Friday, August 2, 2019

تحریک عدم اعتماد-- اصل فکری مفلسی



چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو لیکر کل سے ملک بھر میں چیخ و پکار ہو رہی ہے ، اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے لیکر ان جماعتوں کے عام کارکنان و ہمدردان نے ایک ماتم بپا کیا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ، ہمارے سینیٹرز کو دھمکایا گیا یا خریدا گیا ورنہ ممکن ہی نہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ، یہ جمہوری روح ، روایات و اخلاقیات کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے
دوسری طرف حکومتی اتحاد کے رہنما اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے نا صرف شاداں و فرحاں ہیں بلکہ اپوزیشن کو طعنے ، طنز اور جگتیں بھی کر رہے ہیں ، اس کار خیر میں حکومتی اتحاد کی قیادتی جماعت ، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان و ہمدردان حصہ بقدر جثہ ڈالتے ہوئے حسب معمول تمام حدوں کو پار کر رہے ہیں
اپوزیشن رہنماؤں نے عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں باقی باتوں کے علاوہ اس بات پر زیادہ زور دیا گیا کہ انکے سینیٹرز کو خریدا گیا اور وہ اسکے خلاف تفتیش (انکوائری) کریں گیں اور جو سینیٹرز اس کام میں ملوث ہوئے انکو بے نقاب کیا جائے گا
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے وقت سے لیکر رات گئے تک ہمارے سوشل ، برقی و ورقی میڈیا پر تمام تجزیوں ، بیانات اور سیاسی پروگراموں میں صرف اور صرف ایک ہی بات کا سیاپا ہوا کہ سینیٹرز کی یہ خرید و فروخت غیر جمہوری و غیر اخلاقی رویہ ہے جس سے جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور عوام کا جمہوریت پر ایماد کمزور پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ
میں کل سے اس بات و نکتے کی تلاش میں ہوں کہ شاید کوئی تو بندہ ایسا ہو جس نے اصل نکتے و مسئلہ کی طرف اشارے سے بھی ذکر کیا ہو، تحریک عدم اعتماد کے مخالفین ہوں یا اسکے حمایتی، تمام کی تمام بحث و دلائل کی بنیاد سیاسی اخلاقیات و سیاسی روایات کی پاسداری پر رکھی گئی ہے اور اس بات پر لفظی جنگ ہورہی ہے کہ موجودہ اپوزیشن جماعتیں چونکہ ماضی میں یہ سب کرتی رہی ہیں تو اب انکا کیا گلہ اور یہ کہ انکو انکی اپنی کڑوی دوائی کا ذائقہ چکھنا پڑا ہے
اپوزیشن جماعتیں، دنیا بھر کی جمہوری روایات کے حوالے دے دے کر پھاوے ہوئی ہوئی ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں لا رہی ہے کہ فلاں فلاں ملک میں اگر حکومتی جماعت کے پاس ایوان میں اکثریت نہ ہو تو وہ چپ چاپ فیصلہ تسلیم کر لیتی ہے اور جمہوری روایت و اخلاقیات کی پاسداری کرتی ہے
اس ساری بحث و دلائل کی بھرمار میں حکومتی اتحاد و اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں ، انکے کارکنان و ہمدردان، ہمارے صحافیوں ، دانشوران ، سوشل میڈیائی مجاہدین ، سیاسی تجزیہ نگاروں الغرض کہ سیاسی شعور کے نام نہاد دعویدار معاشرے کے تمام افراد نے فکری و نظریاتی قلاشی و بھکاری پن کا مظاہرہ کیا. میں نے کل سے ایک بھی بیان ، تجزیہ یا رائے نہیں دیکھی جس میں کہا گیا ہو کہ ووٹ کا خریدنا یا بیچنا اصل میں ایک کریمنل یعنی جرم کا معامله ہے اور متعلقہ محکمے یعنی پولیس ، ایف آئی اے ، آئی بی اور نیب کو فوری طور پر اسکی تفتیش کرکے ووٹ بیچنے والے اور ووٹ خریدنے والے لوگوں کا تعین کرکے ان پر فوری طور پر مقدمہ چلایا جائے اور قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے اور آئندہ کیلئے ان لوگوں کے سیاسی عمل میں شرکت پر آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت تاحیات پابندی لگائی جائے
دنیا کے جمہوری ممالک کی کل سے گلے پھاڑ پھاڑ کر مثالیں دینے والوں میں سے کسی کو بھی اتنی شرم نہ آئی کہ بتاتا کہ ووٹنگ فراڈ ان ممالک میں کتنا سنگین معامله ہے اور ایسی کسی اطلاع کی صورت وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے فورا حرکت میں آ جاتے ہیں اور عام اراکین پارلیمنٹ سے لیکر وزراء ، وزیر اعظم اور صدر تک کو شامل تفتیش کر لیتے ہیں اور کسی کو کوئی رو رعایت نہیں ملتی
 کیا اپوزیشن اتحاد کے کسی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی قانون نافذ کرنے والے ادارے فورا تفتیش کریں اور ذمہ داروں کو بے نقاب کریں ، جناب یہ آپ کی جماعت کا اندرونی معامله ہرگز ہرگز نہیں ہے یہ ایک کریمنل معامله ہے اور آپکو خود اپنے تمام سینیٹرز کو شامل تفتیش کروا دینا چاہئے تاکہ پتہ چلے کن کن لوگوں نے ان سے ووٹ خریدے یا انہیں دھمکایا ڈرایا
ایک عام اداکارہ سے ائیرپورٹ پر شراب کی بوتل برآمد ہونے پر سوموٹو لینے والی ہماری عدالت عظمیٰ کو بھی چاہئے کہ اس انتہائی سنگین معاملے پر سوموٹو لے اور ایک عدد جے آئی ٹی کا اعلان کرے جس میں سوائے فوجی اداروں کے صرف سویلین ادارے شامل ہوں
اگر حکومتی اتحاد ، اپوزیشن اتحاد، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آپکی عدالت عظمیٰ اس سنگین معاملے پر لسی پی کر سوئے رہتے ہیں تو جان لیجئے کہ کتی چوراں نال رلی ہوئی جے
اور ہاں جن لوگوں کو کوئی شک ہے کہ یہ کریمنل معامله نہیں ہے انہیں پاکستان پینل کوڈ کا آرٹیکل ایک سو اکہتر تفصیل سے پڑھ لینا چاہئے

No comments:

Post a Comment