اس بات سے بالکل بے خبر اور ناواقف ہیں کہ توہین رسالت کی اصل وجہ اور بنیاد کیا ہے

اگر آپ اسلام اور اسلامی معاملات پر بحث و مباحثہ کرنے والے مستشرقین اور وہ لوگ جو مغربی میڈیا میں ہر وقت اسلام بارے زہر اگلتے   رہتے ہیں کی تقاریر ، کتب اور سیمینارز کو، سنیں ، پڑھیں اور دیکھیں تو آپکو ایک مشترکہ بات جو نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے اندر سے شدت پسندی، رجعت پسندی  بلا بلا بلا وغیرہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قران کو الہامی کتاب سمجھنے سے باہر نکلنا ہوگا اور قران و سنہ کو ہر کام کی بنیاد بنانے کو چھوڑنا ہوگا ، ٹھیک ہے قران ایک اچھی کتاب ہے لیکن اس میں سب کچھ اچھا نہیں ہے، ٹھیک ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک اچھے بندے تھے لیکن مسلمانوں کو ان کے ہر کام کا دفاع کرنے کی ذہنیت اور کوشش سے باہر آنا ہوگا . قران کے قوانین اور نبی کے فرامین چودہ سو سال پہلے تو ٹھیک ہونگے لیکن آج کے زمانے میں انکی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے

یہ ہے اصل بنیاد و وجہ ، یعنی مغربی سیکولر لبرل الحادی فکر ، مسلمانوں کو انکے بنیادی عقائد سے دور کرنا چاہتی ہے اور اسکیلئے انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اصل نشانہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور کلام اللہ یعنی قران کو بنانا ہوگا اور تب ہی وہ کامیاب ہونگے


ہمارے عقل و خرد سے پیدل ، بونگے اور ادھار کی دانش والے دیسی سیکولر لبرل  ، اصلی مغربی سیکولر لبرل ملحدین کے منصوبے کو سمجھے بغیر پرائی شادی میں عبدللہ دیوانہ بن کر اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں