Sunday, April 9, 2017

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ) کی بحث اور اس کی اصل حقیقت

حصہ اول 

پاکستان میں اکثر ہم اسٹیبلشمنٹ / اشرافیہ کی اصطلاحات بارے سنتے رہتے ہیں
 اور اکثر الجھاؤ کا شکار رہتے ہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے
ہمارے سیاستدان یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انکے خلاف ہے، اور پھر یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کے خلاف جنگ ہے اور ہم عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ
عوام کو عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ سے مراد فوج اور اسکے جرنیل ہیں، اگر ہم اپنے صحافیوں کے کہے پر یقین کریں یا انکی بیان کردہ کہانیوں کو پڑھیں تو صاف پتہ چلتا ہے اشرافیہ تو خود سیاستدان یا بیوروکریسی یعنی نوکر شاہی ہے
سیاسی جماعتوں میں ایسی جماعتیں یا ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اس ملک کو سرمایہ دار لوٹ کر کھا گئے اور وہ قومی اثاثوں کی نجکاری کے ذریعہ ان پر قبضہ کرکے عوام کو محکوم بنانا چاہتے ہیں، اس پر عوام میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ شائد اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ یعنی اشرافیہ سرمایہ دار طبقہ ہے
اسکے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی پڑھتے یا  سنتے ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ کے مختلف گروہوں میں آپسی لڑائی ہورہی ہے
الغرض اتنی کھچڑی پکی ہوئی ہے اور ڈور اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسکا کوئی سرا نہیں ملتا کہ سلجھایا جا سکے
کافی عرصہ سے اس بارے اپنے خیالات لکھنے کا سوچ رکھا تھا تو پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ یعنی اشرافیہ بارے میرے ذاتی خیالات و تجزیہ حاضر ہے
معاملات کو سمجھنے کیلئے تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ کیسے وجود پزیر ہوتی ہے ، اس میں کون کون سے طبقات ہوتے ہیں ، دنیا میں اسکی کونسی شکلیں یا ہییتیں پائی جاتی ہیں اور پاکستان کے معروضی حالات میں اسکی کیا شکل ہے
صنعتی انقلاب سے پہلے کسی بھی ملک میں زمین ہی طاقت و اختیار کا منبع ہوتی تھی کہ وسائل اور ذرائع پیداوار کا تعلق زمین سے ہی ہوتا تھا اور کسی بھی ملک میں جاگیردار طبقہ ہی طاقت اور اختیار کے فیصلے کرتا تھا. پرانے زمانے میں حکمران اگر کسی سے خوش ہوتا تھا تو اسکو انعام میں جاگیر عطا کرنا سب سے بڑا انعام ہوتا تھا اور اپنے وفادار لوگوں اور جرنیلوں کو جاگیریں ہی عطا کی جاتی تھیں اور بدلے میں ان لوگوں سے حکمران کو خراج کی فراہمی اور جنگ کے زمانے میں فوج کیلئے افراد فراہم کرنے کی پابندی ہوتی تھی
برطانیہ اور یورپ میں اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے جاگیردار طبقہ ہی رہا تھا وہی بادشاہ کا وفادار رہتا تھا تو حکمرانی قائم رہتی تھی اگر انکی اکثریت بادشاہ کے خلاف ہوجاتی تو کسی بھی بادشاہ کا اپنا اقتدار بچانا ایک طرح سے ناممکن ہوجاتا تھا
وہی لوگ بادشاہ کو ٹیکس اکٹھا کرکے دیتے تھے اور وہی بادشاہ یعنی حکمران کو لڑنے کیلئے افرادی قوت فراہم کرتے تھے اور یہ جاگیردار طبقہ نوبلز یعنی اشرف  کہلاتے تھے اور اسی سے اشرافیہ کی اصطلاح اور تصور نکلا ہے
پرانی اشرافیہ – نئی اشرافیہ
صنعتی انقلاب کی آمد نے یورپ میں بالعموم اور سلطنت برطانیہ میں بالخصوص اشرافیہ کے ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا، جب صرف زمین ہی ذرائع پیداوار اور وسائل پیداوار کا منبع نہ رہی اور دولت و اختیار کے نئے منبع وجود پزیر ہونے لگے تو ایک نئی صورتحال نے جنم لیا جس نے ایک نئی اشرافیہ کو جنم دیا
صنعتی انقلاب کی وجہ سے سٹاک بروکرز ، بینکرز، صنعتکاروں ، سرمایہ داروں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جس کے پاس بے تحاشا پیسہ آنا شروع ہوگیا اور اس پیسے کے ساتھ ساتھ انکو سیاسی اختیار و اقتدار میں حصہ ملنا شروع  ہوگیا
پرانا جاگیردار طبقہ جو دور اندیش اور سیانا تھا وہ بھی موقع کی نزاکت اور آنے والے حالات کو بھانپ کر اس صنعتی انقلاب کا حصہ بن گیا اور یوں اپنے سیاسی اختیار و اقتدار کو بچانے میں کامیاب رہا
یورپ میں صنعتی انقلاب سے سیاسی حقوق کی تحریکیں بھی شروع ہوئیں جوکہ پرانے سیاسی ڈھانچوں کے خاتمے پر منتج ہوئیں اور یوں نئے سیاسی و اقتداری ڈھانچے وجود میں آئے
صنعتی انقلاب کا سیاسی ڈھانچے اور اشرافیہ کی ہییت پر سب سے بڑا اثر امریکہ میں پڑا ، امریکہ میں جو اشرافیہ وجود پزیر ہوئی وہ جاگیردار طبقہ کی بجائے سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتی تھی اور امریکہ کے برطانیہ سے آزادی کے پیچھے ایک بڑا محرک جاگیرداری پر مبنی اشرافیہ سے نجات حاصل کرنا تھا . خیر یہ ایک لمبی بحث والا موضوع ہے تو اسکو یہیں چھوڑتے ہیں
یورپ اور امریکہ میں پچھلے ڈیڑھ سو سال میں جو اشرافیہ کی شکل بنی ہے وہ صرف اور صرف سرمایہ دار اشرافیہ ہے اور اسکی وجہ صنعتی انقلاب کا معاشرے کے ہر پہلو کا احاطہ کر لینا ہے، حتی کہ پرانا جاگیردار طبقہ ہی سرمایہ دار  بن بیٹھا ہے اور وہی سٹاک مارکیٹ ، بینکنگ ، سیاسی جماعتوں ، صحافت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں حاوی ہوکر نئی اشرافیہ کی شکل اختیار کرگیا ہے. اگر آپ یورپ کے مالیاتی و سیاسی اداروں میں موجود اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی تاریخ کو کنگھالیں تو آپ کو انکا شجرہ نسب وہی جاگیردار خاندانوں میں ہی ملے گا جو صنعتی انقلاب سے پہلے اشرافیہ کہلاتی تھی
برصغیر میں اشرافیہ
انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے پہلے یہاں پر موجود اشرافیہ بھی محض جاگیردار اشرافیہ ہی تھی اور فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں مسلمان اور خاص طور پر ایران، عرب ، افغانستان اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان جو حکمرانوں کے حلیف تھے ، شامل تھے. اسکے علاوہ مقامی آبادی میں سے کشتریا (راجپوت اور دوسرے) قبیلے اور رنجیت سنگھ کے زمانے میں جاٹ/گجر قبیلے بھی شامل تھے
اس اشرافیہ کی ہییت ترکیبہ بھی وہی تھی کہ حکمرانوں سے جاگیروں کی عطا اور بدلے میں علاقے سے ٹیکسوں کی وصولی اور جنگ کے لئے افراد کی فراہمی
جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس بات کا پورا خیال رکھا کہ صنعتی انقلاب کا ہلکا سا سایہ بھی اس خطۂ زمین پر نہ پڑنے پائے اور اس خطۂ کو جاگیرداری سماج والا ہی رکھا جائے. انگریزوں نے جاگیروں کی عطا والا کام نہ صرف جاری و ساری رکھا بلکہ اسکو ایک نئی معراج تک پہنچایا اور غیر آباد علاقوں کو آباد کرنے کی مہم چلا کر اور نہری نظام کو قائم کرکے جاگیریں عطا کرنے والا کام جاری و ساری رکھا اور جاگیردار طبقے کی پرورش و سرپرستی جاری رکھی اور بدلے میں وہی کام کہ وہ جاگیردار طبقہ اپنے علاقہ سے ٹیکس اکٹھا کرے گا اور فوج کیلئے افراد مہیا کرے گا
سلطنت برطانیہ کی طرف سے برصغیر میں جو تھوڑی بہت نام نہاد صنعتی ترقی نظر آتی ہے وہ صرف اور صرف زرعی خام مال کو بندرگاہوں تک پہنچانے کیے تھی اور کچھ صنعت تو ضرور لگی لیکن اس بات کا پورا خیال رکھا گیا کہ اس خطۂ میں صنعتی انقلاب کی بھنک بھی نہ پڑے. برصغیر کیلئے تاج برطانیہ کا منصوبہ یہی تھا کہ اس معاشرے کو جاگیردار معاشرے سے کبھی بھی ترقی نہ دی جائے اور یہاں پر محض حکمرانوں کی نوکری اور خاص طور پر فوج کی نوکری کی ذہنیت قائم رہے . یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت تک اس خطۂ میں سرمایہ دار طبقہ کی تعداد انتہائی قلیل تھی اور اگر اسکا وجود تھا بھی تو صرف ہندوؤں میں تھا اور "مسلمان الحمداللہ اس سے پوری طرح محفوظ تھے" یاد رہے کہ صنعت کا لگانا اور صنعتی انقلاب کا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں. صنعت کا لگانا ، اشیا کو انسانی مشقت کی بجائے مشینی طریقہ پیداوار سے بنانا ہے جبکہ صنعتی انقلاب کا مطلب ، سماج کی سوچ و فکر کو بھی پرانے فرسودہ طریقہ پیداوار سے مکمل بدلنا اور انسان کو محض مجبور اور غلام  ذہنیت سے بھی نکالنا ہے
برصغیر کے سماج اور مزاج پر اور خصوصا یہاں کی اشرافیہ پر برطانوی چھاپ انتہائی گہری تھی، اتنی گہری کہ برصغیر کی اشرافیہ نے کبھی اس بارے دھیان نہ دیا کہ برصغیر میں بھی صنعتی انقلاب کی کوئی روشنی پڑ جائے  بلکہ وہ اسی میں خوش تھے کہ حکمران (سلطنت برطانیہ) کی طرف سے جاگیردار طبقے کی پرورش اور سرپرستی کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے

تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں قیام پاکستان کا واقعہ بھی یہاں کی جاگیردار اشرافیہ کی ذہنیت کو نہ بدل سکا اور انکی وفاداری ہمیشہ سلطنت برطانیہ کے ساتھ رہی.قیام پاکستان کے وقت بیوروکریسی، فوج اور سیاستدان(مسلم لیگ) کا تعلق جاگیردار اشرافیہ سے ہی تھا


پاکستان اشرافیہ کی تقسیم
ایوب خان کے ذریعہ سے پہلی دفعہ پاکستانی اشرافیہ کو تقسیم کرنے اور موجود جاگیر اشرافیہ کو سرمایہ دار اشرافیہ سے بدلنے کا امریکی منصوبہ شروع ہوا
امریکیوں نے جب اس خطے پر دھیان دیا تو انہیں یہ نظر آیا کہ پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ میں انتہائی گہرائی تک برطانوی اثر و رسوخ پایا جاتا ہے اور اس اشرافیہ میں اثرورسوخ قائم کرنا انتہائی مشکل ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے فوج میں ایوب خان کے ذریعہ اپنا اثر رسوخ بڑھایا اور سیاست میں موجود جاگیردار اشرافیہ کو اختیار و اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے ایبڈو کے ذریعہ موجود جاگیردار سیاستدانوں کی ایک کثیر تعداد کو نااہل کروا دیا. اسکے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک صنعتی طبقہ کو وجود میں لانے کیلئے جو پرانی جاگیردار اشرافیہ کی جگہ لے سکے، پاکستان میں صنعتیں لگانے کا شاندار پروگرام شروع کیا گیا. یاد رہے کہ صنعتی انقلاب تب بھی پیش نظر نہیں تھا کہ لمبہ عرصہ میں اس میں پاکستان کے ہاتھ سے نکل جانے کا حقیقی خطرہ موجود تھا
پاکستان میں ایک نئی اشرافیہ بنانے کا امریکی کام زور و شور سے جاری تھا کہ ایوب خان کے خلاف پرانے جاگیردار اشرافیہ نے اکٹھ کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی صورت ایک مزاحمت کھڑی کر دی . ایوب خان کے منظر سے ہٹنے کے بعد امریکیوں نے یحیی خان کے ذریعہ معاملات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن برطانوی ایماء اور شہہ پر اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کردی اور مرے پہ سو درے والا کام  مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کی تحریک نے پورا کر دیا. یاد رہے کہ بھارتی کاںگریس پارٹی بھی ہمیشہ سے برطانوی اثر و رسوخ میں رہی ہے. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کو ایک بار پھر موقع مل گیا کہ ابھرتی ہوئی سرمایہ دار اشرافیہ کا مکو ٹھپ دیا جائے. جناب بھٹو نے صنعتوں کو قومیانے کے عمل سے اس نوزائیدہ سرمایا دار اشرافیہ کے تابوت میں پکی کیلیں ٹھونک دی اور ملک ایک بار پھر جاگیردار اشرافیہ کے چنگل میں چلا گیا
جناب بھٹو نے شروع میں دکھاوے کو سوشلزم کے پرچارک اور شہری علاقوں کے لوگ اپنے مشیر وزیر رکھے لیکن  اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط ہوتے ہی جاگیردار اشرافیہ کو سیاست و بیوروکریسی میں مضبوط کرنا شروع کردیا اور اپنی جماعت میں بھی پھر سے تمام جاگیردار طبقہ کو شامل کرلیا. عام عوام کو سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کے خلاف نعرے اور جدوجہد کا منجن بیچا گیا اور انہیں خوب بیوقوف بنایا گیا اور انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ وہ ایک بار پھر صنعتی ترقی سے محروم کر دئیے گئے ہیں

No comments:

Post a Comment