Sunday, July 28, 2019

مماثلت کے مغالطے



پاکستان میں اکثر لوگ اس بات پر الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں کہ دو بالکل متضاد خیالات و نظریات کے لوگ کچھ معاملات میں بالکل ایک جیسے خیالات و عمل کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے ، اور لوگ ان کے اس عمل کو دیکھ کر یا تو ان پر انکی فکر و نظریہ سے روگردانی کا الزام لگانا شروع کردیتے ہیں یا انہیں وقتی مفادات کا اسیر قرار دیکر نفرت کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں اور آخر کار فکری و نظریاتی لوگوں بارے یہ عمومی رائے دے دی جاتی ہے کہ سب ان لوگوں کا ڈھونگ ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ بالکل متضاد نظریات کے لوگ کسی معاملے میں ایک جیسی ہی رائے کا اظہار کریں
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے معاملے پر لیبر پارٹی اور کنزروٹیو پارٹی میں ہوئی اندرونی تقسیم اس نکتےکی وضاحت کیلئے اہم مثال ہے اور خاص طور پر لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن اور اسکے قریبی ساتھیوں کا یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج بارے موافقانہ موقف
یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حمایتیوں خصوصا کرتا دھرتاؤں بارے عموما یہ رائے یا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرست ، ماضی میں رہنے والے، طبقاتی نظام کے حمایتی، غیرملکیوں سے نفرت کرنے والے اور سرمایہ داروں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے اور انکے لے پالک ہیں، لیکن جب ہم لیبر پارٹی کی موجودہ قیادت یعنی جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو حیرانی سی ہوتی ہے کہ وہ سب تو قوم پرستی کے خلاف ،ہر رنگ و نسل کے مشترکہ سماج کے حامی، مستقبل کی طرف دیکھنے والے ، سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے سخت مخالف اور سوشلزم کے شدید حمایتی
اب ایسے دو انتہائی متضاد لوگوں اور گروہوں کے کسی ایک معاملے پر ایک جیسی رائے و خیال لوگوں کیلئے انتہائی الجھاؤ والی صورتحال بن جاتی ہے اور لوگ شدید حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جیریمی کوربن ، کنزروٹیو پارٹی کے ایسے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو جن سے اسکا نظریاتی و فکری طور پر اٹ کتے کا ویر ہو
اصل میں اس سارے معاملے میں عام لوگ عموما جو غلطی کرتے ہیں وہ اس اصل نکتے جس پر سارا قضیہ کھڑا ہوتا ہے کی بجائے اس نکتے کے حمایتی یا مخالف لوگوں کی قطار اور صف بندی کو دیکھ اس پر حکم صادر کر دیتے ہیں اور یوں خود بھی الجھاؤ کے شکار رہتے ہیں اور ایک ایسی فضاء بھی تیار کردیتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی اسی الجھاؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، ایسا عموما اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عام لوگ گہرائی میں جا کر اس اصل نکتے یا قضیے کا تجزیہ یا چیر پھاڑ نہیں کرتے جسکی وجہ سے یہ صف بندی یا تقسیم پیدا ہوئی ہوتی ہے اور نہ اس صف بندی میں کھڑے مختلف الخیال لوگوں کے طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں
اگر ہم لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن اور اسکے ساتھیوں کے نظرئیے، طویل المیعاد مقاصد و حکمت عملی کو دیکھیں تو ان کی جدوجہد اس حوالے سے ہے کہ سرمایہ داروں کے تسلط کو ختم کیا جائے، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے چنگل سے عوام کو آزاد کیا جائے، صحت ، تعلیم ، ذرائع رسل و رسائل اور دوسری عوامی خدمات میں ہوئی نجکاری کو ختم کیا جائے، سماجی ہم آہنگی پیدا کی جائے، معاشرے میں سماجی تفریق کو ختم کیا جائے اور تمام لوگوں کو تعلیم و ترقی کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں، اس حوالے سے وہ یہ دیکھتے ہیں یورپین یونین کا منصوبہ اصل میں ملکی سطح سے بھی اوپر عالمی سرمایہ داروں اور انکے بینکوں و مالیاتی اداروں کے تسلط کا منصوبہ تھا جس میں باوجود کچھ اچھے نقاط کے اصل میں عام عوام کی خواہشات ، امنگوں و ارادوں کو کچلا گیا، اس منصوبے سے حکومتی اختیار، عوام کے ہاتھ سے نکل کر یورپی یونین کی سطح پر چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنے لگ گئے اور یہ سارے فیصلے اس بنیاد پر تھے کہ ک ان سرمایہ داروں کے ہاتھ میں نہ صرف عوامی و ملکی وسائل کا کنٹرول آ جائے بلکہ عوام کی زندگیوں کا کنٹرول بھی انکے ہاتھ میں آ جائے
جب برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا معامله ایک اہم عوامی مطالبہ بن گیا تو ان لوگوں کے خیال میں انکے نظریاتی و فکری مقاصد و حکمت عملی کیلئے یہ انتہائی اہم اور پہلا قدم تھا کہ برطانیہ کو عالمی سرمایہ داروں کے چنگل سے نکالا جائے ، یہ درست ہے کہ اخراج کے دائیں بازو کے کٹڑ حمایتیوں کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ہم برطانیہ کو یورپی یونین کے تسلط سے آزاد کروانا چاہتے ہیں لیکن انکا اصل مقصد عالمی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے سے برطانیہ کے معاملات کو آزاد کروا کر مقامی برطانوی سرمایہ داروں کے تسلط و قبضے میں دینا ہے اور طبقاتی نظام کو قائم رکھنا اور عوامی خدمات کی نجکاری کرنا ہے. تو ایسی صورتحال میں جیریمی کوربن اور اسکے سوشلسٹ ساتھیوں کا اخراج کی حمایت کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے دشمن کی طاقت کو کم کیا جائے اور ایک عالمی سطح کے دشمن جس کے پاس عالمی سطح کے وسائل و اختیار ہوں سے لڑنا انتہائی مشکل ہے بنسبت اس دشمن کے جس کے پاس وسائل و اختیار صرف ایک ملکی سطح پر ہے ، یعنی ایک چھوٹا اور کمزور دشمن
تو یوں بظاہرجو نظر آتا ہے کہ بورس جانسن جیسے اخراج کے کٹڑ حمایتیوں کے منصوبے کے ساتھ جیریمی کوربن جیسے انتہائی نظریاتی مخالف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں وہ اصل میں محض نظر کا دھوکہ اور صورتحال کو گہرائی میں نہ جا کر دیکھنے کا نتیجہ ہے جبکہ یہ ایک طویل المیعاد مقصد و حکمت عملی کا حصہ ہے نہ کہ بورس جانسن اور اسکے دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرستوں کی کسی بھی قسم کی حمایت یا اعانت
اب سوچ و تخیل کے اس زاویے کو ہم پاکستان میں بننے والے مختلف سیاسی اتحادوں یا گٹھ بندوں پر منطبق کریں تو ہمیں دکھائی دینے لگے گا کہ متضاد خیال مختلف سیاسی جماعتوں کا کسی خاص معاملے یا مسئلہ پر اکٹھا ہونا یا ایک ہی صف میں نظر آنے کا کیا مطلب ہے اور اسی طرح کسی خاص معاملے یا مسئلہ پرنظریاتی و فکری مخالف کیوں ایک ہی صف بندی یا قطار میں نظر آتے ہیں
اس لئے کسی بھی معاملے ، قضیے یا مسئلے پر لوگوں کی رائے یا عمل کی مماثلت کے مغالطے سے بچنا خود اپنی فکری شفافیت کے حصول اور فکری الجھاؤ سے بچاؤ کیلئے اشد ضروری ہوتا ہے اور اصل مسئلے، قضیے و معاملے بارے مختلف الخیال لوگوں کے اپنے نظریاتی و فکری طویل المدت مقاصد و حکمت عملی کوجاننا اور پرکھنا بہت ضروری ہوتا ہے

No comments:

Post a Comment