Sunday, April 9, 2017

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ) کی بحث اور اس کی اصل حقیقت

حصہ دوئم  

فوج اور اشرافیہ

اس خطۂ میں جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو انکی تعداد موجود مقامی آبادی کے حساب سےانتہائی قلیل تھی لیکن جدید اسلحہ اور صنعتی انقلاب کی بدولت وہ لوگوں پر اپنی حاکمیت اور دھاک بٹھانے میں آسانی سے کامیاب ہوگئے. انگریزوں نے یہاں پر جو فوج کا ڈھانچہ قائم کیا اس میں اعلیٰ افسر تو انگریز ہی ہوتے تھے البتہ چھوٹے افسروں کیلئے انہوں نے مقامی جاگیردار اشرافیہ کے بندے بھرتی کیے جو مقامی جاگیردار اشرافیہ نے خوشی خوشی فراہم کیے. انگریزوں نے اس بات کا پورا خیال رکھا کہ مقامی آبادی سے افسر صرف اور صرف جاگیردار اشرافیہ یا ان قبیلوں سے لئے جائے جو سرکار انگلشیہ کے پکے وفادار ہوں اور اس مقصد کیلئے مختلف قبیلوں کے درمیان سماجی تفریق بھی پیدا کی گئی،جاگیردار طبقہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے فوجی افسران کو انگریز افسر سے حکم لینے میں تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے سماجی مرتبہ سے چھوٹے مقامی فرد سے حکم لینے میں سخت اعتراض تھا چاہے وہ فوجی نظم و ضبط کا تقاضا ہی کیوں نہ ہو.
قیام پاکستان تک تو متحدہ ہندوستان کی فوج میں یہی اصول قائم رہا لیکن پاکستان بننے کے بعد اور خاص طور پر بھارت کے ساتھ جنگوں کی وجہ سے پاکستانی فوج کو جاگیردار اشرافیہ کی بجائے عام عوام سے بھی افسر رینک کیلئے لوگ بھرتی کرنے پڑے. جاگیردار اشرافیہ کے لوگ جب تک تو اعلیٰ عھدوں پر خود فائز تھے وہ اس بات کو برداشت کرتے رہے لیکن جب سو کالڈ عام عوام سے بھی لوگ فوج کے اعلیٰ عھدوں تک پہنچنے لگے تو جاگیردار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کیلئے سماجی طور پر ان سے کمتر لوگوں سے حکم لینا ناقابل برداشت ہوگیا اور انہوں نے فوج میں جانا کم کردیا اور ویسے بھی انکے اقتدار و اختیار کیلئے سیاست و بیوروکریسی کے دروازے خوب کھلے تھے
فوج کے افسر رینک میں عام عوام سے تعلق رکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ایک نئی سماجی اشرافیہ کو جنم دینا شروع کردیا جو جدی پشتی طور پر تو جاگیر دار اشرافیہ کے ہم پلہ نہ تھی لیکن ایوب خان اور فوج میں امریکی اثرورسوخ کی بنا پر طاقت پکڑ کر ایک نئے اشرافیہ کی شکل اختیار کرگئی.چونکہ سیاست اور بیوروکریسی میں جاگیردار اشرافیہ کی بہت بڑی اکثریت تھی تو اس نئی اشرافیہ کے دل و دماغ اور جذبات میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے خلاف سخت نفرت اور ہتک کے جذبات پیدا ہونا ایک فطری امر تھا. ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوج میں موجود نفرت کا ایک باعث جاگیردار اشرافیہ کے خلاف ہونے والی نفرت بھی تھی اور امریکہ کیلئےجنرل ضیاءالحق کی شکل میں اس نفرت کو استعمال کرنا انتہائی آسان کام تھا
ضیاء الحق کے مارشل لاء کی دوسری ٹھوس اور اہم وجوہات بھی ہیں مگر فی الوقت وہ موضوع بحث نہیں ہیں
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران امریکہ کو ایک بار پھر موقع مل گیا کہ پاکستانی معاشرے میں موجود برطانوی اثرورسوخ جوکہ جاگیردارانہ اشرافیہ کی صورت موجود تھا کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ختم کردیا جائے یا اسکو انتہائی کمزور کر دیا جائے. ضیاء الحق نے آتے ہی پھر سے صنعتی سرگرمیوں پر سے پابندیاں ختم کرتے ہوئے پاکستان معیشت و سماج کو ایک سرمایہ دارانہ سماج کی طرف بدلنے کا کام شروع کردیا اور اس سلسلہ میں فوج کے ساتھ ساتھ عوام میں سے ایک سرمایہ دار اشرافیہ کی دیوار بنانا شروع کردی. نواز شریف کی سیاست میں سرپرستی،  ضیاء الحق اور امریکہ کا وہی دیرپا منصوبہ تھا جس کی بدولت پاکستان میں جاگیردار اشرافیہ کو ایک سرمایہ دار اشرافیہ سے بدلنا تھا
اگر لوگوں کو پنجاب میں نواز شریف کے خلاف پہلی تحریک عدم اعتماد کا زمانہ یاد ہو تو اس زمانے میں سید مردان علی شاہ پیر پگاڑہ نے یہ مشھور الفاظ کہے تھے کہ یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لڑائی ہے

پیپلز پارٹی اور اشرافیہ

پاکستان پیپلز پارٹی اکثر یہ نعرہ لگاتی ہے کہ وہ ہی اصلی جماعت ہے جو اسٹیبلشمنٹ (پاکستانی) کے خلاف ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی جدوجہد کی علامت ہے. اصل میں جب پیپلز پارٹی یہ بات کر رہی ہوتی ہے تو وہ جاگیردارانہ اشرافیہ کی فوجی اشرافیہ اور سرمایہ دار اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کی بات کر رهی ہوتی ہے کہ پاکستان میں اب صرف پیپلز پارٹی ہی جاگیردار اشرافیہ کی نمائندہ جماعت ہے اور اس میں شامل جاگیرداروں وڈیروں کی تعداد سے اسکا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے. پیپلز پارٹی کا پنجاب اور بالخصوص شہری صنعتی علاقوں سے مکمل خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نئی سرمایہ دار اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے. اسی طرح کراچی میں مہاجر طبقہ کے ساتھ سندھی زبان کے بل سے لیکر موجودہ مخاصمت تک یہ بات عیاں ہے کہ پیپلز پارٹی کو صرف جاگیردار اشرافیہ کے مفادات کو محفوظ کرنے سے غرض ہے اور نئی سرمایہ دار اشرافیہ سے اسکا کچھ خاص لینا دینا نہیں ہے

عمران خان – فوج -نواز شریف
اسی کی دھائی میں پاکستانی فوج نے جناب نواز شریف کو پالا پوسا اور انہیں نئی سرمایہ دار اشرافیہ کا نمائندہ اور سربراہ بنادیا. لیکن نواز شریف اپنی افتاد طبع اور فکری و نظریاتی ناپختگی کی وجہ سے یہ نہ سمجھ سکے کہ فوجی قیادت اور امریکہ کے سوچ بچار کرنے والے ایک نئی اشرافیہ (سرمایہ دار) کی تعمیر کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں نہ کہ کسی ایک شخصیت کی پرورش یا سرپرستی پر.جب فوجی اشرافیہ نے یہ دیکھ لیا کہ میاں صاحب انکے منصوبے کو مکمل کرنے سے قاصر ہیں تو یہی سوچا گیا کہ انکی بجائے کوئی اور گھوڑا میدان میں اتارا جائے تاکہ نئی اشرافیہ کی پرورش میں آسانی رہے
جناب مشرف کی نواز شریف کے خلاف فوجی بغاوت اصل میں صرف انہی کے خلاف فوج کی بغاوت تھی اور اسی لئے نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نون کے زیادہ تر افراد کو نئی حکومت میں شامل کرلیا گیا تھا اور خاص طور پر شہری سرمایہ دار طبقے کو اس میں اچھا خاصہ حصہ دیا گیا تھا. جنرل مشرف نے بیوروکریسی میں موجود جاگیردار اشرافیہ کے اثرورسوخ کو ختم کرنے کیلئے بھی اسکی ریڑھ کی ہڈی ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ کو مکمل بے اختیار کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسکے ساتھ ساتھ شہری حکومتوں کے نظام کے ذریعہ نئی سرمایہ دار اشرافیہ کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی
فوجی اشرافیہ کو جنرل مشرف کے سیاسی اخلاقی جواز کا ہمیشہ سے مسئلہ تھا اور مشرف کی بینظیر کے ساتھ  ڈیل ایک بار پھر سے جاگیردار اشرافیہ کو اپنے قدم جمانے کا موقع دینا تھا . نواز شریف کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اور خاص طور پر انکے فوج کے خلاف سخت موقف کی بنا پر فوجی اشرافیہ کی نظر جناب عمران خان پر پڑی اور انہیں سرمایہ دار اشرافیہ کے نئے سیاسی نمائندے کے طور پر مشھہوری اور اہمیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا
فوجی اشرافیہ کیلئے عمران خان کی پاکستان کے نوجوان شہری پڑھے لکھے طبقہ میں مقبولیت ایک نعمت ثابت ہوئی اور عمران خان کا جاگیردار اشرافیہ سے بھی تعلق نہیں تھا لیکن جاگیردار اشرافیہ کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور تھے جو کہ جاگیردار اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو توڑنے کیلئے کارآمد تھے
یوں پراجیکٹ عمران کے اوپر کام شروع ہوا لیکن فوجی اشرافیہ اس معاملے میں نواز شریف سے بھی بڑی غلطی کر بیٹھی کہ خان صاحب ، میاں نواز شریف سے بڑے خود پسند ثابت ہوئے اور انہوں نے بجائے شہری سرمایہ دار اشرافیہ اور فوجی اشرافیہ کو ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر قوت بنانے کے، صرف اپنے ذاتی عزائم کیلئے کام کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدود کرلیا
امریکی و فوجی منصوبہ سازوں کیلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکہ تھا اوراس بات نے انہیں دوبارہ پھر سے نواز شریف کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کردیا

چین کی آمد
چین کی اقتصادی ضروریات اور خام مال و تیار اشیا کی بلا تعطل ترسیل کیلئے چین کو پاکستان کے راستہ سمندروں تک رسائی انتہائی ضروری ثابت ہوئی. اس کیلئے اسے پاکستان میں ایسے حکومتی شراکت کار کی ضرورت تھی جو خود بھی سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور سرمایہ دار اشرافیہ کے وجود و استحکام میں بھی یقین رکھتا ہو. اس مشترکہ نکتے پر پاکستان میں امریکی مفادات بھی یکساں تھے اور امریکہ کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری (سی پیک) پاکستان میں سرمایہ دار اشرافیہ کے  استحکام و پھیلاؤ مددگار و معاون ہی ثابت ہوتی تھی  
فوجی اشرافیہ بھی جوکہ جاگیردار اشرافیہ سے شدید خار کھاتی ہے کو سی پیک منصوبہ انتہائی مددگار محسوس ہوا. یہی وجہ ہے کہ سی پیک منصوبے پر جناب زرداری کے حکومت کے دوران کوئی کام نہ ہوا کہ چین اور پاکستانی فوج بشمول امریکہ کو جاگیردار اشرافیہ کی نمائندہ جماعت سے اس بارے کسی ٹھوس کام اور پراگریس کی کوئی امید نہ تھی اور نواز شریف کی حکومت کا انتظار کرنا مناسب سمجھا گیا
نواز شریف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک سے منسلک منصوبوں پر انتہائی سرعت سے کام جاری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سرمایہ دار اشرافیہ جس میں فوج اور شہری عوام شامل ہیں کو جاگیردار اشرافیہ کے مقابلے مضبوطی کا کام بھی جاری ہے
اگر آپ تھوڑا ذہن پر زور دیں تو آپکو پتہ چلے گا کہ سی پیک منصوبے کے خلاف آواز انہی حلقوں کی طرف سے بلند ہوئی تھی جو کہ جاگیردار اشرافیہ کا حصہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد ہوگا کہ فوج ایک سے زائد مواقع پر یہ 
کہہ چکی ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کی محافظ ہے

اختتام
اگر پاکستانی کی اقتداری اور اختیار کی حقیقت کو دیکھا جائے تو اس میں تین بڑے طبقات ہیں جن کے درمیان اقتدار و اختیار کی جنگ ہوتی ہے. ایک فوج ، دوسرا سرمایہ دار طبقہ ، تیسرا جاگیردار طبقہ
دوسرے الفاظ میں پاکستانی اشرافیہ یا اسٹیبلشمنٹ کے تین حصے ہیں اور انکے درمیان ابھی تک اقتدار اور اختیار کے توازن بارے کوئی فارمولہ یا معاہدہ موجود نہیں ہے . ایک ڈھیلی ڈھالی مفاہمت تو ضرور موجود ہے لیکن چونکہ ان تینوں طبقات میں سے کوئی بھی گہرا فکری یا نظریاتی نہیں ہے تو نظریاتی بنیادوں پر کوئی بھی مستقل بندوبست طے نہیں ہو پارہا
ہر فریق ایک دوسرے کا ڈسا ہوا اور ایک دوسرے سے ڈرا ہوا ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ سرمایہ دار اشرافیہ اور فوجی اشرافیہ میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہے لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ایک زرعی اور جاگیردارانہ پس منظر والا معاشرہ ہےاور صنعتی انقلاب کی اسے ہوا نہیں لگی اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید ہے تو جاگیردار اشرافیہ ابھی تک اچھی خاصی قوت کے ساتھ موجود ہے
ایک اور مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ کہ شہری عوام جس کی نمائندگی سرمایہ دار اشرافیہ (نواز شریف) کے ذریعہ ہورہی ہے کے دل میں فوجی اقتدار کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے فوجی اشرافیہ اب شش و پنج میں ہے کہ معاملات کو کیسے آگے بڑھایا جائے اور نواز شریف کے بارے میں یہی تذبذب کچھ بھی کرنے سے اسے روکے ہوئے ہے کہ کسی قابل عمل شہری سرمایہ دار متبادل کی غیر موجودگی میں نواز شریف کی جگہ پھر سے جاگیردار اشرافیہ کو قبول کرنا پڑے گا
یہاں پر ضمنا یہ بھی عرض کردوں چونکہ فوجی اشرافیہ کی زیادہ تر تعداد اب متوسط اور بالائی متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے تو وہ بھی اپنے آپکو اس طبقہ کی نمائندہ سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے متوسط اور بالائی متوسط خاص طور پر شہری عوام میں اسکی مقبولیت سب سے زیادہ ہے
اس فقرے پر بات کو ختم کروں گا کہ جب بھی آپ پاکستان میں اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمل  یا جدوجہد کی بات سنیں تو پہلے اس بات کا تعیین ضرور کرلیا کریں کہ اس جدوجہد کی بات کرنے والا خود اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے  

No comments:

Post a Comment